لفظ status پر میں نےکبھی محققانہ غور و فکر نہیں کیا تھا،ویسے بھی اس لفظ میں کونسے سرخاب کے پر لگے تھے کہ چشم زدن میں مجھے عالم و ادیب بناکر انفرادیت عطا کردیتے،یا پھر اس لفظ کی پیشانی پر کوئی علاء الدین کا چراغ تو چسپاں تھا نہیں کہ وہ اشاروں ہی اشاروں میں اپنی طلسماتی قوتوں کا سہارا لے کر میرے دماغ میں سارے علوم ڈال دیتا،خیر! وقت کے ساتھ الگ الگ شرارتی رویوں کو اپناتے ہوئے،شعور کی بالیدگی کے بعد مجھ پرسن بلوغت کی مہر لگ گئی اورمیں کتابوں کی الماریوں کی طرف رجوع کیا، دوران مطالعہ بہت سارے نئے الفاظ اور خوبصورت جملوں سے میرا سامنا ہوا،لیکن کیا مجال کہ کوئی ایک پرمعنی جملہ میرے ذہن کے کسی دریچے میں جا کر بیٹھ جاتا،البتہ ایک لفظ نے مجھ پر عنایت کیا اور دو تین مرتبہ کی ادائیگی کے بعد وہ ذہن نشیں ہوگیا،وہ لفظ اسٹیٹس ہے۔
اس تعلق سے مجھے اب تک یاد ہے جب پہلی مرتبہ یہ لفظ میری سماعت سے ٹکرایا تھا تو میں تھوڑا بہت غور و فکر کیاتھا وہ بھی بحالت مجبوری کیوں کہ جس شخص کی زبان سے اس لفظ کی ادائیگی ہوئی تھی ان کی باتوں کو سمجھنے سےمیں قاصر تھا،بات کچھ یوں ہے کہ تقریباً دس سال قبل میرے ایک ہم نوا جو پیشے سے معلم ہیں،ایک اجنبی شخص کا تعارف کراتے ہوئے کہا تھا۔۔۔ ،،سر سے ملیے ،سر کا اپنے حلقے میں ایک اسٹیٹس ہے،،۔ یہ جملہ سنتے ہی مجھے لگا تھا کہ شخص مذکور کے پاس اسٹیٹس نام کا کوئی بزنس یا ذاتی کاروبار ہوگا جو ذریعہ معاش اورآمدنی کا مظبوط راستہ ہوگا.
میرےچہرے کے آو بھاؤ سے جلدہی میرے دوست کو جو میری انگریزی سے اچھی طرح واقف تھے،احساس ہوگیا کہ لفظ اسٹیٹس کی وجہ سے میں ان کی باتوں کو نہیں سمجھ سکا ہوں،چنانچہ وہ فورا وضاحت کرتے ہوئے بولے! مطلب۔۔،،سر کی اپنے حلقے میں ایک الگ پہچان ہے،سراپنے رکھ رکھاؤ ،علمی صلاحیت اورانتظامی قابلیت کے سبب سماج میں ایک نمایاں شناخت رکھتے ہیں،اور سب سے بڑی بات یہ کہ سیاست کی دہلیز تک ان کو باریابی حاصل ہیں۔،، میں ماشاءاللہ۔۔ ماشاءاللہ۔۔ کہتے ہوئے موضوع گفتگو کا رخ بدلنا چاہا،کیوں کہ مجھے اس بات کا خدشہ ستانےلگا کہ ایسا نہ ہو کہ انگریزی کے دوچار الفاظ کا میں مزید سامنا کروں اورپھر ایک لفظ کے افہام کے لیے عقل کے گھوڑے دوڑانے پڑے۔ علمی کمتری کا احساس اب مجھے اندر سے کھائے جارہا تھا، چنانچہ اس محفل کو وہیں پر برخاست کرکے میں گھر کے لیے روانہ ہوگیا۔
اس ناگاہ واقعہ کے بعد لفظ اسٹیٹس سے میں جتنا بچنے کی کوشش کرتا اتنا ہی یہ لفظ میرا پیچھا کرتا رہا۔
یہ لفظ میری بےعزتی کی وجہ بنا تھا، قبل از وقت مجھے محفل چھوڑنے پر مجبور کیا تھا، سب باتیں مجھے یاد تھیں، اس لئے مجھےاس لفظ سے نفرت سی ہوگئی تھی، لیکن یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ یہ ایک لفظ تھا،اس سے نفرت کرکے میں کیا کر لیتا،اس سے بدلا لینے سے تو میں رہا،انتقامی جذبہ کبھی جوش میں آتا بھی تو خود سرد پڑجاتا اور ویسےبھی اس کے سوا اس کے پاس کوئی چارا بھی نہیں تھا۔۔۔
وقت بدلا، زمانے بدلے، طرز زندگی میں انقلابی سطح پر تبدیلیاں آئیں، اور پھر آیا موبائل کا وہ دور جس میں دور کے لوگ قریب ہوتے گئے اور قریب کے لوگ دور، موبائل جب انسانی ضرورت کا ایک حصہ بن گیاتو دوسری مرتبہ لفظ اسٹیٹس سے میرا سامنا ہوا۔ اس بارکا واقعہ کچھ یوں ہے کہ میرے ایک جونیئر دوست کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ ہر دس منٹ پر موبائل دیکھنے کی عادت تھی ایک مرتبہ میرے بگل میں بیٹھ کر حسب معمول اپنی اس عادت پر عمل پیراتھا،اس کی یہ حرکت میرے مطالعے میں خلل کا کا باعث بن رہی تھی، لیکن میرے لاکھ منع کرنےکے باوجود اس کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔
جب پانی سر سے اونچا ہوگیا تو میں جھنجھلاہٹ کے ساتھ اس سے مخاطب ہوا اور کہا۔،،یا تو پہلے کتابوں سے مستفیض ہوجاو یا پھر موبائل سے پورے طور پر استفادہ کرلو ۔بیک وقت دو کام کو ایک ساتھ انجام دینا سائنسی اور دینی دونوں اعتبار سے صحیح نہیں ہے۔ میرے اس غیر متوقع رویے سے پہلے تو وہ آگ بگولا ہوگیاپھر سنجیدگی کا دامن پکڑتے ہوئے بولا۔ ،،دوست! دراصل میں نے وہاٹس ایپ پر ایک اسٹیٹس اپلوڈ کیا ہے اسی کو بار بار دیکھ رہا ہوں کہ کتنے لوگ seen (دیکھے) کئے ہیں اور کون کون دیکھنے سے اب تک محروم رہا ،،
اسٹیٹس لفظ سننے کے لیے میرا کان بالکل متحمل نہیں تھا، میں سکوت اختیار کرنے میں ہی عافیت سمجھا، وہ اسٹیٹس کے تعلق سے سوال پہ سوال داغے جارہا تھا،لیکن میں ان کےسوالوں کے نرغے میں بالکل نہیں پھنسنے والا تھا۔اس لیے میں بلا جھجھک بول دیا۔،،بھائی ! میراابھی کوئی اسٹیٹس نہیں ہے، کچھ دنوں بعد پڑھ لکھ کر ایک کامیاب انسان بن جاؤں گا تو میرا بھی اپنا ایک اسٹیٹس اور معیار ہوجائے گا اور پھر۔۔۔۔۔۔
اس کے تمسخرانہ قہقہ نے میراجملہ بھی مکمل نہیں ہونے دیا۔غصے سے میرا چہرہ لال پیلا ہوگیا،قبل اس کے کہ میں اس کو آداب گفتگو کے کچھ اصول سکھاتا،وہ اپنےگیان کی پٹاری کھولتے ہوئے بولا ،،دوست! علم صرف کتابوں تک محدود نہیں رہتا ہے۔کبھی کبھی کتابوں سے باہر نکل کر دیکھو، علم کی دیوی کا بسیرا اب سوشل میڈیا پر بھی ہونے لگا ہے،،۔ پھر اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا۔ ،،ارے بے وقوف! وہاٹس ایپ اسٹیٹس لگانے کے لیے خود کا کوئی اسٹیٹس ہوناضروری نہیں ہے ، کوئی بھی انسان اپنے وہاٹس ایپ پر اسٹیٹس لگا سکتا ہے۔
اب میں سوچنے لگا یہ وہاٹس ایپ اسٹیٹس کیا ہے۔ یہ خیال کرکے اپنے آپ پر کوسنے لگا کہ اتنے لمبے وقفے سے اس ایپ کے استعمال کے باوجود اس نئے فیچر کے استفادے سے اب تک محروم رہا۔ اور اس بارے میں کھل کر میں اس سے پوچھ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ میرے اندر کی علمی برتری مجھےاس بات کی اجازت نہیں دے رہی تھی کہ جونیئر دوست سےکچھ پوچھ کر اپنے علم میں اضافے کروں، ویسے بھی وہ دوست سالوں سےمیری علمی قابلیت سے مرعوب تھا،لہذا میری کوشش یہ رہی کہ میری کم علمی کا اسے قطعاً احساس نہ ہو۔
میں فوراً دوسرے ایپلیکیشن کے بارے میں اسے بتانے لگا جس کا نام میں صرف سن رکھا تھا کبھی استعمال کی توفیق نہیں ہوئی تھی۔لیکن میری باتیں سنے بغیر وہ اپنا اسٹیٹس دکھانے لگا اور وہاٹس ایپ اسٹیٹس اپلوڈ کرنے کے پورے عمل کو سمجھانے لگا، میں نے بھی وقتی استاد ہونے کا اسے پورا موقع دے دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی میں Status کے لفظی معنی کو یہاں فٹ کرنے کی ناکام کوشش کرنے لگا لیکن جلد ہی مجھے یہ احساس ہوگیا کہ معنی کے لفظی بھنور سے نکلنے میں ہی بہتری ہے۔
اللہ اللہ خیر صلا کہہ کر ان تمام پیچیدگیوں سے جان چھڑاتے ہوئے دوست کو رخصت کیا اور میری جان میں جان آئی۔لیکن اس کے بعد اس علم کو میں ضائع نہیں ہونے دیا، وہاٹس ایپ پر جب چاہتااسٹیٹس اپلوڈ کرتا تھا،اور کتنے لوگ اسٹیٹس دیکھ رہے ہیں اس کا جائزہ لیتا رہتا اور وقتی مسرت سے محظوظ ہوتا۔ لیکن دوسری طرف مجھے شدت سے اس بات کا احساس ہو رہا تھاکہ جب سے میں وہاٹس ایپ اپلوڈ کرنے لگا تھا، اپنے لوگوں کے بیچ خود کا اسٹیٹس اور معیار قائم کرنے کا خیال( جو پہلے ذہن پر حاوی تھا) محو ہوچکا تھا اور جب سے یہ عقدہ میرے سامنے کھلا تھا کہ وہاٹس ایپ اسٹیٹس دیکھنے دکھانے کے عمل کو جاری رکھنے کی پہلی اور آخری شرط ایک دوسرے کا موبائل نمبرمحفوظ ہونا ہے، تب سے لوگوں کے ساتھ میرا اخلاقی رویہ بہت بدل چکا ہے،اب میں پہلے سے زیادہ خوش گفتار ہوگیا ہوں تاکہ موبائل نمبر کے لین دین میں آسانی ہو اور میرے اسٹیٹس سے زیادہ لوگ فیضیاب ہو۔
وقت کے ساتھ مجھےاب اسٹیٹس دیکھنے دکھانے کا ایڈیکشن ہوگیا تھا،چنانچہ اس لت سے نجات پانے کی فکر لاحق ہوئی، اسی وجہ سے میں ایپلیکیشن ڈیلیٹ کرنے کا تہیہ کرلیاتھا،انہیں دنوں میرا ایک خبطی دوست میرے پاس آیا، علیک سلیک کے بعد موبائل کی دنیا میں مصروف ہوگیا، تھوڑی دیر بعد بڑی گرمجوشی سے بات کرتے ہوئے وہ مجھے انسٹاگرام نامی ایک اپلیکیشن ڈان لوڈ کرنے کی ترغیب دینے لگا، اس ایپ کے متعلق کچھ بنیادی بات بتانے کے بعد بولا۔
اس ایپ کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ اپنی مرضی کے مطابق اسٹیٹس لگا سکتے ہیں۔ یہ لفظ سنتے ہی میں اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا، اور بغیر وقت گنوائےاپنا موبائل میں اس سے چھپٹ لیا تاکہ اسٹیٹس کی مزید بلاؤں کا مجھےسامنا نہ کرنا پڑے۔ میرے اچانک اس قدر بگڑنے سےاس کو لگا کہ شاید میرے اوپر کوئی آسیبی اثر ہے وہ خفگی کا اظہار کرتے ہوئے فوراً رفو چکر ہوگیا۔ لیکن اس کی خفگی کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوا اور اسٹیٹس والے تمام ایپلیکیشن ہمیشہ کے لیے میں نےہٹادیا۔۔۔۔۔
اور اب میں اس اسٹیٹس کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتا ہوں جو میری علمی قابلیت میں اضافہ کرے اور قائدانہ صلاحیت میں چار چاند نہیں تو دو چاند ضرور لگائے، جس اسٹیٹس کے لیے میں شب و روز ایک کر رہا ہوں اسی میں پائیداری ہے باقی تو سب وقتی ہے جس میں صرف سراب سی چمک ہے۔
تحریر | ایس شفیق |