جولیا کریسٹیوا کی تانیثیت

جولیا کریسٹیوا کی تانیثیت

حیاتیاتی اعتبار سے انسان  سے متعلق بیشتر موضوعات جو لیا کر سٹیوا کے اسلوب کا حصہ ہیں۔  Ilmu علموبابا  اس آرٹیکل میں ہم مشہور تانیثی، فیمینزم کی علمبردار جولیا کریسٹیوا کی تانیثیت اور تانیثی نظریات کا مطالعہ کریں گے۔ مزید معلومات کے لیے ہماری ویب سائیٹ سے جڑے رہیے۔

جولیا کریسٹیوا  کا شمار دورِ حاضر کے بڑے تانیثی  نقادوں میں ہوتا ہے۔ وہ 24 جون 1941 کو بلغاریہ میں پیدا ہوئیں اور بعد از اعلیٰ تعلیم کے لیے فرانس منتقل ہو گئیں۔  وہ فرانسیسی تانیثیت اور تانیثی تنقید کی ماہر  ہونے کے ساتھ ساتھ فلسفی، ماہر لسانیات،  ماہر سیمیات ، ناول نگار، ماہر نفسیات اور یونیورسٹی میں پروفیسر بھی ہیں۔  ان کا کام صرف تانیثی حوالے سے ہی اہمیت کا حامل نہیں ہے، بلکہ تنقید  لسانیات اور نفسیات میں بھی انہوں نے بہت سے اہم نکات وضع کیے۔ ان کے کام میں  تنقید، لسانیات  اور نفسیات کا تانیثی مطالعہ غالب نظر آتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جدیدیت اور مابعد جدید تھیوری پر بھی ان کا کام نمایاں ہے۔

جولیا کریسٹیوا کی تانیثیت - julia kristeva ki tanisiyat - Julia Kristeva's Feminism
جولیا کریسٹیوا کی تانیثیت – julia kristeva ki tanisiyat – Julia Kristeva’s Feminism

 حیاتیاتی اعتبار سے انسان  سے متعلق بیشتر موضوعات جو لیا کر سٹیوا کے اسلوب کا حصہ ہیں۔ پس ساختیاتی فکر کے علم بردار وں میں جو لیا کرسٹیوا کا نام بھی شامل ہے۔ پسِ ساختیات، مغربی فلسفہ، ادبی تنقید، تحلیل نفسی، عمرانیات، علم بشریات، تانیثیت اور ناول نگاری میں جو لیا کرسٹیوا نے اپنی تخلیقی فعالیت کا بھی لوہا  منوایا۔ اپنے منفرد اسلوب میں جو لیا کر سٹیوا نے تحلیل نفسی کو کلیدی اہمیت دی ہے

جولیا کریسٹیوا اور تانیثیت۔۔۔

دیگر فرانسیسی دبستان تانیثیت کی  نمائندگان خواتین کو دیکھا جائے ، تو وہ  تانیثیت کو مادی (سیاسی، سماجی، تہذیبی، اقتصادی)  اور نفسیاتی پیمانے میں ناپتی ہیں۔  فرانسیسی تانیثیت کے دو بڑے پہلو ہیں، ایک  مادی اور دوسرا نفسیاتی۔ تانیثیت کی اکثر نفسیاتی  نقاد کو دیکھا جائے، تو وہ خواتین کے شعور و لا شعور میں موجود پدرسری حاکمیت کے اثرات کو ختم کرنے  اور ان کا سدباب کرنے پر زور دیتی ہیں۔ اس سلسلے میں ہیلن سیسے  اور لوسی اریگرے کا عورت بول (ویمن سپیکس) کا تصور بھی خاصا نمایاں ہے۔ جس کے مطابق خواتین کو ایسی زبان کو اختیار کرنا چاہیے جو مردانہ اور پدر سری معاشرے کی وضع کردہ نہ ہو۔  نیز یہ کہ خواتین اور ایسا ادب پیش کرنا چاہیے  جس میں خواتین کے اپنے جذبات کی نمائندگی موجود ہو، نہ کہ مردانہ ذہنیت کی۔ اس کے علاوہ  خواتین کو خواتین کے جذبات ، احساسات اور کردار ویسے پیش کرنے چاہیں جیسے خواتین خود چاہتی ہیں، اور وہ اظہار کسی پدر سری سماج کا نمائندہ  نہ ہو۔

جولیا کریسٹیوا اپنے دور کی فرانسیسی فیمینسٹ سے کچھ الگ انداز میں سوچتی ہیں۔  وہ  عورت بول (ویمن سپیکس) کے نظریے کو دیگر نسائی خواتین سے ہٹ کر دیکھتی ہیں۔  کیونکہ ان کا  خیال ہے کہ اگر کوئی تھیوری یا نظریہ  صرف خواتین کو ہی  اساس بنا کر نئے سرے سے پیش کیا جائے تو اس کے نتیجے میں نسائیت زیادہ خطرے سے دوچار ہو سکتی ہے۔  اس کے علاوہ یہ کہ جولیا کریسٹیوا کی نظر میں خواتین کے زنانہ پن اور مردوں کے مردانہ پن کا فرق  حیاتیاتی و جسمانی نہیں ہے۔ بلکہ یہ دیرینہ معاشرتی فرق کا شاخسانہ  ہے۔  جنسی ، تولیدی ، نفسیاتی اور جسمانی فرق کو ایک طرف رکھ کر کہتی ہے کہ اگر  کوئی شخص  کم اختیارات کے ساتھ پیدا ہو تو وہ زنانہ نفسیات کا حامل ہو گا، جبکہ مردانہ نفسیات با اختیار اور  دوسرے شخص کو جنسی طور پر بھی اپنے بس میں رکھنے کی قوت رکھتی ہے۔

نیز جولیا کی نظر میں ان مسائل کو موضوع بنانا اور حل کرنا چاہیے ، جن کی وجہ سے  پدرسری سماج میں صرف جسمانی فرق کی وجہ سے کسی کا استحصال ہو جائے۔  اور اکثر معاشروں میں عورت پر اسی فرق کی وجہ سے ظلم ہو رہا ہے۔ اس سے قبل صرف انگریز اور امریکی نسائیت میں ہی جنس اور نوع (سیکس اینڈ جینڈر) کے درمیان فرق کو بیان کیا گیا تھا، تاہم فرانسیسی تانیثیت کے نمائندوں میں جولیا پہلی خاتون تھی۔

لسانی اعتبار سے اس کے نظریات میں تانیثیت یوں نظر آئی کہ اس کے مطابق معاشرے کے مرد و خواتین اسی زبان کو  فروغ دے سکتے ہیں، جو  نہ ہی عورت بول ( ویمن سپیکس) کی طرح خواتین  کی نمائندہ ہو، اور نہ ہی کسی پدر سری سماج کی وضع کردہ ہو۔

اس کا کہنا ہے کہ زبان دو جہتی ہوتی ہے، ایک علامتی اور  دوسری اشاراتی یا  علم علامات۔ زبان کا علامتی(سمبولک) حصہ پدر سری سماج کے زیر سایہ پروان چڑھا، جبکہ علمِ علامت یا اشاراتی حصہ خلق طور پر بچوں کے اندر موجود ہوتا ہے۔ اس لیے اشاراتی یا علم علامات کا استعمال زیادہ مناسب رہے گا۔ چونکہ یہ جذبات کے اظہار سے تعلق رکھتا ہے اس لیے یہ کسی ایک جنس کا نمائندہ نہیں۔ اگرچہ زبان مرد اور بدر سری سماج کی تخلیق کردہ ہے، لیکن جذبات کا اظہار انسان پیدا ہونے کے بعد یا تو خلقی طور پر کرتا ہے، یا اپنی ماں سے سیکھتا ہے۔  نیز یہ کہ ہم علم علامات کے ابتدائی دور کی طرف واپس تو نہیں جا سکتے، لیکن اپنی تخلیقات میں ان کا استعمال اور اظہار ضرور کر سکتے ہیں۔

جولیا کریسٹیوا نے فرائیڈ، لاکاں اور میلینی کیلینین کے نظریات کو تانیثی نفسیات پر لاگو کیا۔ البتہ امریکی نسائیت نے اس کو یہ کہہ کر رد  کیا کہ یہ   اینٹی فیمینزم ہے۔ چونکہ انگریزی اور امریکی تانیثیت میں سماجی، اقتصادی،  سیاسی  حوالے  سے خواتین کا استحصال دیکھا جاتا ہے ، جبکہ کریسٹیوا  تانیثیت کو کسی مخصوص جنس اور جسمانی حالت کے ساتھ وابستہ نہیں کرتی۔ بلکہ اس کی نظر میں نسائیت ایک  نفسیاتی حالت کا نام ہے۔  اس کے مطابق مذکر اور مونث دو متضادات نہیں، بلکہ ایک انسان کے اندر ہی دونوں مشترکہ طور پر موجود ہوتے ہیں۔

بہت سی نسائی ماہرین کو تشویش ہے کہ جولیا کریسٹیوا کا کام خواتین کی نفسیات تک ہی محدود ہے، اور وہ مردانہ سماج کو اپنے طور پر چلانے اور تبدیل کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔

تحریر :  ع حسین زیدی

 

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں


اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔

اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔

 

Follow us on

Leave a Reply

Ilmu علمو