افسانہ۔ آخری بات۔ از وجیہہ فاطمہ

افسانہ۔ آخری بات۔ از وجیہہ فاطمہ

وقار اپنے دفتر کے کچھ کاغذات کھنگال رہا تھا اور ثریا سبزی کاٹنے کے ساتھ ساتھ مسلسل ان کی بیٹی کے لیے آئے ہوئے ایک نئے رشتے کے بارے میں بتائے چلی جا رہی تھی۔ بظاہر کام میں مصروف، وہ اپنی بیوی کے ایک ایک جملے کو بغور سن رہا تھا۔ “ما شآء اللہ بڑا نیک لڑکا ہے۔ پانچوں نمازیں با جماعت مسجد میں پڑھتا ہے۔  وقاص نے اس کے بارے میں کافی جگہوں سے پتہ بھی کروا لیا ہے۔ والدین بھی نیک ہیں اس کے۔ پورا محلہ ان کی تعریف کررہا تھا۔ بھئی محلہ میں اپنی ساکھ بنانے میں عمر گزر جاتی ہے۔ ”
مزید جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے علمو ڈاٹ پی کے 

افسانہ۔ آخری بات۔ از وجیہہ فاطمہ
افسانہ۔ آخری بات۔ از وجیہہ فاطمہ

“کرتا کیا ہے؟ اپنی ایم-اے پاس لڑکی کی شادی میں نے کسی مدرسے کے لڑکے سے تھوڑی کرنی ہے۔ ہماری بیٹی کو کھلائے گا کیا؟”  ،شوہر نے کام میں مصروفیت کو  برقرار رکھتے ہوئے پوچھا۔

“باجی رخشندہ تو کہہ رہی تھیں کہ کسی پرائیویٹ فرم میں افسر ہے۔ لیکن وقاص نے پتہ کروایا ہے تو پتہ چلا کہ افسر شفسر تو نہیں ہے۔ لیکن ہے اچھے عہدے پر ۔ کوئی انجینئر ونجینئر ہے کمپیوٹر کا۔ ایم فیل کیا ہوا ہے اس نے۔  تنخواہ بھی ٹھیک ٹھاک ہے۔ وقاص بتا رہا تھا کہ تنخوہ کم از کم ایک ڈیڑھ لاکھ تو لازمی ہو گی۔  دو دو بہنوں کی اتنی دھوم دھام سے شادیاں کی ہیں اس نے اپنے بل بوتے پر۔”  ایم ‘فیل’ سن کر شوہر کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی لیکن اس نے فوراً اسے دبا کر سنجیدگی کو طاری کر لیا۔ پرانے دور کی میٹرک پاس بیوی سے اسے یہی امید تھی کہ ایم فل کو ایم فیل کہے۔

دوسری طرف خود ایک مذہبی گھر سے تعلق رکھنے والی ثریا کسی بھی طرح وقار کو قائل کرنا چاہتی تھی کیونکہ اس کی نظر میں یہ رشتہ اس کی بیٹی کے لیے ہر لحاظ سے بہترین تھا۔ وقار کے  گھر مردوں میں  نماز روزے کا رواج کم ہی تھا۔ مسجد کی شکل مہینوں میں ایک آدھ مرتبہ ہی دیکھی جاتی تھی۔  گھر کی عورتیں ہی تھیں جن کی وجہ سے گھر میں تھوڑی بہت نماز قائم تھی یا گھر کی دیواریں کلامِ پاک سن پاتی تھیں۔  جس لڑکے کا رشتہ آیا تھا وہ دین دار بھی تھا اور مال دار بھی۔ ایک ماں کو اور کیا چاہیے۔

“میں خود سے اس لڑکے کے بارے میں پتہ کرتا ہوں۔” اسی طرح دفتر کے کاغذات میں منہ دئیے ہوئے شوہر نے کچھ فیصلہ سنانے کے سے انداز میں کہا۔ لیکن بیوی نہیں چاہتی تھی کہ وہ آخری بات اسے کہیں اور سے پتہ چلے اور وہ اس رشتے سے انکار کر دے۔ اس لیے اس نے تعریفوں کے مزید پل باندھنا شروع کیے۔ “پتہ ہے، باجی رخشندہ بتا رہی تھیں کہ ما شآء اللہ وہ لڑکا چھُٹی کے دن اپنے محلہ کے لڑکوں کو درس بھی دیتا ہے ۔اور اس کی تصدیق بھی وقاص نے کروا لی ہے۔ محلے والوں کی ہر مشکل میں مدد کرتا ہے۔ اللہ ایسے اخلاق ہمارے بچوں کو بھی دے۔”

بیوی نے اسی طرح سبزی کاٹنے میں مصروف رہتے ہوئے کن اکھیوں سے شوہر کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کی۔ لیکن اس کے چہرے پر وہی ازلی سنجیدگی تھی۔

” اچھی بات ہے کہ اس لڑکے نے دنیا کے ساتھ دین کو بھی رکھا ہوا ہے۔ ورنہ ہمارے کچھ لوگ تو دین کے ہی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ یہ خیال ہی نہیں ہوتا کہ بیوی بچوں کو اچھی زندگی اور تعلیم دلوانا بھی کسی چیز کا نام ہے۔ اب یہ لوگ جو اپنے بچوں کو حفظ کروانے بھیج دیتے ہیں،  انہیں کوئی بتائے کہ حفظ تو کبھی بھی کیا جا سکتا ہے۔ پڑھنے کی عمر ضائع کر دیتے ہیں یہ بچوں کی۔ یہ تو اچھا ہے کہ اتنے عرصے بعد رخشندہ کوئی بہتر رشتہ لائی  ہے جس میں لڑکا پڑھا لکھا بھی ہے اور کماتا بھی ٹھیک ہے۔”

 شوہر کی بات سن کر بیوی نے سکون کا سانس لیا۔ اسے شادی کے تیس سالوں میں آج تک شوہر کا چہرہ پڑھنا نہ آیا تھا کیونکہ اس کے چہرے کے تاثرات کم و بیش ایک جیسے ہی رہتے تھے ۔  “میں اپنے طور پر بھی اس لڑکے کی چھان بین  کرواؤں گا۔ وقاص ابھی بچہ ہے، اسے کیا پتہ کہ کس طرح کیا پتہ کرواتے ہیں۔” اس نے اپنے دفتر کے کاغذات سمیٹتے ہوئے کہا۔ بیوی کو اچانک دھڑکا لگا کہ کہیں وہ آخری بات اسے کہیں باہر سے نہ پتہ چل جائے۔ وہ اپنے شوہر کی پسند نا پسند سے واقف تھی۔ اسے لگا کہ ابھی معاملہ اس کے اپنے ہاتھ میں ہے اور وہ شوہر کو منا سکتی ہے۔ اگر یہی بات اسے باہر سے پتہ چلی تو اتنا اچھا رشتہ ہاتھ سے جائے گا اور بات چھپانے پر ایک الگ تماشا ہو گا۔ اس نے اپنے لہجے میں اعتماد لانے کی کوشش کی اور وہ آخری بات بتانے کے لیے ذہن میں الفاظ کو ترتیب دینا شروع کیا۔ “اب دیکھیں اتنا اچھا رشتہ روز روز تھوڑی آتا ہے۔ ہماری ایم ۔اے پاس بیٹی کے لیے ایک اچھا کمانے والا  لڑکا جو پڑھا لکھا بھی ہے ۔ باجی رخشندہ بتا رہی تھیں کہ اس کا مسلک ہمارا والا نہیں ہے۔ لیکن اتنے اچھے رشتے میں اب مسلک کیا دیکھنا۔ رشتے روز روز تھوڑی آتے ہیں۔ ہیں تو سب ہی مسلمان نا۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ہمارا مسلک کیا ہے۔” اس نے اپنے اندر کی پوری مٹھاس اپنے لہجے میں ڈال لی اور دوبارہ کن اکھیوں سے شوہر کو دیکھا۔ وقار کی چہرے کی ازلی سنجیدگی میں اچانک تبدیلی اور  ماتھے پر بل نمودار ہوئے۔ کمرے میں اچانک گہری خاموشی چھا گئی۔  چند سیکنڈوں کی خاموشی کے بعد وقار نے اپنے سخت اور حتمی لہجے میں کہا، “رخشندہ سے کہنا ہمارے گھر صرف اہلِ حق کے رشتے لے کر آیا کرے۔ دنیا کے لیے میں اپنی بیٹی کی آخرت برباد نہیں کر سکتا۔ “

از وجیہہ فاطمہ

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں


اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ Ilmu علموبابا

اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔

 

Follow us on

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
Ilmu علمو
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x