Table of Contents
بیگم صغرا ہمایوں کی شاعری پر ڈاکٹر روبینہ پروین کی تحقیق
بیگم صغرا ہمایوں کی شاعری پر ڈاکٹر روبینہ پروین کی تحقیق بنیادی طور پر ڈاکٹر روبینہ پروین کی بیگم صغرا پر لکھی گئی تحقیقی کتب ” بیسویں صدی کے نصف اول میں نسائی شعور: بیگم صغرا ہمایوں مرزا کا ادبی و سماجی کردار” سے متعلق تبصرہ ہے۔Ilmu علموبابا
بیگم صغرا ہمایوں مرزا اور اُن کے کام سےمیری شناسائی ، ڈاکٹر روبینہ پروین کی تحقیقی کتب “بیسویں صدی کے نصف اول میں نسائی شعور: بیگم صغرا ہمایوں مرزا کا ادبی و سماجی کردار” کے ذریعے سے ہوئی۔ ڈاکٹر روبینہ پروین کی اِس تحقیقی کتب کی بنیاد اُن کا تحقیقی مقالے ہے، جس کی تحریر کے دوران، ڈاکٹر صاحبہ کو اس بات کا احساس ہوا کہ بیگم صغرا ہمایوں مرزا کا فن اور شخصیت ایک تحقیق طلب موضوع ہے۔ اِس بات کا اعتراف ڈاکٹر روبینہ پروین صاحبہ نے خود بھی اپنی کتاب میں کیا ہے۔
ڈاکٹر روبینہ پروین کی یہ کتاب “بیسویں صدی کے نصف اول میں نسائی شعور: بیگم صغرا ہمایوں مرزا کا ادبی و سماجی کردار” ادب، تاریخ، تحقیق ،تنقیداور دیگر سماجی علوم کا مجموعہ نظر آتی ہے۔ اِس کتاب میں مصنفہ نے اردو کی ادبی روایت اور تاریخ میں کھوئے ہوئے فراموش کردہ بیگم صغرا ہمایوں کے کردار کو دوبارہ منظر کے سامنے لا کھڑا کر دیا۔
اِس کتاب میں بیگم صغرا ہمایوں کی سوانح، خاندانی پس منظر، حالات زندگی، تعلیم و تعلم، سماجی خدمات کے علاوہ دیگر ادبی خدمات کا احاطہ بھی کیا گیا ہے، جن میں سفرنامہ نگاری ناول نگاری، افسانہ نگاری، شاعری، مضمون نگاری وغیرہ کو شامل ہیں۔ ابتدائی باب بیگم صغرا کی سوانح سے متعلق ہے۔ اس کے بعد کے ابواب بالترتیب سفرامہ نگاری، ناول نگاری، افسانہ نگاری، شاعری اور مضمون نگاری سے متعلق ہے، تاہم اختتام ہر مختلف لوگوں کی آراء، مختصر خؤد نوشت سوانح ، فہرست مضامین اور تصاویر پر مشتمل ضمیمہ جات بھی موجود ہیں۔
ڈاکٹر روبینہ پروین نے بیگم صغرا ہماایوں مرزا کی ادبی خدمات کو درجہ بدرجہ بیان کیا ہے۔ مصنفہ ڈاکٹر روبینہ نے سفرناموں کو بیان کرتے ہوئے ، بیگم صغرا کے اسفار کو بھی بیان کیا اور ہر ایک سفرنامے کے اجزا کو کھول کر بیان کرنے کی کوشش کی۔ سفرنامہ نگاری کے باب میں سفرنامہ عراق، سفرنامہ یورپ، سفرنامہ یورپ، سفرنامہ پونہ و مدراس، روزنامچہ بھوپال و آگرہ و دہلی کے حالات اور رہبر کشمیر پر تفصیلی کام کیا۔ اسی طرح ناول نگاری کے باب میں بیگم صغرا کے ناولوں مشیر نسواں، سرگزشتِ ہاجرہ اور موہنی کو بیان کیا۔ اور پھر افسانہ نگاری میں بی بی طوریٰ کا خواب کا احاطہ کیا۔
بیگم صغرا کی بیان کردہ تمام ادبی خدمات اپنی جگہ، لیکن اُن کی شاعری سے متعلق باب پنجم میں خاص توجہ کا مرکز رہا۔ ڈاکٹر روبینہ نے بیگم صغرا کے دو شعری مجموعوں راز و نیاز اورانورِ پریشان کی تفصیل تحریر کی۔ پہلے مجموعے راز و نیاز کو بیان کرتے ہوئے مصنفہ نے واضح کیا کہ یہ مجموعہ نعت ،مناجات، سلام، مناقب ، مراثی اور نوحہ جات پ مشتمل ہے۔ گویا تقریباً یہ مکمل مجموعہ ہی رثائی شاعری پر مشتمل ہے۔ مصنفہ کی تحقیق سے واضح ہوتا ہے کہ بیگم صغرا ہمایوں اہلِ بیتِ رسول اقدسﷺ سے خاص عقیدت و مودت رکھتی تھی۔ ڈاکٹر روبینہ نے اِس امر کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ بیگم صغرا کا تعلق شیعہ عقائد کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ موضوعات کو بیان کرنے کے ساتھ شاعری کی ہیئتوں پر بھی سرسری بات کی گئی۔ کہاں کون سا کلام کس ہیئت (رباعی، نوحہ، مسدس وغیرہ) میں موجود ہے۔ شاعری کوبیان کرتے ہوئے ڈاکٹر روبینہ نے نمونہ کے طور پر مختلف کلامِ شعری سے مصرعے، شعر اور بند بھی حوالے کے طور پر شامل کیے ہیں۔
شعری مجموعے انوارِ پریشان کو بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر روبینہ نے واضح کیا کہ اس مجموعے میں حمد، نعت، منقبت، مناجات، رباعیات، قطعات کے ساتھ غزلیات اور متفرق اشعار بھی شامل ہیں۔ مجموعہ راز و نیاز کی طرح اِس شعری مجموعے کے اجزا کا بیان کرتے ہوئے بھی مصنفہ نے یہاں بار ہا کلامِ شعری کا حوالہ دیا ہے۔یہ بات زیادہ اہمیت رکھتی ہے کہ دونوں مجموعوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے انہوں نے جن جن کلامِ شعری کا حوالہ دیا، اُن سے بیگم صغرا ہمایوں کی شعری حس ، زبان و ذوق اور شخصیت کی ایک خاص تصویر بن کر سامنے آنے لگتی ہے۔ انوارِ پریشان میں شامل غزلیات کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر روبینہ نے یہ بھی واضح کرنے کی کوشش کی کہ یہ غزلیات بیگم صغرا کے کلاسیکی اندازِ شعری، فلسفیانہ رنگ اورخاندانی پس منظر کی عکاسی کرتی ہیں۔ فارسی غزل کا ذکر کرنے کے ساتھ آخر میں ڈاکٹر روبینہ نے یہ بھی واضح کرنے کی کوشش کی کہ سماجی کوششوں کے علاوہ شاعری کے ذریعے سے بھی بیگم صغرا نے خواتین کے حقوق اور تعلیم کا نعرہ بلند کیا۔
اِس باب کے ساتھ ساتھ کتاب کے دیگر ابواب میں بھی مصنفہ ڈاکٹر روبینہ پروین نے بیگم صغرا ہمایوں مرزا کے ادبی کام کو اُن کے نسائی شعور کے ساتھ جوڑا ہے، جو کتاب کے عنوان اور مواد کی آپسی مطابقت کو ظاہر کرتا ہے۔ نیز جس طرح مصنفہ نے جس طرز سے بیگم صغرا کے فن اور شخصیت کا جائزہ لیا ہے، وہ اُن کے تحقیقی اور تنقیدی فن کی ترجمانی کرتا ہے۔
تحریر: علی حسین زیدی
We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)
اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں
اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔ تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔
اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔