جماعت نہم ۔ سبق نمبر 3۔کاہلی ۔ اقتباسات کی تشریح

جماعت نہم ۔ سبق نمبر 3۔کاہلی ۔ اقتباسات کی تشریح

اس پوسٹ میں جماعت نہم کے اردو نصاب میں شامل سبق نمبر 3 “کاہلی ” کے وہ اقتباسات اور ان کی تشریح شامل کی گئی ہے جو مختلف بورڈز کے گزشتہ امتحانات میں شامل کیے گئے ہیں۔

جماعت نہم ۔ سبق نمبر 3۔کاہلی ۔ اقتباسات کی تشریح
جماعت نہم ۔ سبق نمبر 3۔کاہلی ۔ اقتباسات کی تشریح

اقتباس
ہاتھ پاؤں کی محنت اوقات بسر کرنے اور روٹی کما۔۔۔۔۔۔۔بڑے کاہل اور بالکل حیوان صفت ہو جاتے ہیں۔

تشریح
اس نثر پارے میں سر سید یہ واضح کر رہے ہیں کہ  اکثر انسان کو مجبوراً ہاتھ پاؤں کی محنت کرنی پڑتی ہے اور کاہلی ترک کرنی پڑتی ہے۔  یعنی یہ محنت زندگی گزارنے اور روٹی کمانے کے لیے ہی کی جاتی ہے۔  انسان اپنا پیٹ بھرنے کے لیے مجبوراً محنت و مشقت کرتا ہے۔  یہی وجہ ہے کہ مزدور طبقہ بہت کم کاہل ہوتا ہے۔ اگر یہ طبقہ محنت و مشقت نہ کرے تو  ضروریات زندگی میسر نہیں  آ سکیں گی۔

اسی ضرورت کے باعث محنت و مشقت کرنا  اس طبقے کی طبیعت کا حصہ اور پختہ عادت بن جاتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں کہ جن کو ضروریات زندگی حاصل کرنے اور کمانے کی بالکل بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ اور زندگی کی تمام سہولیات انہیں بہت ہی آسانی سے میسر آ جاتی ہیں۔  ایسے لوگ محنت و مشقت نہیں کرتے۔ اور اپنی صلاحیتوں  اور دلی قوی کو بے کار چھوڑ دیتے ہیں۔

نتیجتاً   وہ لوگ کاہل ، وحشی اور حیوان صفت ہو جاتے ہیں۔ یہاں سر سید یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ  انسان اور جانوروں میں بنیادی فرق ہی یہی ہے کہ جانوروں کو اپنی زندگی کا کوئی مقصد نظر نہیں آتا۔ وہ کھاتے ہیں پیتے ہیں سوتے ہیں اور مر جاتے ہیں۔ اپنے معاشرے میں کوئی بہتری پیدا  نہیں کر پاتا۔ لیکن انسان اسے کے برعکس ہے ۔ وہ اشرف المخلوقات ہے اور وہ اپنے معاشرے اور ماحول کی بہتری کے لیے کسی نہ کسی  تعمیری کام میں مصروف رہتا ہے۔

اقتباس
انسان بھی مثل اور حیوانوں کے ایک حیوان ہے اور جب ۔۔۔۔۔۔۔کوشش میں رہے اور ان کو بے کار نہ چھوڑے۔

تشریح
اس نثر پارے میں سر سید نے انسان اور حیوان کے بنیادی فرق کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بلاشبہ انسان بھی دیگر حیوانوں کی طرح ایک حیوان ہی ہے۔ لیکن جو بات اسے باقی حیوانوں سے مختلف  بناتی ہے  وہ اس کی صلاحیتیں اور دلی قوی کی تحریک ہیں۔ اگر یہ تحریک استعمال میں نہ لائی  جائے  تو انسان بھی آہستہ آہستہ کاہل اور وحشی ، بالکل حیوان صفت ہو جاتا ہے۔ اور پھر وہ وقت بھی آتا ہے کہ انسان پورا اور مکمل حیوان بن جاتا ہے۔

دراصل سر سید یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انسان کے اندر انسانی اور حیوانی دونوں صفات ہیں۔ دلی قوی اور صلاحیتوں کی استعمال کی تحریک ہی انسان کو حیوان سے مختلف بنتی ہے۔ جب انسان دلی قوی کو چھوڑتا ہے تو اس کی حیوانی صفات کو تقویت ملتی ہے اور آہستہ آہستہ وہ پورا حیوان بن جاتا ہے۔ اس لیے ہر شخص کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنی صلاحیتوں اور دلی قوی کو استعمال  کرے ، تا کہ وہ جانوروں جیسا نہ ہو جائے۔

اقتباس
ہم قبول کرتے ہیں کہ  ہندوستان میں ہندوستانیوں کے لیے ایسے کام بہت کم ہیں۔۔۔۔ جیسا کہ اب ہے تو وہ بھی بہت جلد وحشت پنے کی حالت کو پہنچ جاویں گے۔

تشریح
اس اقتباس میں سر سید اپنے ملک کے لوگوں یعنی ہندوستانیوں  کا انگریزوں سے موازنہ کر رہے ہین۔ ان کے مطابق یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان کے لوگوں کو اپنی صلاحیتیں استعمال کرنے کا موقع بہت کم ملتا ہے۔ نہ ہی وہ اپنی ذہنی  اور نہ ہی دلی صلاحیتیں استعمال کر پاتے ہیں۔

اس کے برعکس انگلستان والوں کے پاس قوت عقلی اور دلی قوی استعمال کرنے کے بیش بہا مواقع ہوتے ہیں۔ لیکن اصل بات صرف ایسے مواقعوں کی دستیابی ہی نہیں ہوتی ، بلکہ ایسا موقع پیدا کرنا بھی ایک فن ہے۔ انگلستان کے باشندوں نے بھی اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے مواقع  خود ہی تخلیق کیے جس کی وجہ سے انہیں یہ موقع ملا۔

لیکن اگر وہ بھی آرام طلب ہو جائیں، اور مزید مواقع تلاش نہ کریں تو ان کا حال بھی بد حال ہو تا چلا جائے گا۔  جیسا کہ ہندوستان اور تیسری دنیا کے بد حال ممالک کا ہے۔

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں


اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔

اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔

 

Follow us on

Leave a Reply

Ilmu علمو