Table of Contents
بہادر شاہ ظفر کی غزل لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں کی تشریح
اس آرٹیکل میں بہادر شاہ ظفر کی مشہور غزل “لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں” کے اشعار کی تشریح سادہ اور آسان الفاظ میں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ابوالظفر المظفر بہادر شاہ ظفر ہندوستان کے آخری مغل بادشاہ تھے، جنہیں سلطنت برطانیہ اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے برطرف کر دیا تھا۔ انہیں معزول کرنے کے ساتھ ساتھ، جلا وطن کر دیا اور رنگون میں قید کر کے رکھا۔ بہادر شاہ ظفر کی غزل میں ایک شکوہ نظر آتا ہے۔ اور یہ غزل ان کے اس شکوے کی بہترین عکاس ہے۔ مزید جاننے کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ملاحظہ فرمائیں۔
شعر 1: لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں کس کی بنی ہے عالمِ نا پائیدار میں
بہادر شاہ ظفر غزل کے مطلع میں دنیا کی ناپائیداری اور اپنی بیزاری کا بیان کر رہے ہیں۔ اِس شعر میں وہ دنیا اور عالم کو نہ صرف ناپائیدار کہہ رہے ہیں، بلکہ اِسے ایک اُجڑے دیار سے بھی تشبیہ دے ہیں۔ اِس شعر میں وہ بیان کر رہے ہیں کہ یہ دنیا اجڑ گئی ہے۔ یہ عالم برباد ہو گیا ہے۔ اِس بستی میں اب رہنے کا نہ ہی کوئی فائدہ ہے، اور یہاں رہنے کا نہ ہی کوئی مزہ ہے۔ وہ اندر سے اتنے بُجھ چکے ہیں کہ اب زندگی جینے میں اُنہیں کوئی لطف نظر نہیں آتا۔ قول ہے کہ:
“دل افسردہ ہو تو آباد شہر قبرستان لگتے ہیں اور دل خوش ہو تو قبرستانوں میں میں جشن منایا جا سکتا ہے۔”
دل کی دنیا اگر آباد ہو تو باہر کی دنیا بھی حَسین نظر آتی ہے۔ اور اگر دل کی دنیا اجڑ چکی ہو تو باہر کے دل کَش نظارے بھی انسان کو تکلیف میں مبتلا کرتے ہیں۔
شاعربہادر شاہ ظفر کے دل کی دنیا بھی اُجڑ چکی تھی۔ اُنہوں نے اپنی سلطنت پر غیر کو قبضہ کرتے دیکھا۔ اور اپنے بیٹوں کے کَٹے ہوئے سر بھی دیکھے۔ دہلی میں لوگوں کو مرتے بھی دیکھا۔ یہ سب کچھ دیکھنا اُن کے لیے کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ اِن سب واقعات نے اُن کے دل کو ویران کر دیا تھا۔ اور وہ قید خانے میں اپنی زندگی کے آخری دن پورے کر رہے تھے۔ اور دوسرے مصرعے میں در اصل وہ یہی کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ جب بڑے بڑے لوگ اِس فانی دنیا سے چلے گئے ، تو میں بھی اِس جہان کو خدا حافظ کہہ جاؤں گا۔ میں اِس ظالم دنیا میں رہ کر کیا کروں گا۔ ایسے بے لطف اور بے مزہ زندگی سے بہتر ہے کہ مجھے موت آ جائے۔
؎ گزر رہی ہے وہ بے لطف زندگی بے دلؔ نہ دل لگی میں مزہ ہے نہ دل لگانے میں
شعر 2: عمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن دو آرزو میں کَٹ گئے دو انتظار میں
اِس شعر میں شاعر نے محاورے “چار دن کی زندگی” کو انسان کی مختصر سی زندگی اور زندگی کی بے بسی ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ انسان کو بہت ہی مختصر سی زندگی ملتی ہے، اور اوپر سے، اِس زندگی میں انسان خواہشیں پوری ہی نہیں ہو پاتیں۔ یہ خواہشیں، آرزویں، تمنّائیں ، حسرتیں مرتے دم تک انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ انسان کے دل میں ہر روز نئی نئی خواہشیں پیدا ہوتی ہیں۔ اور انسان اُنہیں پوراکرنے کی کوششوں میں مصروف ہو جاتا ہے۔ پیدائش سے لے کر موت تک انسان بس خواہشوں کی تکمیل کے لیے ہی دوڑتا نظر آتا ہے۔ انسان اپنی آنکھوں میں خواب سجا لیتا ہے، اور پھر یہ خواہش کرنے لگتا ہے کہ کسی غیبی طاقت کی مدد سے یہ خواب تعبیر ہو جائیں۔
؎ خواب اتنے ہیں کہ بیٹھے بیٹھے حالتِ دربدری ہو جیسے (ذوالفقار عادلؔ)
خوہشات انسانی فطرت کا حصہ ہیں۔ اِنہیں کبھی بھی ختم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ وقت گزرنے کے ساتھ ،کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں۔انسان اپنی تمام زندگی خواہشوں کو پورا کرتے کرتے دوڑتا ہے۔ اور پھر یوں ہوتا ہے کہ انسان کی مختصر سی زندگی اپنے اختتام کو پہنچ جاتی ہے۔ لیکن خواہشات اختتام کو نہیں پہنچتیں۔ انسان “اور” سے “اور زیادہ”، “اور زیادہ” سے “اور بھی زیادہ”، پھر “اور سے بھی زیادہ” کی طرف جاتا رہتا ہے۔
؎ مرتا ہوں اس آواز پہ ہر چند سر اُڑ جائے جلّاد کو لیکن وہ کہے جائیں کہ “ہاں اور” (مرزا غالبؔ)
خواہشیں ، آرزویں اور تمنّائیں انسان کو کھا جاتی ہیں۔ شاعرکہ مطابق اگر وہ انسانی زندگی کا مشاہدہ کریں ، تو یہ نظر آئے گا کہ انسان کی آدھی زندگی صرف خواہشیں کرتے کرتے ہی گزر جاتی ہے، جبکہ بقیہ آدھی زندگی اِس انتظار میں کہ کسی طرح سے یہ خواہشیں پوری ہو جائیں۔ اور ی سلسلہ صرف زندگی میں ہی نہیں بلکہ مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔
؎ انساں کی خواہشوں کی کوئی انتہا نہیں دو گز زمیں بھی چاہیے دو گز کفن کے بعد (کیفی اعظمی)
شعر 3: بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گلہ قسمت میں قید لکھی تھی فصلِ بہار میں
انسانی زندگی میں ایسے بے شمار مرحلے آتے ہیں، جہاں حالات ، انسان کی توقعات اور امیدوں کے مطابق نہیں چلتے۔ ایسی صورتِ حال میں اکثر انسان اُن حالات کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن بعض اوقات حالات ایسے شدید بھی ہو جاتے ہیں کہ انسان حالات کے سسامنے بے بس ہو جاتا ہے، اور اپنی کوششوں کے باوجودکچھ نہیں کر پاتا۔ ایسے میں انسان کے پاس بس ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے، اور وہ یہ کہ انسان اپنی تقدیر اور قسمت کے آگےگھٹنے ٹھیک کر، اُس کا گلہ کرنے لگتا ہے۔
؎ میری قسمت میں غم گر اتنا تھا دل بھی یا رب کئی دیئے ہوتے (مرزا غالبؔ)
زیرِ نظر شعر میں شاعر اپنی قسمت کے جبر کا رونا روتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ خود کو اک بلبل سے تشبیہ دیتے ہوئے، اپنی قید کا سبب بیان کرتے ہیں۔ اُن کے مطابق بلبل کو نہ ہی باغبان یعنی مالی سے کوئی گلہ یا شکوہ ہے، کہ جس نے بلبل کی بربادی کا سامان پیدا کیا۔ جس نے محنت اور مشقت کر کے پھول کھِلائے ، اور اُن پھولوں کی محبت میں دیوانہ بن کر بلبل باغ کی طرف آیا۔ اور نہ ہی بلبل کو صیاد یعنی شکاری سے کوئی شکایت ہے جس نے باغ میں آنے والے بلبل کو اپنے پنجرے میں قید کر لیا۔
شاعر کے مطابق دونوں نے تو بس اپنا اپنا کام کیا ہے۔ مالی کا کام ہی پھول اُگانا تھا، اور شکاری کا کام ہی قید کرنا تھا۔ اصل مسئلہ تو بلبل کی کراب قسمت اور تقدیر کا ہے، کہ جس کی وجہ سے بلبل کو عین بہار کے موسم میں قید ہونا پڑا۔ اُس موسم میں کہ جب ہر طرف پھول کھِلتے ہیں، بلبل کو اُن پھولوں سے دور اپنا وقت ایک پنجرے میں گزارنا پڑ رہا ہے۔ اگر شاعر بہادر شاہ ظفر کی زندگی کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہےکہ بلبل خود شاعر کی علامت ہے، جبکہ شاہی محافظ باغبان ، اور اُنہیں قید کرنے والے انگریز صیّاد ہیں۔
شعر 4 : اِن حسرتوں سے کہہ دو کہیں اور جا بسیں اتنی جگہ کہاں ہے دلِ داغ دار میں
زیرِ نظر شعر میں شاعر بے بسی اور مایوسی کا شکار نظر آتےہیں۔ شاعر کے مطابق اُن کا دل پوری طرح ٹوٹ چکا ہے۔ اور اب اُنہیں کوئی حسرت یا خواہش یا آرزو باقی نہیں رہی۔ شاعر کا کہنا ہے کہ تباہی کے اِن حالات سے گزرنے کے بعد، اگر اب بھی اُن کے دل میں کوئی خواہش پیدا ہو رہی ہے، تو اُسے پیدا نہیں ہونے دینا۔ آج سے پہلے جب بھی کوئی خواہش پیدا ہوئی، تو وہ خواہش مکمل نہیں ہو سکی۔ اِس لیے آئندہ بھی کبھی مکمل نہیں ہو گی۔ اگر دل میں کوئی خواہش ، کوئی حسرت، کوئی آرزو پیدا ہو، تو اُسے یہ بتاؤ کہ یہ دل تمہارے لیے صحیح مقام نہیں۔ یہاں پیدا ہونے والی خواہشیں آج تک پوری نہیں ہوئیں۔
؎ ہم تجھ سے کِس ہوس کی فلک جستجو کریں دل ہی نہیں رہا کہ جو کچھ آرزو کریں
اِن خواہشوں کو چاہیے کہ کسی ایسے دل میں پیدا ہوں جہاں پر یہ پوری بھی ہو سکیں۔ ہمارا دل تو غموں کے داغوں سے بھرا ہوا ہے۔ اِس دل میں صرف داغ ہی داغ، غم ہی غم ہیں۔ یہاں خواہشوں کے پیدا ہونے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اب ہمارے دل میں کوئی خواہش پیدا نہیں ہوتی۔ ساری امیدیں دَم توڑ چکی ہیں۔ اب ہم اِس دنیا میں بس اپنا وقت گزار رہیں ہیں۔ ہمارا دل ہمیں یہ اجازت ہی نہیں دیتا کہ یہاں کوئی خواہش پیدا ہو۔ یہاں اگر جگہ ہے تو صرف اور صرف درد، غم، اور زخموں کی جگہ ہے۔
؎ میں نے چاہا تھا زخم بھر جائیں زخم ہی زخم بھر گئے مجھ میں
شعر 5: دن زندگی کے ختم ہوئے شام ہو گئی پھیلا کے پاؤں سوئیں گے کنجِ مزار میں
تشریح طلب شعر میں شاعر کی آخری خواہش کا ذکر نظر آتا ہے۔ شاعر کے مطابق اُنہوں نے ایک تلخ، غموں، دکھوں، رنجوں اور دردوں سے بھری ہوئی زندگی گزاری۔ اُنہوں نے جو زندگی گزاری، اُس میں تو بس تکلیفیں ہی تکلیفیں تھیں، زندگی نام کی کوئی بھی شے نہیں تھی۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ زندگی خوشیوں سے بھری ہوتی ہے، لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے۔ زندگی تکالیف کے مجموعے کا نام ہے۔ قول مشہور ہے:”زندگی پھولوں کی سیج نہیں۔” تو پھر ہم کیوں زندگی سے غیر ضروری امیدیں اور توقعات باندھ لیتے ہیں۔
؎ زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
زندگی کے دن اور تجربات بہت تکلیف دہ رہے۔ لیکن خوشی کی اصل بات یہ ہے ، کہ یہ برے دن ختم ہونے والے ہیں۔ زندگی کا یہ بُرا دَور ختم ہونے جا رہا ہے۔ بلکہ در حقیقت پوری زندگی ہی ختم ہونے جا رہی ہے۔ اب ہم تکلیفوں سے آزاد ہو جائیں گے۔ ہم اِس دنیا کو “خدا حافظ” کہہ دیں گے ، جبکہ یہ دنیا اسی طرح ذلتوں، رسوائیوں، برائیوں، تباہیوں اور غموں میں پھنسی رہے گی۔ہمارے لیے قبر تیار ہے۔ ہم اب اپنی قبر کے کسی پُر سکون کونے میں پاؤں پھیلا کر سکون سے سوئیں گے۔ ہم اپنے مزار کے خاموش گوشے میں آرام کریں گے۔ ہمیں اِس دنیا کے جنجالوں سے کوئی سروکار نہیں۔ یہاں کے مسائل سے ہمیں کوئی واسطہ نہیں رہے گا۔ ہم سکون سے اپنی ساری زندگی کی تھکان دور کریں گے اور اپنی نیند پوری کریں گے۔
؎ تھکن کو اوڑھ کے بستر پہ جا کے لیٹ گئے ہم اپنی قبرِ مقرر پہ جا کے لیٹ گئے (منور رانا)
شعر 6: کتنا ہے بد نصیب ظفرؔ دفن کے لیے دو گز زمین بھی نہ ملی کوئی یار میں
غزل کے مطلع میں شاعر بہادر شاہ ظفرؔ اپنی قسمت کا گِلہ اور شکوہ کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ بہادر شاہ ظفرؔ کا شکوہ اُن کی غزل کا خاصا ہے ۔ وہ شکوے شکایت کے انداز کو نہایت خوب صورتی سے غزل میں پِروتے ہیں۔ اِس شعر میں شاعر اپنی زندگی اور قسمت سے شکوہ کرنے کے ساتھ اپنی بد نصیبی کا ذکر بھی کر رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ انتہائی بد قسمت شخص ہیں۔ زندگی میں تکلیفیں اٹھائی سو اٹھائیں۔ زندگی جینا مشکل ہوا لیکن اب مرنے کے بعد بھی سکون نہیں ملنے والا۔ عام لوگوں کی اگر زندگی میں خواہشیں پوری نہیں ہوتیں تو کم از کم مرنے سے پہلے اُن کی آخری خواہش پوچھ کر اُسے پورا کر دیا جاتا ہے۔ یا پھر یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ مرنے والی کی کوئی خواہش باقی نہ رہے۔ لیکن میرے ساتھ ایسا معاملہ نہیں ہے۔ میری آخری خواہش پوری کرنے والا کوئی بھی نہیں۔ میری خواہش تھی کہ میں اپنے محبوب کے محلے میں دفن ہو سکوں ۔ اگرچہ زندگی میں کبھی اپنے محبوب کی قربت نصیب نہیں ہوئی، لیکن مرنے کے بعد تو میں کسی طرح اپنے محبوب کے قریب ہو جاتا۔ افسوس میری قسمت کا کہ مجھے مرنے کے بعد اپنے محبوب کے پاس دو گَز زمین کا ٹکڑا نہیں ملے گا۔ اور میں بے چین رہوں گا۔
؎ اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے (شیخ ابراہیم ذوقؔ)
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو بہادر شاہ ظفرؔ کو انگریزوں نے ہندوستان سے نکال کر رنگون (برما) میں قید کر لیا تھا۔ زندگی کا آخری دور انہوں نے وہیں پر قید میں گزارا اوروہیں دفن بھی ہوئے۔ اُن کی خواہش تھی کہ وہ ہندوستان میں اپنی سر زمین میں دفن ہوں۔ لیکن اُن کی یہ خواہش ، خواہش ہی رہی۔ اور کبھی بھی پوری نہ ہو سکی۔
(تشریح و تحریر: ع حسین زیدی)
We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)
اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں
اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔ تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ Ilmu علموبابا
اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔