Table of Contents
جماعت نہم ۔ سبق نمبر 1۔ ہجرت نبوی ﷺ۔ اقتباسات کی تشریح
اس پوسٹ میں جماعت نہم کے اردو نصاب میں شامل سبق نمبر 1 ہجرتِ نبوی ﷺ کے وہ اقتباسات اور ان کی تشریح شامل کی گئی ہے جو مختلف بورڈز کے گزشتہ امتحانات میں شامل کیے گئے ہیں۔
اقتباس
قریش نے دیکھا کہ اب مسلمان مدینے میں جا کر طاقت پکڑے جاتے ہیں اور وہاں اسلام پھیلتا جاتا ہے۔ چنانچہ لوگوں۔۔۔۔۔۔۔ آل ہاشم اکیلے تمام قبائل کا مقابلہ نہ کر سکیں گے۔
تشریح
اس نثر پارے میں مولانا شبلی نعمانی ، کفار مکہ کے مسلمانوں کے خلاف نا پاک عزائم کو ظاہر کر رہے ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ نبوت کے تیرھویں سال جب مسلمانوں نے مدینے کی جانب ہجرت شروع کر دی تو کفار کو یہ بات بالکل پسند نہ آئی۔ وہ یہ اچھی طرح جانتے تھے کہ مدینہ میں مسلمان ضرور مضبوط ہو جائیں گے کیونکہ وہاں کے حالات مسلمانوں کے لیے ساز گار ہیں۔ کفار کسی بھی صورت اسلام کی تبلیغ اور مضبوطی کے حق میں نہیں تھے۔
کفار ، مسلمانوں کے بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے کے لیے منصوبہ سازی کرنے لگے۔ وہ جانتے تھے کہ اسلام کا اصل بانی اور مرکز حضرت محمد ﷺ کی ذات ہے، اور انہی کی وجہ سے اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس اثر کو ختم کرنے کے لیے انہوں نے مختلف تجاویز پر غور کیا۔ کسی نے رسول ﷺ کی نظر بندی کی تجویز پیش کی تو کسی نے جلا وطنی کی۔ لیکن یہ تجاویز پسند نہ کی گئیں۔
ابوجہل نے ایک تجویز پیش کی، کہ تمام قبائل ایک ایک مسلح شخص کا انتخاب کریں۔ اور ان اشخاص پر مشتمل ہجوم ایک ساتھ محمد ﷺ پر حملہ کرے۔ اس صورت میں اصل قاتل کا پتا بھی نہیں چلے گا، اور قبیلہ بنو ہاشم اکیلا ہونے کے ، تمام قبائل کے خلاف ، خون کا بدلہ بھی نہیں لے سکے گا۔
اقتباس
اس بنا پر جناب امیر حضرت علی ؑ کو بلا کر فرمایا: ” مجھ کو ہجرت کا حکم ہو چکا ہے۔۔۔۔۔۔۔ آج رسول ﷺ کا بسترِ خواب قتل گاہ کی زمین ہے، لیکن فاتح خیبر کے لیے قتل گاہ، فرش گل تھا۔
تشریح
اس نثر پارے میں مولانا شبلی نعمانی ، مدینے سے قبل رسول ﷺ کی جانب سے امانتوں کی واپسی کا احوال بیان کر رہے ہیں۔ شبلی کا بیان ہے کہ رسول ﷺ کے آستانہ مبارک یعنی گھر کا محاصرہ ہو چکا تھا۔ کفار تلواریں لیے گھر کے باہر رسول ﷺ کے قتل (نعوذ باللہ) کا ارادہ کیے ہوئے کھڑے تھے۔ لیکن اس دوران رسول ﷺ کے لیے اہم ترین کام امانتوں کی واپسی تھی۔
چنانچہ رسول ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا کہ مجھے بھی اللہ کے حکم سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنی ہو گی۔ نیز رسول ﷺ نے یہ بھی تاکید کہ ، تم (حضرت علی) میری چادر اوڑھ کے میرے بستر پر سو جانا اور مکہ والوں کو امانتیں لوٹا کر مدینہ آنا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خبر تھی کہ کفار رسول ﷺ کو قتل کرنے کے لیے باہر کھڑے ہیں۔ رسول ﷺ انہیں چکما دینے کے لیے، یہ چال رہے ہیں، تاکہ کفار یہ سمجھتے رہیں کہ رسول ﷺ ہی بستر پر سو رہے ہیں۔
ایک روایت کے مطابق حضرت علی کو خبر تھی کہ کفار بستر پر سوئے ہوئے رسول کی دشمن ہوں گے ، لیکن اس بات کا بھی یقین تھا کہ امانتیں واپس کرنے کی ایک ذمہ داری رسول ﷺ نے دی ہے، تو وہ مکمل ہو کر ہی رہے گی۔ دوسرا پہلو یہ کہ وہ رسول ﷺ کی حفاظت اور حکم کی تعمیل کی خاطر اپنی جان کی پروہ کیے بغیر بستر رسول پر سو گئے، جو ان کے لیے پھولوں کا فرش تھا۔
اقتباس
تشریف آوری کی خبر مدینے میں پھیل چکی تھی۔۔۔۔۔۔ تمام شہر تکبیر کی آوازوں سے گونج اٹھا۔
تشریح
اس نثر پارے میں مولانا شبلی رسول ﷺ کے مدینہ میں ہونے والے استقبال کی منظر کشی کر رہے ہیں کہ رسول ﷺ اور ان کے ساتھی کی مدینہ آنے کی خبر پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔ اہل مدینہ کا ایمان اور یقین تھا کہ رسول ﷺ کی آمد ان کے لیے باعث رحمت اور برکت ہو گی۔ ان کے جوش و جذبے کا یہ عالم تھا کہ تمام شہر اپنے کام کاج چھوڑ کر رسول ؐ کے استقبال کے لیے نکل آتا تھا۔ اہلیان مدینہ ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ، تمام دن انتظار کرتے اور شام ہوتے گھر لوٹ آتے تھے۔
ایک روز ، ایک یہودی نے قلعے کی دیوار سے چند افراد کو آتے دیکھا، اور اندازہ لگایا کہ یہ کون ہو سکتے ہیں۔ پھر اس نے اہلیان مدینہ کو آواز دے کر کہا کہ وہ ذات آ گئی جس کا انتظار تم کئی دن سے کر رہے تھے۔ تمام شہر نعرہ تکبیر لگاتے ہوئے استقبال کے لیے شہر سے باہر آگیا۔ اور بچیوں نے شہرہ آفاق مشہور قصیدہ “طلع البدر علینا” گنگنایا۔
We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)
اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں
اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔ تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔
اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔