Table of Contents
انسان اور سماج
انسانی سماج ہزاروں سال کی مسافت طے کر کے اس صورت کو پہنچا ہے۔ آج سے ہزاروں سال پہلے یہ انسانی سماج جو نفسانفسی اور خود غرضی کا بوجھ سر پہ لیے تنزلی کی طرف گامزن ہے اس میں ہر ایک مساوی حق رکھتا تھا اور انفرادیت کے مقابلے میں اجتماعیت کو ترجیح دی جاتی۔ کسی چیز پر فردِ واحد کا قبضہ نہیں تھا ۔ لوگ مل جل کر کام کرتے مل جل کر رہتے اور مل جل کر کھاتے۔
مزید معلومات کے لیے ملاحظہ فرمائیے، ہماری ویب سائٹ Ilmu علموبابا
ترقی کے مختلف مراحل طے کر کے یہ انسان غاروں اور جنگلوں سے باہر نکلا اور زندگی کو ایک نئے افق سے روشناس کروایا۔ حسبِ معمول ہی اجتماعی طور پر کام کیا جاتا اور اور کام سے حاصل شدہ منافع کی تقسیم بھی اجتماعی بنیادوں پر کی جاتی۔ انسانی زندگی چوں کہ ارتقا پذیر ہے اور انسان چوں کہ اللّٰہ کی فطرت پر پیدا ہوا ہے اس لیے اس کی فطرت میں یہ چیز شامل ہے کہ یہ نئی سے نئی چیز کی طرف جاتا ہے ۔ اسی طرح جب اس نے ترقی کی تو اس کی یہ ترقی سماجی حقیقتوں میں تغیر کا باعث بنی۔ انسانی ضرورتیں جب بڑہیں اور انسان نے اپنے آپ کو جب خواہشات کے تابع کیا تو ہوس نے اس کو مجبور کیا کہ یہ دوسرے انسان کے حق پر قابض ہو۔ زندگی کے تغیر کے ساتھ ساتھ انسان کی خواہشات بڑھتی گئیں اور اس نے اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیئے دوسرے انسان کی حق تلفی کر کے اس کو پسِ پشت ڈالنے کی کوشش کی تا کہ وہ اس سے آگے نہ نکل پائے ۔ انسان کی ان خواہشات کی تکمیل اور ہوس پرستی نے پہلی بار انسانی سماج میں طبقات کو جنم دیا۔ یہی طبقاتی کشمکش معاشروں کی تنزلی کا سبب بنی۔
انسان نے جب دوسرے انسان کو اپنے ماتحت کیا تو معاشرے میں ایک طبقہ محنت کرتا اور دوسرا اس کا استحصال کرتا ۔ یہ سلسلہ اسی طرح ترقی کرتے ہوئے غلام داری سماج تک پہنچا۔ اس سماج میں ایک انسان دوسرے انسان کے ماتحت کام کرنے لگا اور ایک انسان پر اس ہی جیسا دوسرا انسان حکومت کرنے لگا مختصراً طاقت ور آقا بن گیا اور کمزور کو غلام بنا دیا۔ غلام داری سماج سے ہمیں انسان کا باقائدہ طور پر استحصال ہوتا نظر آتا ہے۔ تاریخ میں ہمیں اس کی واضع مثالیں ملتی ہیں جن میں قدیم فرعونی سماج اور قدیم عرب سماج تھے جہاں ایک عام محنت کش انسان کا استحصال کیا جاتا ۔ غلاموں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا ۔ زمین بھی وہی تھی وسائل بھی وہی تھے اور یہاں ہونا یہ چاہئے تھاکہ وسائل کی تقسیم بھی مساوی طور پر ہوتی لیکن وقت کے تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ وسائل پر ابو جہل اور ابو لہب جیسے لوگ قابض ہوتے گئے ۔ عرب سماج نے طبقاتی کشمکش کو خوب ہوا دی اور انسانیت کے درمیان تفریق کو عروج تک پہنچایا۔
ماضی میں معاشروں کو ذلالت سے نکالنے کے لئے مختلف ادوار میں مختلف نبی آئے جنہوں نے معاشروں میں انصاف اور مساوات کو قائم کرنا چاہا۔ کبھی عیسیٰ کی شکل میں اور کبھی وقت کے فرعونوں کے سامنے موسیٰ کی شکل میں ۔ عرب کے طاغوتی نظام کو جڑ سے اکھاڑنے اور اس کی جگہ عدل کا نظام قائم کرنے کے لیے اور انسانیت کو اس حالتِ زار سے نجات دلانے کے لیے خدا نے سرِ زمینِ عرب پر رسولِ اکرم ﷺ جیسے عظیم انسان کو مبعوث کیا جنہوں نے قیصروکسریٰ کے اس تاغوتی نظام کے خلاف آواز حق بلند کی اور انسانیت کے پرچم کو بلند کیا۔ ہر چیز کو عروج کے بعد زوال ہوتا ہے اسی طرح ظلم بھی جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے عرب معاشرے میں ظلم انتہا تک پہنچا تھا اور اب وقت کا تقاضا تھا کہ اس ظلم کا خاتمہ کیا جائے اسی ظلم اور طاغوتی نظام کو رسولِ اکرم ﷺ نے جماعتِ صحابہ کے توسط سے زوال بخشا۔ فتح مکہ کے بعد انسانیت روز بہ روزترقی کرتی گئی اور تقریباً دنیا کے آدھے حصے پر انصاف کا پرچم لہرانے لگا۔ لیکن آقا اور غلام کی اس روایت کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہوا۔
عرب سماج نے جب ترقی کی حدوں کو چھوا تو اس کو بھی آخر کار زوال سے آشکار ہونا پڑا ۔ وقت کے بدلنے کے ساتھ ساتھ انسانی رشتوں میں بھی تبدیلی آئی ۔ آقا اور غلام کایہ رشتہ جو صدیوں سے چلا آرہا تھا وقت کے بدلنے کے ساتھ جاگیر دار اور کسان کی صورت میں منظرِ عام پر آیا۔ آقا جاگیر دار بن گیا اور غلام کسان۔ استحصال کی روایت حسبِ معمول جاری رہی کسان دن بھر محنت کرتا لیکن جاگیر دار اس کو اس کی محنت کی پوری اجرت نہ دیتا ۔ سولہویں صدی میں جب مشین ایجاد ہوئی تو صنعتی دنیا میں ایک انقلاب برپا ہوا ۔ مشین کی ایجاد کے ساتھ ہی پیداوری رشتوں میں بھی تبدیلی آئی۔ مشین کی جب ایجاد ہوئی ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کا فائدہ عام انسان کو عام مزدور کو ہوتا جو پہلے ۱۲ گھنٹے کام کرتا تھا اب مشین وہی کام ۲ گھنٹے میں کرتی ہے مزدور کے دس گھنٹے بچ جاتے لیکن ایسا نہ ہوا ۔ مشین کا فائدہ اسی طبقے کو ہوا جو برسوں سے عام انسان کا استحصال کرتا چلا آ رہا تھا۔ جس کو دورِ جدید میں سرمایہ دار کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک مزدور مشین پر ۱۲ گھنٹے کام کرتا ہے لیکن سرمایہ دار مزدور کو اس کے اصل حق سے قاصر رکھتا ہے اور ۱۲ کے بجائے مزدور کو صرف ۲ گھنٹے کی اجرت دیتا ہے۔ باقی کی ۱۰ گھنٹے کی اجرت سے سرمایہ دار اپنی تجوریاں بھرتا ہے ۔ وقت کے بدلنے کے ساتھ ساتھ سرمایہ دار نے استحصال کا طریقہ بھی تبدیل کر دیا وہ اس انداز سے مزدور کا استحصال کرتا ہے جس سے مزدور کو پتا بھی نہیں چلتا کہ اس کی حق تلفی ہو رہی ہے۔
دولت کی تقسیم عادلانہ بنیادوں پر ہونی چاہیے تھی اور محنت کو اصل جان کر سرئے کو تقسیم کیا جاتا لیکن سرمایہ دار محنت کو پسِ پشت ڈال کر عام مزدور کا استحصال کرتا ہے۔ دورِ حاضر میں سرمایےکو ہی اصل سمجھا جاتا ہے اور سرمایےکو بنیاد بنا کر رشتوں کا تعین کیا جاتا ہے۔ سرمایےکے لحاظ سے جو جتنا مضبوط ہو گا اس کے دوسروں کے ساتھ تعلق اتنے ہی مضبوط ہوں گے ۔ گویا دورِ جدید میں انسان نے اپنے آپ کو سرمایےکے تابع کر دیا ہے انسان مقصدیت سے غافل ہو کر خواہشات کا غلام بن چکا ہے اور اس کا سماج کو یہ نقصان ہو رہا ہے کہ سماج میں وہی عام انسان ظلم کی چکی میں پسا جارہا ہے جو ۱۲ گھنٹے کام کر کے بھی خواہشات تو ایک طرف اپنی ضرورتیں بھی پوری نہیں کر پاتا۔
موجودہ سماج میں برائیاں جس وجہ سے جنم لیتی ہیں وہ وجہ اس سماج میں دولت کی غیر مساویانہ تقسیم ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بھی تحریر کر چکا ہوں کہ ہر چیز کو عروج کے بعد زوال ہوتا ہے اور دورِ حاضر میں ظلم انتہا پر ہے اور میرا اس بات پر یقین ہے کہ عنقریب اس سماج میں ظلم کا خاتمہ ہو گا اور اس کے مقا بلے میں عدل کا نظام قائم ہو گا ۔ دورِ حاضر کا یہ سماج جہاں انسانیت دم توڑ رہی ہے اس سماج میں ہر طرف انسانیت کا بول بالا ہو گا ۔ انسانیت طبقات میں تقسیم نہیں ہو گی ۔ سماج میں ہر طرف امن اور مساوات کے چرچے ہوں گے۔
تحریر: رانا سجاد
We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)
اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں
اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔ تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔
اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔