سبق عظیم سپہ سالار، خلاصہ، سوالات و جوابات

Back to: Punjab Text Book Urdu Class 8 | Chapterwise Notes

خلاصہ سبق:
سبق ” عظیم سپہ سالار” میں حضرت سعد بن ابی وقاص کی عظمت بیان کی گئی ہے۔ آپ رضی اللَّهُ عَنْهُ کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے اور آپ تاریخ اسلام کے عظیم سپہ سالار تھے۔غزوہ احد میں نبی کریم عالم النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَأَصْحَابِہ وَسَلَّمَ کے ساتھ اس وقت بہ طور جاں نثار کھڑے تھے جب کافروں نے آپ خَاتَمُ النَّبِيْنَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلَى اليه وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ کا گھیراؤ کر لیا تھا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول الله خَاتَمُ النَّبِيْنَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى الهِ وَأَصْحَابِہ وَسلم کی پشت پر کھڑے ہو کر تیراندازی کے ذریعے سے دشمنوں کو قریب آنے سے روک رہے تھے۔
اس وقت رسول اکرم خاتم النبین صلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى أَلِهِ وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ کی زبانِ مبارک سے یہ جملہ ادا ہوا کہ سعد خوب تیر برساؤ۔ میرے ماں اور باپ تم پر قربان ہوں۔“حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے غزوہ بدر میں غیر معمولی جوہر دکھائے۔سعید بن العاص کو جو کہ لشکر کفار کا سرخیل تھا، تہ تیغ کیا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو اس کی ذوالکتیفہ نامی تلوار پسند آ گئی ۔ آپ رضی اللہ عنہ اس تلوار کو لیے بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے ۔ چوں کہ اس وقت تک مال غنیمت کی تقسیم سے متعلق کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ اس لیے آپ خاتم النبین صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى أَلِهِ وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ نے نھیں حکم دیا کہ اسے جہاں سے اٹھایا ہے، وہیں رکھ دو۔
اس وقت آپ رضی اللہ عَنْهُ کو کچھ تواپنے بھائیوں کی وفات کا صدمہ اور کچھ تلوار نہ ملنے کا افسوس لیے آپ رضی اللہ عنہ غمگین ہو کر چپ چاپ واپس آگئے لیکن پھر تھوڑی ہی دیر کے بعد سورۃ انفال نازل ہوئی اور سرور کائنات نے آپ رضی الله عَنْهُ کو بلا کر تلوار لینے کی اجازت دے دی۔حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا ایک نہایت دلچسپ واقعہ بخاری شریف میں مذکور ہے کہ حجتہ الوداع کے موقع پر وہ مکہ مکرمہ میں موجودگی کے دوران میں بیمار ہو گئے۔بیماری اتنی زیادہ بڑھی کہ بچنے کی امید باقی نہ رہی۔ اب انھیں دو باتوں کی فکر لاحق ہوئی۔
پہلی تو یہ کہ ان کی اولاد میں اس وقت تک ایک صاحب زادی کے سوا کوئی وارث نہ تھا اور جائیداد خاصی تھی، انھیں فکر تھی کہ جائیداد کا کیا بنے گا اوردوسری فکر یہ تھی کہ انھوں نے نبی اکرم خَاتَمُ النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے مکہ مکرمہ میں اپنا گھر بارچھوڑ کرمدینہ منورہ ہجرت کی تھی اوراب مکہ مکرمہ میں موت آنے کی صورت میں انھیں یہ پریشانی تھی کہ اگر میں یہاں فوت ہو گیا اور یہیں دفن ہو گیا تو میری ہجرت کا کیا بنے گا، کیا میری ہجرت منسوخ اور باطل تو نہیں ہو جائے گی ؟رسول الله عَالم النَّبِينَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلَى أَلِهِ وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ عبادت کے لیے ان کے خیمے میں تشریف لائے تو حضرت سعدرضی اللهُ عَنْهُ نے اُن سے عرض کی یاخَاتَمُ النَّبِينَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى أَلِهِ وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ !
جیسا کہ آپ خَاتَمُ النَّبِينَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى أَلِهِ وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ نےملاحظہ فرمایا ہے کہ میرامرض اس حد کوآ گیا ہےاورمیرے پاس مال ہے،جس کی وارث صرف میری ایک لڑکی ہے تو کیا میں اپنا دو تہائی مال خیرات کر دوں؟” آپ خَاتَمُ النَّبِينَ صَلَّى اللهُ على اله وَ أَصْحَابِہ وَسَلَّم نے فرمایا ” نہیں۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ ” کیا آدھا کر دوں؟“ آپ خَاتَمُ النَّبِينَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلَى الِهِ وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ نے پھر فرمایا ”نہیں“۔ حضرت سعد رضی الله عنه نے پھر پوچھا کہ کیا ایک تہائی کر دوں؟نبی کریم خَاتَمُ النَّبِيْنَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى أَلِهِ وَأَصْحَابِہ وَسَلَّم نے فرمایا انتہائی بھی بہت ہے۔ تم اپنے وارثوں کو مال دار چھوڑ کر جاؤ تو یہ اس سے بہتر ہےکہ انھیں محتاج چھوڑو اوروہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں۔تم جو بھی خرچ کرو گے، اگراس سے اللہ کی رضا مقصود ہوئی تو تمھیں اس پر ثواب ملے گا۔ حتی کہ اس لقمہ پر بھی تمھیں ثواب ملے گا جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو۔
حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، یا رسول الله! خَاتَمُ النَّبِيْنَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلَى الِيهِ وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ ( بیماری کی وجہ کیا میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ (مدینہ) نہیں جا سکوں گا؟“ تو آپ خَاتَمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى اليهِ وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا ” اگر تم نہیں جاسکے جب بھی اگر تم کوئی عمل کرو گے تو تمھارا درجہ اللہ کے یہاں اور بلند ہوگا اورامیدہے کہ تم بھی زندہ رہوگے۔ اورتم سے چھ لوگوں (مسلمان) کون ہے کوکا کولوگوں (اسلام کے دشمنوں کو نقصان پہنچے گا۔ اے اللہ ! میرے ساتھیوں کی ہجرت کو کامل فرما اور انھیں پیچھے نہ ہٹنا۔ ( صحیح بخاری : ۴۴۰۹) نبی پاک کی پیشنگوئی کے مطابق آپ نے اس مرض سے شفا پائی۔ایران کی فتح کے بعد حضرت سعد رضی اللہ عنہ ہی کی قیادت میں اسلامی لشکر نے کئی ماہ کی طویل لڑائی کے بعد عراق کو بھی فتح کیا۔
اس وقت عراق کا دارالحکومت مدائن تھا۔ اسلامی فوج کو یہاں تک پہنچنےمیں کئی ماہ کا عرصہ لگ گیا۔ مدائن سے پہلے جو آخری شہر لشکراسلام نے فتح کیا، وہ بہرہ شیر کا تھا جسے دوماہ کے محاصرے کے بعد فتح کیا جا سکا۔بہرہ شیر اور دارالحکومت مدائن کے درمیان صرف دریائے دجلہ حائل تھا۔ ایرانیوں نے مسلمانوں کے خوف سے دریا پر جہاں جہاں پل تھے،سب کو توڑ کربیکارکر دیا تھا لیکن حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی اولوالعزمی کے آگے دنیا کی کوئی چیز حائل نہ ہوسکی۔ انھوں نے اپنے لشکر کو مخاطب کر کے کہا “برادرانِ اسلام ! دشمن نے ہر طرف سے مجبور ہو کر دریا کے دامن میں پناہ لی ہے، آؤ! اس کو بھی تیر جائیں تو پھر مطلع صاف ہے ۔ یہ کہ کر آپ رضي الله عنہ نے اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔
اپنے سپہ سالار کی جاں بازی دیکھ کر تمام فوج نے بھی جوش کے ساتھ گھوڑے ڈال دیے اور باہم باتیں کرتے ہوئے دوسرے کنارے پر جا پہنچے۔ ایرانی اس عجیب و غریب جوش و استقلال کا منظردیکھ کردیوآگئے، دیوآگئے”کہتے ہوئے بھاگ گئے۔ تاہم ان کا سپہ سالارتھوڑی سی فوج کے ساتھ جما رہا اوردریا سے نکلنے پر حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے لشکر کے مقابل آیا، لیکن مسلمانوں نے ان کو جلد ہی ان کو شکست دے دی اور مدائن پہنچ کرشاہی محلات پر قبضہ کرلیا۔شاہِ ایران جوپہلے ہی بھاگ چکا تھا،البتہ تمام مال واسباب موجود تھا،جو دارالحکومت مدینہ منورہ روانہ کر دیا گیا۔
حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے مدینہ سے دس میل کے فاصلہ پر مقام عقیق میں اپنے لیے ایک گھرلیا تھا جہاں آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی آخری عمر کے کئی سال گوشہ نشینی میں گزارے اور دنیاوی معاملات سےالگ تھلگ رہے۔آخری عمر میں آپ کافی کم زور ہو گئے تھےآپ رضی اللہ عنہ کی آنکھوں کی بصارت بھی جاتی رہی تھی،یہاں تک کہ سن ۵۵ ہجری میں آپ وفات پا گئے۔ پاک بحریہ نے ملکی وسائل سے تیار ہونے والی پہلی آبدوز کو صحابی رسول حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے منسوب کر کے اس کا نام سعد رکھا ہے۔حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے دریا میں گھوڑے اتارنے کے تاریخی واقعے سے منسوب کرتے ہوئے یہ نام رکھا گیا۔

مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جوابات دیں۔
غزوہ اُحد میں حضورخَاتَمُ النَّبِينَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے کیا کہا؟
غزوہ احد میں نبی کریم عالم النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَأَصْحَابِہ وَسَلَّمَ کے ساتھ اس وقت بہ طور جاں نثار کھڑے تھے جب کافروں نے آپ خَاتَمُ النَّبِيْنَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلَى اليه وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ کا گھیراؤ کر لیا تھا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول الله خَاتَمُ النَّبِيْنَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى الهِ وَأَصْحَابِہ وَسلم کی پشت پر کھڑے ہو کر تیراندازی کے ذریعے سے دشمنوں کو قریب آنے سے روک رہے تھے۔ اس وقت رسول اکرم خاتم النبین صلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى أَلِهِ وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ کی زبانِ مبارک سے یہ جملہ ادا ہوا کہ سعد خوب تیر برساؤ۔ میرے ماں اور باپ تم پر قربان ہوں۔“
حضرت سعد رضي الله عنه کوکب کون سی تلوار پسند آئی ؟ کیا وہ تلوار انھیں ملی ؟
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے غزوہ بدر میں غیر معمولی جوہر دکھائے۔سعید بن العاص کو جو کہ لشکر کفار کا سرخیل تھا، تہ تیغ کیا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو اس کی ذوالکتیفہ نامی تلوار پسند آ گئی ۔ آپ رضی اللہ عنہ اس تلوار کو لیے بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے ۔ چوں کہ اس وقت تک مال غنیمت کی تقسیم سے متعلق کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ اس لیے آپ خاتم النبین صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى أَلِهِ وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ نے نھیں حکم دیا کہ اسے جہاں سے اٹھایا ہے، وہیں رکھ دو۔ اس وقت آپ رضی اللہ عَنْهُ کو کچھ تواپنے بھائیوں کی وفات کا صدمہ اور کچھ تلوار نہ ملنے کا افسوس لیے آپ رضی اللہ عنہ غمگین ہو کر چپ چاپ واپس آگئے لیکن پھر تھوڑی ہی دیر کے بعد سورۃ انفال نازل ہوئی اور سرور کائنات نے آپ رضی الله عَنْهُ کو بلا کر تلوار لینے کی اجازت دے دی۔
سعید بن العاص کو کب کس نے قتل کیا ؟
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے غزوہ بدر میں سعید بن العاص کو جو کہ لشکر کفار کا سرخیل تھا، تہ تیغ کیا۔
حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اپنا گھوڑا دریا میں کب اور کیوں ڈالا؟
مدائن سے پہلے جو آخری شہر لشکراسلام نے فتح کیا، وہ بہرہ شیر کا تھا جسے دوماہ کے محاصرے کے بعد فتح کیا جا سکا۔بہرہ شیر اور دارالحکومت مدائن کے درمیان صرف دریائے دجلہ حائل تھا۔ ایرانیوں نے مسلمانوں کے خوف سے دریا پر جہاں جہاں پل تھے،سب کو توڑ کربیکارکر دیا تھا لیکن حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی اولوالعزمی کے آگے دنیا کی کوئی چیز حائل نہ ہوسکی۔ انھوں نے اپنے لشکر کو مخاطب کر کے کہا “برادرانِ اسلام ! دشمن نے ہر طرف سے مجبور ہو کر دریا کے دامن میں پناہ لی ہے، آؤ! اس کو بھی تیر جائیں تو پھر مطلع صاف ہے ۔ یہ کہ کر آپ رضي الله عنہ نے اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔
سعد کس آبدوزکا نام ہے؟اسے یہ نام کیوں کیادیا گیا ؟
پاک بحریہ نے ملکی وسائل سے تیار ہونے والی پہلی آبدوز کو صحابی رسول حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے منسوب کر کے اس کا نام سعد رکھا ہے۔حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے دریا میں گھوڑے اتارنے کے تاریخی واقعے سے منسوب کرتے ہوئے یہ نام رکھا گیا۔
حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کب اور کہاں وفات پائی؟
حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے مدینہ سے دس میل کے فاصلہ پر مقام عقیق میں اپنے لیے ایک گھرلیا تھا جہاں آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی آخری عمر کے کئی سال گوشہ نشینی میں گزارے اور دنیاوی معاملات سےالگ تھلگ رہے۔آخری عمر میں آپ کافی کم زور ہو گئے تھےآپ رضی اللہ عنہ کی آنکھوں کی بصارت بھی جاتی رہی تھی،یہاں تک کہ سن ۵۵ ہجری میں آپ وفات پا کئے۔
مندرجہ ذیل سوالات کے تفصیلی جواب دیں۔
(الف) بخاری شریف میں حضرت سعد رضی الله عنه سے منسوب واقعہ تحریر کریں۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا ایک نہایت دلچسپ واقعہ بخاری شریف میں مذکور ہے کہ حجتہ الوداع کے موقع پر وہ مکہ مکرمہ میں موجودگی کے دوران میں بیمار ہو گئے۔بیماری اتنی زیادہ بڑھی کہ بچنے کی امید باقی نہ رہی۔ اب انھیں دو باتوں کی فکر لاحق ہوئی ۔ پہلی تو یہ کہ ان کی اولاد میں اس وقت تک ایک صاحب زادی کے سوا کوئی وارث نہ تھا اور جائیداد خاصی تھی، انھیں فکر تھی کہ جائیداد کا کیا بنے گا اوردوسری فکر یہ تھی کہ انھوں نے نبی اکرم خَاتَمُ النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے مکہ مکرمہ میں اپنا گھر بارچھوڑ کرمدینہ منورہ ہجرت کی تھی اوراب مکہ مکرمہ میں موت آنے کی صورت میں انھیں یہ پریشانی تھی کہ اگر میں یہاں فوت ہو گیا اور یہیں دفن ہو گیا تو میری ہجرت کا کیا بنے گا، کیا میری ہجرت منسوخ اور باطل تو نہیں ہو جائے گی ؟
رسول الله عَالم النَّبِينَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلَى أَلِهِ وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ عبادت کے لیے ان کے خیمے میں تشریف لائے تو حضرت سعدرضی اللهُ عَنْهُ نے اُن سے عرض کی یاخَاتَمُ النَّبِينَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى أَلِهِ وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ ! جیسا کہ آپ خَاتَمُ النَّبِينَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى أَلِهِ وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ نےملاحظہ فرمایا ہے کہ میرامرض اس حد کوآ گیا ہےاورمیرے پاس مال ہے،جس کی وارث صرف میری ایک لڑکی ہے تو کیا میں اپنا دو تہائی مال خیرات کر دوں؟” آپ خَاتَمُ النَّبِينَ صَلَّى اللهُ على اله وَ أَصْحَابِہ وَسَلَّم نے فرمایا ” نہیں۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ ” کیا آدھا کر دوں؟“ آپ خَاتَمُ النَّبِينَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلَى الِهِ وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ نے پھر فرمایا ”نہیں“۔ حضرت سعد رضی الله عنه نے پھر پوچھا کہ کیا ایک تہائی کر دوں؟
نبی کریم خَاتَمُ النَّبِيْنَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى أَلِهِ وَأَصْحَابِہ وَسَلَّم نے فرمایا انتہائی بھی بہت ہے۔ تم اپنے وارثوں کو مال دار چھوڑ کر جاؤ تو یہ اس سے بہتر ہےکہ انھیں محتاج چھوڑو اوروہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں۔تم جو بھی خرچ کرو گے، اگراس سے اللہ کی رضا مقصود ہوئی تو تمھیں اس پر ثواب ملے گا۔ حتی کہ اس لقمہ پر بھی تمھیں ثواب ملے گا جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، یا رسول الله! خَاتَمُ النَّبِيْنَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلَى الِيهِ وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ ( بیماری کی وجہ کیا میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ (مدینہ) نہیں جا سکوں گا؟“ تو آپ خَاتَمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى اليهِ وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا ” اگر تم نہیں جاسکے جب بھی اگر تم کوئی عمل کرو گے تو تمھارا درجہ اللہ کے یہاں اور بلند ہوگا اورامیدہے کہ تم بھی زندہ رہوگے۔ اورتم سے چھ لوگوں (مسلمان) کون ہے کوکا کولوگوں (اسلام کے دشمنوں کو نقصان پہنچے گا۔ اے اللہ ! میرے ساتھیوں کی ہجرت کو کامل فرما اور انھیں پیچھے نہ ہٹنا۔ ( صحیح بخاری : ۴۴۰۹)
ب) فتح مدائن کا واقعہ تحریر کریں۔
ایران کی فتح کے بعد حضرت سعد رضی اللہ عنہ ہی کی قیادت میں اسلامی لشکر نے کئی ماہ کی طویل لڑائی کے بعد عراق کو بھی فتح کیا۔ اس وقت عراق کا دارالحکومت مدائن تھا۔ اسلامی فوج کو یہاں تک پہنچنےمیں کئی ماہ کا عرصہ لگ گیا۔ مدائن سے پہلے جو آخری شہر لشکراسلام نے فتح کیا، وہ بہرہ شیر کا تھا جسے دوماہ کے محاصرے کے بعد فتح کیا جا سکا۔بہرہ شیر اور دارالحکومت مدائن کے درمیان صرف دریائے دجلہ حائل تھا۔ ایرانیوں نے مسلمانوں کے خوف سے دریا پر جہاں جہاں پل تھے،سب کو توڑ کربیکارکر دیا تھا لیکن حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی اولوالعزمی کے آگے دنیا کی کوئی چیز حائل نہ ہوسکی۔ انھوں نے اپنے لشکر کو مخاطب کر کے کہا “برادرانِ اسلام ! دشمن نے ہر طرف سے مجبور ہو کر دریا کے دامن میں پناہ لی ہے، آؤ! اس کو بھی تیر جائیں تو پھر مطلع صاف ہے ۔ یہ کہ کر آپ رضي الله عنہ نے اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔اپنے سپہ سالار کی جاں بازی دیکھ کر تمام فوج نے بھی جوش کے ساتھ گھوڑے ڈال دیے اور باہم باتیں کرتے ہوئے دوسرے کنارے پر جا پہنچے۔ایرانی اس عجیب و غریب جوش و استقلال کا منظردیکھ کردیوآگئے، دیوآگئے”کہتے ہوئے بھاگ گئے۔ تاہم ان کا سپہ سالارتھوڑی سی فوج کے ساتھ جما رہا اوردریا سے نکلنے پر حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے لشکر کے مقابل آیا، لیکن مسلمانوں نے ان کو جلد ہی ان کو شکست دے دی اور مدائن پہنچ کرشاہی محلات پر قبضہ کرلیا۔شاہِ ایران جوپہلے ہی بھاگ چکا تھا،البتہ تمام مال واسباب موجود تھا،جو دارالحکومت مدینہ منورہ روانہ کر دیا گیا۔
متن کے مطابق درست جواب پر ✔️ کا نشان لگائیں۔

(الف) عشرہ مبشرہ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ میں شامل ہیں:
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ✔️
حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ
(ب) حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله غلہ نے سعید بن العاص کو تہ تیغ کیا:
غزوہ احد میں✔️
غزوہ بدر میں
غزوہ خندق میں
غزوہ حنین میں
(ج) بہرہ شیر اور دار الحکومت مدائن کے درمیان حائل تھا:
دریائے فرات
دریائے دجلہ✔️
دریائے عراق
دریائے دمشق
(د) حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عَنْهُ گورنر رہے :
جدہ کے
مدینہ منورہ کے
کوفہ کے ✔️
بصرہ کے
(ه) حضرت سعد بن ابی وقاص رضى اللهُ عَنْهُ نے اپنا گھوڑا ڈال دیا:
دریا میں ✔️
سمندر میں
نہر میں
تالاب میں
(و) حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ سے دس میل کے فاصلہ پر اپنے لیے ایک گھر تعمیر کرایا تھا:
مقام عتیق میں
مقام رفیق میں
مقام عمیق میں
مقام عقیق میں ✔️

متشابه الفاظ بلحاظ آواز:
متشابه الفاظ ان الفاظ کو کہا جاتا ہے جو املا یا آواز کے لحاظ سے ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہوں مگر ان کے معنی مختلف ہوں۔ جیسے :

آم:
مجھے آم پسند ہے۔

عام:
احمد ایک عام آدمی ہے۔

ان الفاظ کو پڑھیے اور معانی تلاش کر کے جملوں میں استعمال کیجیے۔

الفاظ
معنی
جملے

عصر
زمانہ
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں عصر یعنی زمانے کی قسم کھائی ہے۔

اثر
تاثیر
یہ دوا بہت پر اثر ہے۔

بے باق
ختم کرنا
میں نے اپنا حساب بے باق کر دیا۔

بے باک
کھلا انداز
آج کل کے نوجوانوں کا اندازِ گفتگو بہت بے باک ہے۔

آرا
رائے
موجودہ مہنگائی کے بارے میں آپ کی کیا آرا ہے؟

آراء
سجاوٹ
دلہن کے کمرے کو پھولوں سے آراء کیا گیا۔

حامی
ہاں
علی نے میری مدد کرنے کی حامی بھری۔

ہامی
حمایت کرنے والا
اللہ آپ کا ہامی و ناصر ہو۔

عرض
گزارش
میری ایک چھوٹی سی عرض ہے۔

ارض
زمین
اللہ تعالیٰ ارض و سما کا مالک ہے۔

ہلال
چاند
ہلال کا چاند روشن تھا۔

حلال
جائز
اللہ کی طرف سے اسلام میں حلال و حرام کا تصور موجود ہے۔

کامیابی کے حصول کے لیے اُستاد اور شاگرد کا رشتہ مضبوط ہونا بہت ضروری ہے۔ نبی کریم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں سے سیکھتے ہوئے آپ اس رائے سے کس حد تک اتفاق کرتے ہیں؟ مفصل تحریر کیجیے۔
معلّم ہی وہ اہم شخصیت ہے جو تعلیم وتربیت کا محور ،منبہ ومرکز ہوتا ہے ،ترقی یافتہ قوموں اور مہذب معاشروں میں استاد کوایک خاص مقام و مرتبہ اور نمایاں حیثیت حاصل ہوتی ہے کیونکہ مہذب ،توانا،پرامن اور باشعور معاشرے کا قیام استاد ہی مرہون منت ہے۔اسلام نے دنیا کوعلم کی روشنی عطا کی ،استاد کو عظمت اور طالب علم کو اعلیٰ و ارفع مقام عطا کیا ہے ،بنی کریم ﷺنے اپنے مقام و مرتبہ کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ” مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہےمعلّم کے کردار کی عظمت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس عالم رنگ و بو میں معلّم اوّل خود رب کائنات ہیں ،چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ہے ،اور اٰدم ؑ کو اللہ کریم نے سب چیزوں کے اسماء کا علم عطاء کیا۔(البقرہ۔31) ۔
انسان کی تخلیق کے ساتھ ساتھ تعلیم کا بھی انتظام فرمایا”۔معلّم کو اللہ اور اس کی مخلوقات کی محبوبیت نصیب ہوتی ہے ،مخبر صادقﷺنے استاد کی محبوبیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ لوگوں کو بھلائی سیکھانے والے پر اللہ ،ان کے فرشتے ، آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں پانی میں رحمت بھیجتی اور دعائیں کرتی ہیں۔(ترمذی ۔2675)اساتذہ کے لیے نبی کریم ﷺ نے دعافرمائی کہ اللہ تعالی اس شخص کو خوش وخرم رکھے جس نے میری کوئی بات سنی اور اسے یاد رکھااور اس کو جیسا سنا اسی طرح لوگوں تک پہنچا یا۔(ابو داؤد۔366 خیر القرون میں معلّمین کو اتنی زیادہ اہمیت حاصل تھی کہ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ معلّمین کو درس وتدریس کے ساتھ ساتھ اعلی انتظامی امور اور عہدوں پر فائز کرتے تھے۔حضرت علی المرتضیؓ کا قول ہے کہ جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھا دیا میں اس کا غلام ہوں خواہ وہ مجھے آزاد کر دے یا بیچ دے۔(تعلیم المتعلم ۔21)
حضرت مغیرہؓ کہتے ہیں کہ ہم استاد سے اتناڈرتے اور ان کا اتنا ادب کرتے تھے جیسا کہ لوگ بادشاہ سے ڈرا کرتے ہیں ۔حضرت یحییٰ بن معین ؒ بہت بڑے محدث تھے امام بخاریؒ ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ محدثین کا جتنا احترا م وہ کرتے تھے اتنا کرتے ہوئے میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ امام ابو یوسف ؒ کہتے ہیں کہ میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ جو استاد کی قدر نہیں کرتا وہ کامیاب نہیں ہوتا۔(تعلیم المتعلم 22)حضرت عبداللہ بن عباسؓ اساتذہ کے سامنے تواضع اور انکساری کا اظہار کرتے تھے، علم حدیث کے لیے ان کے گھروں کی دہلیز پر بیٹھ جاتے اور استاد کے نکلنے کا انتظار کرتے رہتے ،ہوا سے چہرے پر گرد اور مٹی پڑتی رہتی تھی ،جب وہ حضرات اپنے کا م سے باہر نکلتے تو آپ کو منتظر اور طالب علم پاتے اورآپ استاذ کے سامنے یوں گویا ہوتے کہ میں علم کا طالب ہوں، میرادل نہ چاہا کہ آپ میری وجہ سے اپنی ضروریات سے فارغ ہونے سے پہلے آئیں(دارمی)۔
یہی ادب تھا جس کی وجہ سے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کوامام المفسرین ، حبر الامت اور بحر العلم کا لقب عطا ہوا۔حضرت عبد اللہ بن عمرؓ ،حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ، حضرت ابوہریرہؓ،حضرت ابی بن کعبؓ اورحضرت مصعب بن عمیرؓ جیسے سینکڑوں صحابہ کرام نے معلّم کائنات کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ،تربیت اور تزکیہ کی چکی میں پسے آپ ﷺ کی مجلس میں ادب کا یہ عالم ہوتا تھا کہ صحابہ کرامؓ چہرہ انورﷺ کی طرف سیدھا نہیں دیکھتے تھے،بیٹھنے کا اندازایسا مؤدبانہ ہوتا تھا کہ پرندے آ کرصحابہ کے سروں پر بیٹھ جاتے تھے۔امام اعظم ابو حنیفہ ؒ اپنے استاد کا اتنا ادب کرتے تھے کہ کبھی استادکے گھر کی طرف پاؤں کرکے نہیں سوئے۔اسلامی تعلیمات کی روشنی میں معلّم کو سب سے بہترین انسان قرار دیا گیا ہے،استاد کے ادب کو تحصیل علم کے لیے بنیاداور اساس کہا گیا ہے ۔عربی مقولہ ہے الادب شجر والعلم ثمر ثم فکیف یجدون الثمر بدون الشجر۔ادب درخت ہے اور علم پھل ہے پھر بغیر درخت کے کیسے حاصل ہو سکتا ہے۔معلّم انسانیت پر محنت کرکے کار نبوت سرانجام دے رہا ہوتا ہے۔امام الانبیاءﷺکی حدیث شریف اس پر شاھد ہے کہ علم والے نبیوں کے وارث ہیں۔(ابوداؤد۔3641)
استادافراد کی تربیت کرکے ایک مہذب معاشرہ تشکیل دیتا ہے گویا بادشاہ لوگوں پر حکومت کرتے ہیں جب کہ بادشاہوں پر معلّمین کی حکومت ہوتی ہے۔پیغمبر اسلام ﷺکا ارشاد مبارک منصب تدریس کی اہمیت کو مزید واضح کردیتا ہے کہ جس شخص نے لوگوں کو خیر کی طرف بلایا ،لوگوں کے اجر کے برابر اس کو بھی اجر ملے گااور لوگوں کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔(مسلم۔1893) معلّم کا فرض سب سے اہم اور اس کی ذمہ داری سب سے مشکل ہے۔ مصور پاکستان،شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ؒ نے معلّم کی حیثیت ،عظمت اور اہمیت کو بہت احسن انداز میں بیان کیا ہے کہ استاددراصل قوم کا محافظ ہوتاہے کیونکہ آئندہ آنے والی نسلوں کو سنوار نا اور ان کو ملک و ملت کی خدمت کے قابل بنانا ان ہی کے سپرد ہے،سب محنتوں میں اعلٰی درجے کی محنت اور کارگزاریوں میں سب سے بیش قیمت کارگزاری معلّموں کی ہے،معلّم کا فرض سب سے زیادہ مشکل اور اہم ہے کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی ،تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اس کے ہاتھ میں ہے اور ہر قسم کی ترقی کا سر چشمہ اس کی محنت ہے۔معلّم کی یہ عظمت،مقام و مرتبہ اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ صفات حسنہ اور اخلاق حمیدہ کا جامع ،صبر واخلاص کا پیکر،علم و تحقیق کے خمیر میں گوندا ہواہو۔استاد کا مطمع نظر رضا خداوندی، انسانیت کی تربیت اور نونہالان قوم کو علم ومعرفت سے روشناس کرانے کا جذبہ ہونا چاہیے۔معلم اور شاگرد کے درمیان کا رشتہ بہت بلند مرتبت ہے اس میں ادب کے ساتھ ساتھ محبت کا ہونا بھی ضروری ہے تبھی یہ رشتہ زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔
سرگرمیاں:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی زندگیوں پر کوئی کتاب پڑھیے اور تبصرہ کیجیے جو کم از کم ۲۰۰ الفاظ پر مشتمل ہو۔
صحابہ نام ہے ان نفوس ِ قدسیہ کا جنہوں نے محبوب ومصدوق رسول ﷺ کے روئے مبارک کو دیکھا اور اس خیر القرون کی تجلیات ِایمانی کو اپنے ایمان وعمل میں پوری طرح سمونے کی کوشش کی ۔ صحابی کا مطلب ہے دوست یاساتھی شرعی اصطلاح میں صحابی سے مراد رسول اکرم ﷺکا وہ ساتھی ہے جو آ پ پر ایمان لایا،آپ ﷺ کی زیارت کی اور ایمان کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوا۔
صحابی کالفظ رسول اللہﷺ کے ساتھیوں کے ساتھ کے خاص ہے لہذاب یہ لفظ کوئی دوسرا شخص اپنے ساتھیوں کےلیے استعمال نہیں کرسکتا۔ انبیاء کرام کے بعد صحابہ کرام کی مقدس جماعت تمام مخلوق سے افضل اور اعلیٰ ہے یہ عظمت اور فضیلت صرف صحابہ کرام کو ہی حاصل ہے کہ اللہ نے انہیں دنیا میں ہی مغفرت،جنت اور اپنی رضا کی ضمانت دی ہے بہت سی قرآنی آیات اور احادیث اس پر شاہد ہیں۔صحابہ کرام سے محبت اور نبی کریم ﷺ نے احادیث مبارکہ میں جوان کی افضلیت بیان کی ہے ان کو تسلیم کرنا ایمان کاحصہ ہے ۔بصورت دیگرایما ن ناقص ہے ۔ صحابہ کرام کے ایمان ووفا کا انداز اللہ کو اس قدر پسند آیا کہ اسے بعد میں آنے والے ہر ایمان لانے والے کے لیے کسوٹی قرار دے دیا۔
صحابہ کرام کےایمان افروز تذکرے سوانح حیا ت کے حوالے سے ائمہ محدثین او راہل علم کئی کتب تصنیف کی ہیں عربی زبان میں الاصابہ اور اسد الغابہ وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔اور اسی طرح اردو زبان میں کئی کتب موجود ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’عشرہ مبشرہ‘‘ علامہ قاضی محمد سلیمان منصورپوری کے بھائی قاضی حبیب الرحمن کی تصنیف ہے ۔ جماعت ِ صحابہ کرام میں مہاجرین وانصار جملہ صحابہ سےبالاتفاق افضل ہیں۔ پھرانصار پر مہاجرین کواور مہاجرین پر عشرہ مبشرہ کو فضیلت خاص حاصل ہے ۔عشرہ مبشرہ سے وہ جلیل القدر صحابہ کرام مراد ہیں جنہیں نبی کریم ﷺ نے دنیا ہی میں جنتی ہونے کی بشارت دے دی تھی۔کتاب ہذا میں میں مصنف موصوف نے عشرہ مبشرہ صحابہ کرام کے حالات وواقعات اور ان کے فضائل ومناقب کو آیات قرآنی اور کتب ِ حدیث وسیرت کےحوالہ جات سےمزین کر کے پیش کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش کو شرف ِقبولیت سے نوازے اور اہل اسلام کے دلوں میں صحابہ کی عظمت ومحبت پیدا فرمائے (آمین) (م۔ا)
اپنے دوست کو خط لکھیے جس میں انھیں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی قدر و منزلت سے آگاہ کیجیے۔
امتحانی مرکزجون2023ء2پیاری نازش!اسلام علیکم! امید کرتی ہوں تم خیریت سے ہوگی۔ تمھارا خط ملا تم نے میری روزمرہ معمولات کے متعلق پوچھا تو تمھیں بتاتی چلوں کہ آج کل میں اصحابہ کرام کی زندگی کے متعلق کتاب پڑھ رہی ہوں جس سے نہ صرف ایمان افروز واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں بلکہ اسلامی معلومات میں بھی بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔ جیسے کہ آج ہی میں نے عشرہ مبشہ کے متعلق پڑھا اور آج جن صحابی کا واقعہ پڑھا وہ کوئی اور نہیں بلکہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ہیں۔ان جی قدرو منزلت کا اندازہ تم اس واقعے سے کرسکتی ہو کہ انھوں نے اپنی زندگی میں آپ صلی وعلیہ وسلم سے اپنے بارے میں یہ کلمات سنے کہ تم پہ میرے ماں باپ قربان ہوں۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ غزوہ احد میں نبی کریم عالم النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَأَصْحَابِہ وَسَلَّمَ کے ساتھ اس وقت بہ طور جاں نثار کھڑے تھے جب کافروں نے آپ خَاتَمُ النَّبِيْنَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلَى اليه وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ کا گھیراؤ کر لیا تھا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول الله خَاتَمُ النَّبِيْنَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى الهِ وَأَصْحَابِہ وَسلم کی پشت پر کھڑے ہو کر تیراندازی کے ذریعے سے دشمنوں کو قریب آنے سے روک رہے تھے۔ اس وقت رسول اکرم خاتم النبین صلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى أَلِهِ وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ کی زبانِ مبارک سے یہ جملہ ادا ہوا کہ سعد خوب تیر برساؤ۔ میرے ماں اور باپ تم پر قربان ہوں۔“اس کے علاوہ بھی یہ کتاب کئی دلچسپ اور ایمان افروز واقعات اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے واقعات سے بھر پور ہے جلد ہی اود معلومات بھی لکھ بھیجوں گی۔ سب کو سلام۔وسلامتمھاری سہیلیا ، ب، ج
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی زندگیوں میں سے کسی سبق آموز واقعے کا انتخاب کر کے جماعت میں اعتماد سے پیش کریں۔ نیز تلفظ اور روانی کا خصوصی خیال رکھیں۔
محبت کی اولین علامت محبوب کی اتباع وپیروی ہے اس لیے ہر امتی پر حق ہے کہ محبوب دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس بات کا حکم دیا اس پر عمل پیرا ہوں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سنت پر عمل :حضرت سیدتنا ام درداء رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ سیدنا ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ جب بھی بات فرماتے تو مسکراتے میں نے عرض کی آپ اپنی اس عادت کو ترک فرما دیجئے ورنہ آپ کو لوگ احمق کہنے لگیں گے۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے کہ میں نے جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بات کرتے سنا آپ مسکراتے تھے (لہذا اس سنت پر عمل کو ترک نہیں کر سکتا)
سبق میں موجود مشکل الفاظ کے معانی اور مترادفات تلاش کر کے فہرست بنائیے۔ (کم از کم ۱۵/ الفاظ)

الفاظ
معنی
مترادف

شجاعت
بہادری
بلند ہمت

تہ تیغ
تلوار تلے
مارنا

سرخیل
سربراہ
قائد

سرور
سکون بخش
انبساط

ملاحظہ
دیکھنا
دیکھا

محاصرے
گھیراؤ
دائرہ کار

شہادت
خدا کی راہ میں شہید ہونا
ثبوت

پریشانی
تکلیف
دکھ

رضا
مرضی
خوشی

عظیم
بلند
اعلیٰ

شکست
ہار
ناکامی

بصارت
آنکھوں کی روشنی
نظر

منسوب
کسی سے تعلق جوڑنا
جڑا ہوا

قیادت
سربراہی
رہنمائی

کامل
مکمل
تکمیل

Leave a Reply

Ilmu علمو