اشتراکیت اور اشتمالیت کے ابتدائی نقوش – (افلاطون سے کارل مارکس تک)

اشتراکیت اور اشتمالیت کے ابتدائی نقوش – (افلاطون سے کارل مارکس تک)

اس آرٹیکل میں اشتراکیت کے علمبردار مفکرین اور فلاسفہ کی جانب سے پیش کیے گئے نظریات اور علمی سرگرمیوں پر ایک طائرانہ جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ کہ اشتراکیت اور اشتمالیت کے ابتدائی نقوش” کہاں؟ کیوں؟ اور کیسے کیسے پیش کیے گئے۔ اس حوالے سے مزید معلومات کے لیے دیکھتے رہیے ہماری ویب سائٹ  Ilmu علموبابا ۔

اشتراکیت اور اشتمالیت کے ابتدائی نقوش - (افلاطون سے کارل مارکس تک) Ishtarakiyat aur Ishtamaliyat ky Ibtadai Naqoosh - (Ishtarakiyat ki Riwayat)
اشتراکیت اور اشتمالیت کے ابتدائی نقوش – (افلاطون سے کارل مارکس تک) Ishtarakiyat aur Ishtamaliyat ky Ibtadai Naqoosh – (Ishtarakiyat ki Riwayat)

انسان شروع سے ایک ایسے معاشرے کا خواہش مند رہا ہے۔ کہ جس میں اس کی ضروریات احسن طریقے سے پوری ہوں۔ عورت اور مرد کو مساوی حقوق حاصل ہوں۔ امیر و غریب کی تفریق نہ ہو۔ بچوں کی تعلیم و تربیت اور طبی امداد کے ایک جیسے مواقع میسر ہوں۔ ہر شخص کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ اپنے جسمانی و ذہنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرے۔ قانون کی نظر میں حاکم و محکوم برابر ہوں تاکہ سکون و شادمانی کی زندگی گذار سکے۔ جیسا کہ شروع میں بیان ہوا ہے کہ قدیم اشتمالی معاشرے میں نجی ملکیت کا تصور نہ تھا۔ خوراک، لباس اور ٹھکانے میں افراد با ضابطہ بالظابطہ برابر کے شریک تھے۔ املاک مشترکہ تھی اور پورا قبیلہ یکساں طور پر اس سے مستفید ہوتا تھا۔ جبکہ زرعی انقلاب آیا تو رفتہ رفتہ شخص املاک کا آغاز ہوا، جس نے وحدت انسانیت کو پارہ پارہ کیا۔ آقا، غلام، زمیندار اور مضارع جیسے طبقات معاشرے میں بن گئے۔ حصول املاک کے لالچ نے ظلم و جبر و استبداد،لوٹ کھسوٹ، قتل و غارت، تصرف و تقلیب، لالچ اور حسد جیسے منفی جزیات کو ابھارا کمزوروں اور محنت کشوں کیلئے یہ دنیا دوزخ بن گئی۔ مذہب کو پادریوں نے عوام کے استحصال کیلئے استعمال کیا۔ اور جب لوگ پادریوں پر سوالات اٹھاتے یا مزاحمت کرتے تو یہ جبر کے ذریعے ان کی زبان بند کراتے یا پھر عالم آخر سے ڈراتے رہتے اور ان کو ایک خیالی دنیا اور مثالی معاشرہ جس کو یونانی زبان میں”یوٹوپیا“ کہتے ہیں۔ اس کے لئے لوگوں کو ذہنی طور پر تیار کرتے۔ افلاطون سمیت کئی خرد مندوں نے اپنے ”یوٹوپیا“ یعنی اشتمالی معاشرے کے حق میں قلم اٹھایا اور شخصی املاک کو تمام مصائب و جرائم کا جڑ قرار دیا ہے۔

            افلاطون کی کتاب ”جمہوریہ“ میں اس طرح کے مثالی ریاست پر مکالمے ملتے ہیں جس میں شخصی املاک کا کوئی تصور نہیں سب لوگ اجتماعی بہبود اور ریاست کیلئے کام کرتے ہیں۔ زندگی کی بنیادی ضروریات روٹی، کپڑا، مکان، روز گار اور تعلیم ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ افلاطون نے تین طبقے بنائے ہیں۔ ایک طبقہ حکام کا جو ریاست کے امور چلاتے ہیں افلاطون کے بقول حکام کو فلسفی اور خردمند ہونا چاہیے تاکہ ریاست کیلئے قوانین وضع کر سکیں۔ اور ان قونین کو نافذ کرنے کیلئے سخت جان فوجی ہونگے تا کہ قوانین کا نفاذ ممکن ہو سکے اور تیسرا طبقہ عوام کا جو محنت کریں گے۔

            شاہ قباد کے دور میں ایران کے ایک شہری نے اشتمالیت کی تبلیغ شروع کی ان کا نعرہ تھا کہ” زر، زن اور زمین“ اصل فساد کا باعث ہے۔ اس وجہ سے ان کو سب انسانوں میں برابر تقسیم کر دیا جائے تو خوشحالی آئی گی۔ بادشاہ وقت اس کے اس نعرے سے متاثر ہوئے اور جاگیرداروں سے زمینیں لینی شروع کیں۔ لیکن جاگیرداروں نے اتحاد کر کے اس کو معزول کیا اور بادشاہ کے بھائی کو تحت پر بٹھایا۔ لیکن عرصے بعد جب شاہ قبار کسی طرح دوبارہ تحت پر قابض ہو گیا تو درباریوں نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ ملک میں تمام فساد اور مسائل کی جڑ مزدک اور اس کے پیروکار ہیں۔ اس وجہ سے بادشاہ نے مزدک اور ان کے پیرکاروں کو دربار میں بلایا اور سپاہیوں کے مدد سے قتل کیا اور بعد میں پورے ملک میں ایک ایک مزدکی کو ڈھونڈ کر قتل کیا۔

اسلامی تاریخ اور روایت بھی مزدوروں، محنت کشوں، غلاموں اور ملازموں کے جن حقوق کو پیش کرتی ہے، اور انہیں طاقت ور  اور صاحبِ اختیار بنا کر پیش کرتی ہے،  وہ بھی کچھ حد تک اشتراکی نظریات سے ہم آہنگ دکھائی دیتے ہیں۔

            نشاة ثانیہ کے دور میں ایک انگریز عالم ٹامس مور تھا جس نے ہشتم ہندوی کو کلسیا کا صدر ماننے سے انکار کیا جس کے پاداش میں اس کو قتل کیا گیا۔ ٹامس مور نے بھی شخصی املاک کو تمام مسائل کا جڑ بتایا ہے۔ اور اپنی ایک مثالی ریاست کا خاکہ پیش کیا ہے۔ ٹامس مور کی یوٹپا کے اشاعت کے بعد اطالیہ کے ایک عالم کمیا نیلا کی ایک کتاب صحرِ آفتاب شائع ہوئی۔ اس نے ذاتی املاک کو تمام مسائل کو جڑ بتایا۔مرد اور عورت کے مساوی ہونے کا نعرہ بلند کیا۔

            اٹھارویں صدی یورپ میں خرد افروزی کی صدی ہے۔  اس صدی میں یورپ میں تعقل پسندی کو فروغ حاصل ہوا۔ اس کا آغاز بیل (1706-1644)سے ہوا۔ وہ  یونیورسٹی میں پروفیسر تھا اس نے تاریخ جغرافیہ، ادبیات، لسانیات اور الہات پر منفرد مقالے لکھے۔وہ ہر مسئلہ کو عقلیت کے نقطہ نظر سے دیکھتا تھا۔ فرانس کو بہت دانشوار ان سے متاثر ہوئے جن میں ویدرو، وایسٹر، دولباخ، قبا شامل تھے۔ انھوں نے بھی بادشاہ اور اس کے درباریوں کے عیاشیوں پر تنقید کی۔

دولباخ نے اپنی کتاب(مترجمہ) “عیسائیت کا کچھا چٹحا” میں کلسیا اور ریاست کے گٹھ جوڑ پر تنقید کی ہے۔

            گراکس باہو(1767-1760)اور اس کے ساتھیوں نے انقلابی جمہوریہ کے نام پر تحریک چلائی اور ایک منصفانہ معاشرہ قائم کرنے کی دعوت دی۔ انہوں نے حکومت پر قبضے کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے گلوٹین پر موت کی سزا دی گئی۔

            انیسویں صدی کے یوٹوپیائی اشتمالیت پسندوں نے بھی 18ویں صدی کی تحریک خرد افروزی سے فائدہ حاصل کیا۔

            مشارل فورتپے(1792-1837)نے بووژوا معاشرے پر عالمانہ نقد لکھا۔ ان کا خیال تھا کہ مادیت ہی انسان کی تشکیل کرتی ہے۔

            نکولائی چرنی میومنکی1889-1828)) روس کا مادیت پسند انقلابی عالم تھا۔جسے انقلابی سرگرمیوں کی پاداش میں سائبریا بھیج دیا گیا۔ اس نے خواس خمسہ سے حاصل کردہ علم کو مستند قرار دیا۔ کانٹ پر تنقید کی۔ مارکس نے چرنی شومنکی کی گراں قدر خدمات کا انحراف کیا ہے۔ آخر میں پروروں کی کتاب ”املاک کیا ہے“ قابل ذکر ہے اس میں پرودوں کہنا ہے۔ ”تمام املاک پوری“ قابل ذکر ہے۔ اس کتاب سے جو پڑھے لکھے انقلابی متاثر ہوئے ان میں کارل مارکس بھی تھا۔ پہلے پہل مارکس ان سے بہت متاثر تھے لیکن بعد میں اختلاف رائے کی وجہ سے ان سے الگ ہوا۔

            افلاطون سے لیکر پرودوں تک یوٹوپیا کے مصنفین نے اشتمالیت کی روایت کا تحفظ کیا ہے۔ بلکہ اس کا پرچار کیا۔ پھر ایک وقت آ گیا کہ کارل مارکس اور اینجلز نے ان خیالات کو حقیقت کا روپ دینے کیلئے انقلابی جدوجہد کا آغاز کیا۔

 

(تحریر: وسیم عباس)

 

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں


اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔

اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔

 

Follow us on

Leave a Reply

Ilmu علمو