اکبر کا دین الہی

مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کا دین الہی۔۔۔۔ حقیقت کیا ہے؟

ہندوستان کی 1526ء تا 1857 ءقائم رہنے والی مغلیہ سلطنت میں سب سے طاقتور اور بااثر حکمران ہمایوں کا بیٹا جلال الدین محمد اکبر تھا۔  ہندوستان کی تاریخ کے معروف ترین حکمرانوں میں سے ایک، شہنشاہ اکبر سے کچھ انتہائی متنازعہ باتیں منسوب ہیں۔  جن میں سر فہرست ” اکبر کا دین الہی” ہے۔ (ملاحظہ کیجیئے علمو ڈاٹ پی کے) یعنی اکبر کی طرف سے وضع کردہ ایک نیا مذہب یا فرقہ کہ جو اسلام ، ہندومت اور دیگر مذاہب کا مجموعہ تھا۔  اس دین الہی  کے بارے میں کچھ بہت ہی عجیب باتیں مشہور ہیں کہ جیسے :

اکبر کا دین الہی
اکبر کا دین الہی

 

  • اکبر نے دعویٰ خدائی کر رکھا تھا اور اس کے فالورز اسے اللہ اکبر کہہ کر سلام کرتے اور مراد یہ لیتے کہ اکبر ہی خدا ہے۔
  • تمام طرح کے گوشت کی ممانعت۔
  • گائے کےذبیحہ کی سزا موت تھی۔
  • یاسنا۔ یعنی زرتشتوں کی طرح آگ کی تکریم۔
  • الہیٰ تقویم ۔ ایک شمسی تقوم کا نفاذ۔
  • "عبادت خانہ ” دین الہیٰ کی عبادت گاہ کا قیام۔

اور اس طرح کی بہت سی باتیں!۔۔۔۔۔

اکبر اور اکبر کے دین الہی کے عقائد کی بنا پر علماء، بشمول مفتی اعظم ہندوستان "عبدالقادر بدایونی ” نے اکبر کو مر — تد قرار دے دیا تھا۔ لیکن۔۔۔۔ دین الہیٰ کی حقیقت کیا تھی؟
کیا دین الہیٰ کا کبھی کوئی وجود بھی تھا؟
اکبر تمام مذاہب اور مسالک کا اکٹھ کیوں چاہتا تھا؟

اکبر کا مذہبی بیک گراؤنڈ:

جلال الدین محمد اکبر 1542 میں امرکوٹ میں پیدا ہوا۔  ان کے والد ہمایوں صوفی العقیدہ تھے۔  جبکہ ان کی والدہ رقیہ سلطان شیعہ تھیں ۔  گویا اکبر کی پرورش اور تربیت ایک ایسے ماحول میں ہوئی کہ جہاں سنی و شیعہ دونوں عقائد کا اثر و نفاذ موجود تھا۔  اکبر  بذات خود صوفی ازم کے سلسلہ چشتیہ کا معتقد تھا اور نہ صرف معین الدین چشتی اجمیری کی درگاہ کی زیارات کے لیے جاتا رہتا بلکہ اس دور کے زندہ چشتی صوفی ” سلیم چشتی ” کے ساتھ بھی اس کے بعد اچھے تعلقات تھے۔  اب۔۔۔ چشتی صوفیت اور دیگر طریق ہائے صوفیت کا بھی ایک وصف یہ ہے کہ صوفی ازم میں بین المذاہب بھائی چارے اور اتحاد کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ اور یہی وجہ بھی تھی کہ ہندوستان میں بڑی تعداد میں غیر مسلم افراد صوفیت کی طرف راغب ہوئے اور اگے چل کر اسی وجہ سے مسلمان بھی ہوتے چلے گئے۔  تو شروع سے ہی چشتی سلسلہ سے عقیدت و تعلق کی بنا پر اکبر میں بھی تمام مذاہب کے لوگوں کے احترام اور بین المذاہب اتحاد کا رحجان موجود تھا۔

عبادت خانہ کیا قیام اور مقصد :

اکبر نے  1574 میں عبادت خانہ کی تشکیل کی۔  ایک ایک ایسا فورم تھا کہ جس میں مختلف مذاہب و مسالک کے علماء اکٹھے ہو کر مختلف مذہبی معاملات پر گفت و شنید اور بحث و مباحثہ کیا کرتے تھے۔  اور اکبر بذات خود عبادت خانہ میں ان علمی مباحث میں شرکت کیا کرتا تھا۔ ان مباحث میں مسلم بشمول سنی، شیعہ، صوفی اور ہندو، مسیحی، بودھ، جین ،  زردشت اور دیگر مذاہب کے علماء شرکت کیا کرتے تھے۔  یعنی۔۔۔ عبادت خانہ اکبر کی کسی نئی مذہنی تحریک کی عبادت گاہ نہ تھی بلکہ خالصتاً ایک علمی فورم تھا۔

دین الہیٰ کی افواہ :

دین الہیٰ  ایک فرضی مذہب ہے جس کا کبھی نہ تو کوئی وجود رہا اور نہ ہی اکبر نے کبھی کوئی نیا مذہب شروع کیا۔  اس مفروضے کو صرف 2 علماء و مورخین نے نقل کیا اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ وہ دونوں ہی اکبر کے مخالف تھے :
عبدالقادر بدایونی۔
اور احمد سرہندی۔
ان کے بعد جتنے بھی مورخین نے دین الہیٰ کے بارے میں کچھ لکھا انہوں نے بدایونی اور سرہندی کے حوالے سے ہی لکھا۔ لیکن۔۔۔۔  مسئلہ یہ ہے کہ ہم دنیا میں کسی بھی شخص کے بارے میں اگر اس کے مخالفین سے رائے طلب کریں گے تو ظاہر ہے ہمیں منفی رائے ہی سننے کو ملے گی۔۔۔ چنانچہ دین الہیٰ کے معاملے میں یہاں کافی مبالغہ کیا گیا ہے۔  یاد رہے اس دور میں سینکڑوں، ہزاروں کتب لکھی اور ترجمہ کی گئیں۔۔۔ لیکن دین الہیٰ نام کے کسی مذہب کی کوئی کتاب یا مخطوطہ نہ کبھی لکھا گیا اور نہ کبھی موجود رہا۔  بلکہ کوئی الگ کتاب تو کیا، اکبر کی داستان حیات ” اکبر نامہ ” تک میں اس مذہب نا کوئی ذکر موجود نہیں۔

جودھا بائی سے شادی :

اکبر پر ایک اور تنقید یہ کی جاتی ہے کہ اس نے ایک ہندو راج کماری جودھا بائی سے شادی کی۔ جس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ ہندومت سے متاثر تھا۔  حقیقت تو یہ ہے کہ کئی مغل حکمرانوں نے متعدد شادیاں کر رکھی تھیں اور ان کی بیویوں کا تعلق بھی مختلف مذاہب سے تھا۔

اکبر اور شراب نوشی :

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ کئی مغل حکمران شراب نوشی کیا کرتے تھے۔ اکبر کے والد ہمایوں تو بےانتہا شراب نوش تھے۔ لیکن۔۔۔  اس کے برعکس اکبر شراب نوش نہ تھا۔ شروع کے دنوں میں کبھی کبھار وہ معمولی مقدار میں شراب لے لیا کرتا تھا لیکن باقی کی زندگی اس نے شراب کو ہاتھ نہ لگایا۔  اکبر کا شراب سے اجتناب ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس قدر گمراہ اور بد عقیدہ نہ تھا کہ جتنا اسے ظاہر کیا گیا  ۔

دربار میں ہندوؤں کی شمولیت :

اکبر نے اپنے دربار میں کئی ہندو وزراء بھی شامل تھے۔  اور یہ معاملہ بھی اکبر پر تنقید کا باعث بنا۔  جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہندوؤںچاور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو قومی دھارے میں شامل کرنا اکبر کی ایک بہت بڑی سیاسی کامیابی تھی۔  ہندوستان میں ہندو اکثریت میں تھے اور اسی طرح دیگر مذاہب کے بھی لاکھوں فالورز۔  اب یہ ممکن نہیں تھا کہ ایک ملک یا سلطنت کو اس کی اکثریت عوام کو یکسر نظر انداز کر کے ترقی دی جا سکے۔۔۔ اکبر کے ہندوستان بھر کے ہندو راجاؤں کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے اور اسی وجہ سے اکبر کی سلطنت اور اس کا اثر و رسوخ ہند میں بہت دور دور تک پھیلا۔

مغلیہ سلطنت کی تشکیل نو:

ہمایوں کے دور میں مغلیہ سلطنت کا تقریباً خاتمہ ہی ہوچکا تھا۔ اور سوریوں نے ہمایوں کو شکست دے کر اس کی سلطنت کے اکثریت حصوں پر قبضہ کر لیا تھا۔  ہمایوں کی وفات کے وقت مغلیہ سلطنت بے حد کمزور تھی۔  جسے اکبر نے پھر سے منظم ، مظبوط اور طاقتور بنایا۔ اور اس کی وسعت میں بھی اضافہ کیا۔

حاصل کلام/ ماحصل

  • اکبر نے کوئی نیا مذہب، فرقہ یا عقیدہ نہیں شروع کیا۔
  • دین الہی ایک تاریخی دروغ بیانی اور مبالغہ ہے۔
  • اکبر ایک مسلمان تھا۔ اسلام پر جیا اور اپنے عقیدے پر ہی مرا۔

( تحریر و تحقیق : ستونت کور )

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں


اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ Ilmu علموبابا

اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔

 

Follow us on

Leave a Reply

Ilmu علمو