یہ انعام خداوندی میں سے ایسی نعمت ہے جو ذہن کی نفاست اور انگلیوں کے سرے سے نکلتے ہوئے نوک قلم کے ذریعہ دبیز کاغذ کے سینے پر حرف بہ حرف ترتیب ،جملوں کی ساخت ، ،سوشہ کی کشید،نقطوں کا رکھ رکھاؤ ، سطروں کے درمیان کے فاصلے کی پیمائش عین،جیم اور دیگر اہم حروف کی بناوٹ ،ط،ن، جیسے مشکل حروف کی سجاوٹ ،ص،ش جیسے ملتے جلتے حروف کی تزیین کاری پھر قرآن مقدس اور منزل من اللہ کتاب کی کسی سورت کو لے کر اپنے خداداد فن کی قسمت آزمائی کرنا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین پر خوشخطی کے ذریعے طبع آزمائی ،مخصوص دعائیہ کلمات کو پیچیدہ شکل دیکر ہنر کا مظاہرہ کرنا ،دوست واحباب کے ناموں کو پھولوں کی شکل دے کر مسحورکن آرٹ کا منظر پیش کرنا۔
درودیوار کی خوبصورتی کے اضافہ کے لیے پیڑ پودوں کی شکل بنا کر “سلام مسنون “لکھنا،گھر میں خیروبرکت کے نزول کے لیے ” حروف مقطعات” کو خط نسخ میں لکھ کر فریم بنانا ،آیتہ الکرسی کو خط رقعہ میں لکھ کر دیوان خانہ میں سجانا،صدر دروازہ پر چاروں قل کا البم بنا کر آویزاں کرنا۔
مہمانوں کے استقبال کے لیے “نوری نستعلیق” میں خوش آمدید لکھنا،اھلا وسہلا مرحبا کو “ممبئ بلیک” میں لکھنا،کسی نصیحت آمیز شعر کو “خط دیوانی” میں لکھنا ،مذہبی تصاویر میں “اسمائے حسنیٰ” کو ٹریڈ عربک بولڈ میں لکھ کر چسپاں کرنا۔
ساتھ ہی نمائش اور خوشخطی کی ترغیب کےلئے سوشل میڈیا کا استعمال کرنا،ناظرین اور شائقین تک اس اہم فن کو پہنچانا ، تمام چیزیں ڈیجیٹل ہونے کے باوجود لوگوں کی توجہ کو اس طرف متوجہ کرنا ,شاہوں کے فرامین،شاعروں کے دیوان،ادیبوں کے خوبصورت خیالات کو ایک معمولی سےلکڑی کی تراش سے نقش دے کر “خوشخطی ” کے فن کو سنوار کر ،نکھار کر،سجا کر،سیکھ کر ،سکھا کر ہماری علمی، فنی، تہذیبی و ثقافتی ورثہ کو بچاتے ہوئے اگلی نسلوں تک پہچانا ہم سبھوں کا ایک اہم علمی،اخلاقی فریضہ ہے۔
تحریر | محمد طیب جمشید پوری (مانو،حیدر آباد) |