Table of Contents
خانۂ حیرت میں ہوں صابر پیا اُردو کا صوفیانہ کلام
اردو شاعری بالخصوص غزل میں تصوف کی روایت بے حد مضبوط اور پرانی ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ اردو زبان میں شاعری کا نقطہ آغاز تصوف اور صوفیانہ شاعری ہی ہے تو غلط نہ ہوگا۔اس ضمن میں ہمیں بے شمار حوالے ملتے ہیں جن میں برصغیر میں آنے والے صوفیاء کرام، انکی شاعری اور ان کے فرمودات و ملفوظات ہیں۔ اردو زبان کو بنیاد انہی صوفیاء نے عطا کی جنہوں نے ابتداء میں پوربی اور مقامی ہندی آمیز اردو جسے ہندوی، ریختہ، کھڑی بولی وغیرہ بھی کہا گیا، میں شاعری کی اور اس سلسلے میں امیر خسرو کا نام سر فہرست ہے جنہوں نے اپنے پیر و مرشد حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی کی مدحت میں بے شمار شاعری کی جو آج تک سلسلہ چشتیہ نظامیہ کی محافل سماع کی زینت ہے اور سالکین و فقراء کے لبوں پہ جاری و ساری ہے۔ کچھ اہم نظموں میں چھاپ تلک سب چھین لی رے موسے نیناں ملائ کے ، توری صورت کے بلہاری نجام، پھول رہی سرسوں سکل بن اور اس کے علاوہ بھی کئی مناقب موجود ہیں جن میں آپ اپنے مرشد سے اپنی محبت و عقیدت کا اظہار اپنے عجب و منفرد انداز میں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔امیر خسرو کی فارسی شاعری اس کے علاوہ ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔ ان کے علاوہ کئ شعراء صوفیانہ شاعری کے ذیل میں اپنا مقام رکھتے ہیں جن کی ایک طویل فہرست ہے۔ ریختہ فاؤنڈیشن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے صوفیانہ شاعری کے حوالے سے ایک الگ ویب سائٹ “صوفی نامہ” تشکیل دی جسمیں صوفیانہ روایت کے شعراء کا تعارف اور انکے نمائندہ کلام شامل کیے گۓ ہیں۔ ان شعراء میں ابتداء کے کلاسیکی شعراء ، خانقاہی شعراء اور دور حاضر کے صوفی شعراء شامل ہیں۔ مزید جانیے علمو
حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر پاک پتن والے، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے مرید و خلیفہ تھے اور سب اس بات سے واقف ہیں کہ آپ کا سلسلہ طریقت چشتیہ ہے۔ آپ کے دادا مرشد حضرت معین الدین حسن سنجری چشتی اجمیری تھے جو برصغیر کے نامور چشتی صوفی ہیں اور ہر مذہب کے لوگوں میں یکساں مقبول و معروف ہیں۔ ایک زمانہ آپ سے عقیدت رکھتا ہے اور اسکی مثال ہمہ وقت آپ کے مزار پہ موجود عوام و خواص کا رش ہے۔ آپ خواجہ عثمان ہارونی کے شاگرد رشید و مرید تھے۔ حضرت فرید الدین گنج شکر کے مرید حضرت نظام الدین اولیاء تھے جن سے زمانہ واقف ہے جو حضرت امیر خسرو کے پیر و مرشد بھی تھے جیسا کہ مزکورہ سطور میں بیان کیا جا چکا ہے۔ آپ کے بھانجے اور داماد و خلیفہ تھے حضرت خواجہ علاؤالدین علی احمد صابر جن کی مرقد مبارک کلیر شریف اترا کھنڈ میں واقع ہے۔ آپ سے سلسلہ چشتیہ کی صابریہ شاخ منسوب ہے اور آپ اس شاخ کا نقطۂ آغاز ہیں۔ راقم کو آپ سے خصوصی نسبت و انس ہے۔ اسکی وجہ کیا رہی ہوگی معلوم نہیں۔ چونکہ راقم کا تعلق تحصیل کوٹلی ستیاں ضلع مری کے ہاشمی خانوادے سے ہے جو خطے میں علمی، ادبی، مذہبی و تخلیقی حوالے سے مشہور و معروف ہے۔ راقم کے آباؤ اجداد میں صوفیاء و فقراء گزرے ہیں لہذٰا راقم کو خود بھی فنونِ لطیفہ بالخصوص موسیقی و شاعری سے لگاؤ ہے۔ پچھلے دنوں ویب سائٹ صوفی نامہ ملاحظہ کر رہا تھا تو ایک منقبت پہ نظر پڑی جو حضرت صابر کی شان میں تھی۔ مطلع پڑھ کر تو طبیعت جھوم اٹھی۔ بالخصوص ردیف “صابر پیا” نے فوری طور پر وجد کی کیفیت طاری کر دی۔ لیکن جیسے جیسے دیگر اشعار پڑھتا گیا تو کچھ تشویش لاحق ہوتی گئ کیونکہ کچھ بلکہ بیشتر اشعار متعلقہ وزن سے مختلف اور کچھ بالکل بے وزن تھے۔ مجھے شدید حیرت ہوئ کہ اتنی معتبر ویب سائٹ جسے دنیا دیکھتی ہے اور کسب فیض کرتی ہے، پر ایک بے وزن شاعری کیسے شائع ہو سکتی ہے۔ منقبت کے شاعر “غلام حسین مرزائ” ہیں جن کا تفصیلی تعارف باوجود تلاشنے کے نہ مل سکا۔ صوفی نامہ پر انکا جتنا تعارف درج ہے اس کے مطابق وہ حیدرآباد بھارت کی ریاست تلنگانہ سے تعلق رکھتے تھے اور سن 2002ء میں انکی وفات ہوئ۔ ویب سائٹ پر ان کی دو عارفانہ غزلوں کے علاوہ دو مناقب ہیں جو مدحت صابر میں ہیں اور دونوں مناقب میں وزن کے مسائل ہیں۔ زیر نظر منقبت کی بحر رمل ہے اور ایک مصرعے میں ارکان افاعیل کی تعداد تین ہے اور دو مصروں(شعر) میں چھ تو مسدس اور آخری رکن نامکمل ہے تو محذوف۔ تو مکمل بحر رمل مسدس محذوف ہوئ جس کے ارکان “فاعلاتن فاعلاتن فاعلن” ہیں۔ منقبت کا مطلع کچھ یوں ہے
خانۂ حیرت میں ہوں صابر پیا
رمزۓ وحدت میں ہوں صابر پیا
کیا عمدہ مطلع ہے۔ ایک سالک کی اندرونی کیفیت اور مقام تحیر کو کمال سلیقے سے بیان کرتا ہوا۔ مطلع مکمل وزن میں ہے۔ پہلا انترہ یعنی دوسرا شعر ہے
میرے گھر بھی روز آتے ہیں ملک
جب سے تری نسبت میں ہوں صابر پیا
شعر کا خیال بلاشبہ خوبصورت ہے۔ پہلا مصرعہ مذکورہ بحر کے حساب سے بالکل وزن میں ہے جبکہ دوسرا مصرعہ بھی باوزن ہے لیکن مذکورہ بحر میں نہیں بلکہ مختلف بحر میں جو کہ بحر رجز مسدس سالم ہے جس کے ارکان افاعیل ” مستفعلن مستفعلن مستفعلن” ہیں۔ اب اسے سہوا کہیں جا قصداً ۔ سمجھ سے باہر ہے۔ اگلا شعر دیکھیے
طالبِ مولا ہوں میں ہوں آپ سے
طالبِ طاعت میں ہوں صابر پیا
یہ شعر بھی بہت اچھا ہے اور متعلقہ بحر کے حساب سے بالکل وزن میں ہے۔ اگلا شعر ملاحظہ کیجیے
محو ہو کر سوچتا ہوں آپ میں
میں کیا حقیقت میں ہوں صابر پیا
اس شعر کا پہلا مصرعہ وزن میں ہے جبکہ دوسرا مصرعہ وزن سے باہر ہے اور اس کے ارکان مستفعلن مستفعلن فاعلن بن رہے ہیں جو کہ ایک کم مستعمل بحر سریع کے ارکان ہیں۔ اگلا شعر دیکھیے
ہر کوئی کسی کی تو صحبت میں ہے
میں تیری صحبت میں ہوں صابر پیا
اس شعر کا پہلا مصرعہ متعلق بحر سے باہر ہے اور اس کے ارکان افاعیل ” مفعول مفاعیلن مفعولن فع” بن رہے ہیں جو کہ بحر ہزج مثمن اخرب اخرم ابتر سے منسوب ہیں اور یہ بحر زیادہ تر رباعی میں استعمال کی جاتی ہے۔ جبکہ دوسرا مصرعہ “تیری” کی وجہ سے بے وزن ہوا ہے۔ تیری کی بجاۓ تری ہونے سے مصرعہ وزن میں آتا ہے۔ اگلا شعر دیکھتے ہیں
تیرا دیوانہ مجھے کہتے ہیں لوگ
جب سے تری مدحت میں ہوں صابر پیا
مزکورہ شعر کا پہلا مصرعہ ہے تو متعلقہ بحر کے مطابق باوزن لیکن آخری رکن بڑھ گیا ہے۔ لوگ کا وزن فاعلات پر ہے جسکی وجہ سے آ خر رکن فاعلن کی بجاۓ فاعلات ہو گیا ہے۔ یہاں پر مثال کے طور پر اگر لوگ کی بجاۓ “وہ” ہوتا تو اسکا وزن پچھلے لفظ کو ملا کر پڑھنے سے فاعلن کے برابر ہوتا۔ دوسرا مصرعہ باوزن ہے لیکن متعلقہ بحر کی بجاۓ مختلف بحر میں ہے جو کہ بحر رجز مسدس سالم ہے اور اس کے ارکان افاعیل ” مستفعلن مستفعلن مستفعلن” ہیں۔ اگلا شعر دیکھیے
بد ہوں میں بد نام خاص و عام میں
پر تیری رحمت میں ہوں صابر پیا
شعر کا پہلا مصرعہ بالکل وزن میں ہے اور متعلقہ بحر کے مطابق ہے جبکہ دوسرا مصرعہ “تیری” کی وجہ سے بے وزن ہے جبکہ یہاں پر ” تری” ہونا چاہیے تھا۔ اگلا شعر ملاحظہ کیجیے
بے وجہ مجھ کو ستاتے ہیں لوگ
اب پھر مصیبت میں ہوں صابر پیا
شعر کا پہلا مصرعہ باوزن ہے لیکن متعلقہ بحر کی بجاۓ بحر جمیل میں ہے جس کے ارکان افاعیل ” مفاعلاتن مفاعلاتان” ہیں۔ جبکہ دوسرا مصرعہ بالکل بے وزن ہے اور اسے از سر نو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ اگلا شعر دیکھیے
جو بھی ہوں جیسا بھی ہوں میں آپ کا
آپ کی خدمت میں ہوں صابر پیا
یہ شعر بالکل وزن میں ہے۔ لیکن پہلا مصرعہ فنی اعتبار سے کچھ مکمل محسوس نہیں ہوتا ۔ یہ مصرعہ اگر یوں ہوتا تو زیادہ خوبصورت ہوتا “جو بھی ہوں جیسا ہوں میں ہوں آپ کا” یا پھر ” جو بھی ہوں جیسا ہوں بس ہوں آپ کا”۔ آخری شعر دیکھیے جس میں شاعر نے اپنا تخلص”غلام” بھی استعمال کیا ہے۔
ترے ہر سو غلاموں کا غلامؔ
ان سب کی عنایت میں ہوں صابر پیا
مکمل شعر وزن سے باہر ہے۔ پہلا مصرعہ اگر یوں ہوتا ” میں ترے در کے غلاموں کا غلام” تب وزن میں ہوتا لیکن اس صورت میں بھی آخری رکن زائد ہوتا کیونکہ لفظ غلام پر فاعلن کی بجاۓ فاعلات کا رکن آ رہا ہے۔ جبکہ دوسرا مصرعہ از سرِ نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے کسی معمولی تبدیلی سے بھی وزن میں نہیں آ رہا۔
مذکورہ بالا منقبت کا فنی و عروضی جائزہ لینے کا مقصد یہی تھا کہ ریختہ جیسی معتبر اور انتہائ معروف ادبی ویب سائٹ کی ایک شاخ صوفی نامہ پر اگر ایسی بے وزن شاعری شائع ہو گئ ہے تو اسکا قصور وار کون ہے۔ اگر تو شاعر نے یہ منقبت لکھی ہی بے وزن ہے تو پھر شاعر تو قصور وار ہیں ہی لیکن زیادہ بھاری زمہ داری اس بے وزن شاعری کو شائع کرنے والے مؤقر ادارے پہ عائد ہوتی ہے۔ ایک منقبت کا عروضی جائزہ تو میں نے لے لیا اب دوسری منقبت کا جائزہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں اس کا مطلع کچھ یہ ہے
صابری گلشن میں بہار آئی
غنچے کھلنے لگے گل مہکنے لگے
(تحریر : اقدس ہاشمی)
We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)
اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں
اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔ تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ Ilmu علموبابا
اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔