Table of Contents
بابا بلھے شاہ کی پنجابی غزل
اشعار کی تشریح ـ حصہ اول
1۔ دکھ درد سی میرے مقدراں وچ میں شکوہ کر کے کی کردہ
مفہوم: میرے مقدر میں دکھ اور درد تھا میں شکوہ کر کے کیا کرتا۔
تشریح: اس شعر میں شاعر بابا بلھے شاہ،غزل کے روایتی المیہ اور مزاج کا استعمال کرتے ہیں ۔بابا بلھے شاہ ایک شکستہ دل مزاج اورطبیعت رکھنے والے شخص نظر آتے ہیں ۔ان کے مطابق ان کے مقدر میں ہی مشکلات، دکھ اور درد لکھا ہوا تھا۔اس لیے ان کا مسائل اور مصائب کا ذکر کرتے ہوئے کوئی فائدہ نہیں۔ یہ سب تقدیر میں پہلے سے ہی لکھا ہوا تھا اس لیے اس کا ذکر کرنا یا شکوہ اور شکایت کرنا غیر ضروری ہے۔
2۔ جدوں مینوں جینا نئیں آیا میں موت وی منگ کے کی کردہ
مفہوم: جب مجھے جینا ہی نہیں آیا تو میں موت بھی مانگ کے کیا کرتا
تشریح: اس شعر میں بابا بلھے شاہ لکھتے ہیں کہ جب مجھے زندہ رہنے کا سلیقہ اور طریقہ ہی نہیں آیا تو میں موت کا تقاضا کیوں کروں۔ کیوں کہ زندہ رہنے والے اور زندہ دل لوگ ہی مرتے ہیں۔ میں تو زندہ رہا ہی نہیں تو پھر میں موت کا تقاضا اور موت کی دعا کیوں کروں۔ میں تو ابتداء ہی سے ایک مردہ ہوں ایک نعش بن گیا ہوں۔ اب موت کے آنے سے زیادہ سے زیادہ کیا فرق پڑ جائے گا۔
3۔ جدا نت جدائیاں پینیاں سی تیرا ساتھ وی منگ کے کی کردہ
مفہوم: جب صرف جدائی ہی سہنی تھی تو تیرا ساتھ مانگ کے بھی کیا کر لیتا
تشریح: اس شعر میں بابا بلھے شاہ تقدیر کے جبرکا اظہار، جدائی کے قسمت میں لکھے جانے کے ذریعے بیان کرتے ہیں۔ان کے مطابق جب میں نے ساری زندگی اکیلے اور تنہا ہی رہنا ہے۔اگر میں نے اکیلے ہی رہنا ہے اور میں یہ بات بھی جانتا ہوں تو پھر اس بات کا کیا فائدہ کہ میں تیرا ساتھ مانگوں۔ جب زندگی میں جدائی کے جام پینا لکھا ہے تو پھر اس دعا کا کیا فائدہ کہ تیرا ساتھ ملے۔ کیونکہ وہ دعا تو قبول ہی نہیں ہونی۔اس لیے تقدیر کے اسی حصے پر قناعت کر لیناچاہیے جس میں جدائی سدا رہے گی۔