سبق : قانون کی گرفت خلاصہ، سوالات و جوابات

Back to: Model Darsi Kitab Urdu Class 8 | Chapterwise Notes

نیشنل بک فاؤنڈیشن “اردو” برائے آٹھویں جماعت
سبق نمبر: 10
سبق کا نام: قانون کی گرفت

خلاصہ سبق:
سبق “قانون کی گرفت” کی کہانی ایک بچے شجاع کے گرد گھومتی ہے۔ شجاع کچھ عرصہ پہلے ہی اپنے والدین کے ساتھ یورپ سے لوٹا تھا۔شجاع کے والد نعیم مشتاق صاحب کا خیال تھا کہ اپنے کثیر سرمائے سے اپنے ملک میں کارخانے لگا کرپاکستان کی خدمت کرنی چاہیے اور ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا کردارادا کرنا چاہیے۔وہ فیصل آباد کے مدینہ ٹاؤن میں رہتے تھے اس لیے وہیں اپنا کارخانہ لگا لیا۔
شجاع کے والد دن بھر کا روبار کے سلسلے میں مصروف رہتے ۔ شجاع گھر پراکیلا ہو کر بیزار ہوجاتا۔ اردگردکے گھروں میں اس کی کسی سے جان پہچان اور واقفیت بھی نہ تھی کہ دل بہلانے کوکسی کے گھر چلا جاتا۔ والد صاحب نے تنگ آکر اس شرط پر سے کمپیوٹر خرید کر دے دیا کہ اس کی وجہ سے پڑھائی کسی صورت میں متاثرنہ ہوگی۔
شجاع نے انٹرنیٹ پر کئی دوست بنا لیے انھیں میں اس کا ایک دوست تیمور بھی تھا جو کہ بہت نیک سیرت تھا۔ مگر تیمور کے بڑے بھائی کا اٹھنا بیٹھنا کچھ ایسے مشکوک لڑکوں میں تھا جن کی روز مرہ سرگرمیاں غیر قانونی اورغیر اخلاقی تھیں۔ رات گئے تک وہ موٹرسائیکلوں پر گھومتے پھرتے ۔ ایک دو دفعہ تو اہل محلہ نے تیمور کے بڑے بھائی کے معمولات کے متعلق اس کے والدین سے شکایت بھی کی لیکن تیمور کے بڑے بھائی کی ہٹ دھرمی اور ضد کے سامنے والدین نے محلے والوں کی باتوں کونظر انداز کردیا جس کی وجہ سے اُسے مزید شہ مل گئی۔ آئے روز گلی محلے میں راہ چلتے لوگوں سے موبائل فون کی چھینا جھپٹی کے جرائم کی وارداتیں زیادہ ہونے لگی تھیں۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کا خیال تھا کہ اس قسم کی وارداتوں میں زیادہ تر نو جوان لڑکوں کا ہاتھ ہے۔اس نے جب شجاع کے بارے میں جانا تو وہ اس کے خلاف منصوبہ بننے لگا اس میں زبردستی اپنے بھائی کو شامل کیا اور تیمور کے ذریعے شجاع جو ایک انجان جگہ پر ملاقات کے لیے بلا کر اسے تاوان کی رقم کے لیے اغوا کر لیا۔
جب شجاع کے گھر فون گیا تو اتفاقاً اس کے والد سائبر کرائم کے ایک آفیسر کو جانتے رپورٹ درج ہو کر شجاع کی تلاش شروع ہوگئی۔ جب اس کے دوستوں کی معلومات کی گئی تو اس کا ایک ہی دوست تیمور تھا۔ انٹرنیٹ کی معلومات کے ذریعے تمام معاملے کی کلی کھل گئی اور ساتھ ہی تینور کے بھائی کے فون کی لوکیشن کے ذریعے تمام معاملہ سلجھ گیا اور شجاع بازیاب ہو گیا۔
پولیس ڈیپارٹمنٹ کے افسر بلال سلہری نے شجاع کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: بیٹا! سوشل میڈ یا پر اپنی اور اپنے والد کی ذاتی معلومات کسی قیمت پر اجنبی شخص کو نہ بتائیں۔ اگر کوئی اجنبی آپ سے کسی قسم کی معلومات طلب کرے تو فوری طور پر اپنے والد کو آگاہ کریں۔ مجرم کتنا ہی چالاک اور طاقتور کیوں نہ ہو وہ قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔
جب بچے سوشل میڈیا استعال کر رہے ہوں والدین کو چاہیے کہ ن کی کڑی نگرانی کریں تا کہ کسی قسم کی غیر اخلاقی یا غیر قانونی سرگرمیوں کا حصہ نہ بنیں۔ شجاع نے بھی آئندہ سوشل میڈیا احتیاط سے استعمال کرنے کا وعدہ کیا۔

درج ذیل سوالات کے جوابات ہیں:
نعیم مشتاق صاحب پاکستان میں کیوں سرمایہ لگانا چاہتے تھے؟
شجاع کے والد نعیم مشتاق صاحب کا خیال تھا کہ اپنے کثیر سرمائے سے اپنے ملک میں کارخانے لگا کرپاکستان کی خدمت کرنی چاہیے اور ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا کردارادا کرنا چاہیے۔
کپڑے کا کارخانہ فیصل آباد میں کیوں لگایا گیا ؟
وہ فیصل آباد کے مدینہ ٹاؤن میں رہتے تھے اس لیے وہیں اپنا کارخانہ لگا لیا۔
شجاع کو اس کے والد صاحب نے کمپیوٹر کیوں لے کر دیا ؟
شجاع کے والد دن بھر کا روبار کے سلسلے میں مصروف رہتے ۔ شجاع گھر پراکیلا ہو کر بیزار ہوجاتا۔ اردگردکے گھروں میں اس کی کسی سے جان پہچان اور واقفیت بھی نہ تھی کہ دل بہلانے کوکسی کے گھر چلا جاتا۔ والد صاحب نے تنگ آکر اس شرط پر سے کمپیوٹر خرید کر دے دیا کہ اس کی وجہ سے پڑھائی کسی صورت میں متاثرنہ ہوگی۔
تیمور کے بھائی کا کردار کس قسم کا تھا؟
تیمور کے بڑے بھائی کا اٹھنا بیٹھنا کچھ ایسے مشکوک لڑکوں میں تھا جن کی روز مرہ سرگرمیاں غیر قانونی اورغیر اخلاقی تھیں۔ رات گئے تک وہ موٹرسائیکلوں پر گھومتے پھرتے ۔ ایک دو دفعہ تو اہل محلہ نے تیمور کے بڑے بھائی کے معمولات کے متعلق اس کے والدین سے شکایت بھی کی لیکن تیمور کے بڑے بھائی کی ہٹ دھرمی اور ضد کے سامنے والدین نے محلے والوں کی باتوں کونظر انداز کردیا جس کی وجہ سے اُسے مزید شہ مل گئی۔ آئے روز گلی محلے میں راہ چلتے لوگوں سے موبائل فون کی چھینا جھپٹی کے جرائم کی وارداتیں زیادہ ہونے لگی تھیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا خیال تھا کہ اس قسم کی وارداتوں میں زیادہ تر نو جوان لڑکوں کا ہاتھ ہے۔
پولیس افسر بلال سلہری نےشجاع کوکیا نصیحت کی ؟
پولیس ڈیپارٹمنٹ کے افسر بلال سلہری نے شجاع کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: بیٹا! سوشل میڈ یا پر اپنی اور اپنے والد کی ذاتی معلومات کسی قیمت پر اجنبی شخص کو نہ بتائیں۔ اگر کوئی اجنبی آپ سے کسی قسم کی معلومات طلب کرے تو فوری طور پر اپنے والد کو آگاہ کریں۔ مجرم کتنا ہی چالاک اور طاقتور کیوں نہ ہو وہ قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔ جب بچے سوشل میڈیا استعال کر رہے ہوں والدین کو چاہیے کہ ن کی کڑی نگرانی کریں تا کہ کسی قسم کی غیر اخلاقی یا غیر قانونی سرگرمیوں کا حصہ نہ بنیں۔
سبق کی روشنی میں درست جواب کا انتخاب کریں:

نعیم مشتاق صاحب کہاں سے پاکستان آئے تھے ؟
الف)امریکا ب) افریقہ ج) یورپ✅ د) ایشیا
شجاع کے والد نے پاکستان کے کس شہر میں کپڑے کا کارخانہ لگایا ؟
الف)لاہور ب) فیصل آباد ✅ ج) کراچی د)اسلام آباد
نعیم مشتاق صاحب نے اپنے بیٹےکو کیا خرید کردیا ؟
الف) موبائل فون ب) کمپوٹر✅ ج) گاڑی د)کتاب
اغوا کرنے والوں نے کتنی رقم کا مطالبہ کیا ؟
الف)دس لاکھ ب)پچاس لاکھ ج) ایک کروڑ✅ د) دو کروڑ
سائبر کرائم ڈیپارٹمنٹ کن جرائم کی روک تھام کے لیے بنایا گیا ہے؟

مندرجہ ذیل اسموں کی جمع الجمع بنا ئیں۔

واحد
جمع
جمع الجمع

لازم
ملزوم
متلازم

خبر
اخبار
اخبارات

امر
امور
امرات

فیض
فیوض
فیضانات

رقم
رقوم
رقومات

مندرجہ ذیل محاورات کے جملے بنائیں:

الفاظ
جملے

عملی جامہ پہنانا
آخر میں نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنا لیا۔

دل بہلانا
احمد نے روتے ہوئے بچے کا کھلونوں کے ذریعے دل بہلانا شروع کر دیا۔

شہ ملنا
آج کے دور کے بچوں کو حد سے زیادہ شہ ملنا شروع ہو چکی ہے۔

اوسان خطا ہونا
شیر کو اپنے سامنے پا کر میرے اوسان خطا پو گئے۔

سراغ لگانا
پولیس نے چور کا سراغ لگانا شروع کر دیا۔

سوشل میڈیا کے فوائد اور نقصانات پر دو سو الفاظ مشتمل تبصرہ لکھیں:

سوشل میڈیا کے فوائد اور نقصانات۔

سوشل میڈیا کے فوائد اور نقصانات دونوں کی بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں۔فوائد کی بات کرنے کی جائت تو سوشل میڈیا نے دنیا کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے۔ اس کے ذریعے، لوگ دوسرے ممالک اور قوموں سے رابطہ رکھتے ہیں اور اپنی تجربات اور خبروں کا اشتراک کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں، سوشل میڈیا ایک بہترین موجودہ مذاکرہ کے میدان ہے، جہاں افراد اپنے خیالات اور تجربات کا اظہار کر سکتے ہیں۔
سوشل میڈیا کے ذریعے، افراد اپنے مفاد کے موضوعات پر آگاہی پیدا کر سکتے ہیں اور جدید اور تازہ ترین خبروں سے باخبر رہ سکتے ہیں۔سوشل میڈیا کے ذریعے ہم دوسرے لوگوں سے جڑے رہ سکتے ہیں اور دوستوں اور خاندان کے ساتھ رابطہ برقرار رکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، سوشل میڈیا کے ذریعے ہم اپنے انداز میں تبدیلی لانے اور نئے دوستوں کی پیداوار کر سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہمیں معلومات کی وسیع رسائی ہوتی ہے جس سے ہم ایک دوسرے سے تجربے اور تجزیات کر سکتے ہیں۔
نقصانات کی بات کرنے کی جائے تو، سوشل میڈیا کے ذریعے بہت سے لوگوں کو معاشرے سے دوری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک اور نقصانات یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے لوگ اپنی خود کو بہترین صورت میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ کبھی کبھی حقیقت سے دور ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ، سوشل میڈیا ایک اوقات کھانے کے ماننے والے چیزوں کو بہت زیادہ پیش کرتی ہے جو بہت سے لوگوں کے لئے صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔سوشل میڈیا عوامی رائے کے تحت فیک نیوز اور غلط معلومات کی وسیع پھیلاؤ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، سوشل میڈیا کے استعمال سے انسانی توجہ کا تقسیم ہوتا ہے جو بھولنے کی شکل میں خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، سوشل میڈیا پر عوامی رائے کے تحت بدتمیزی، بلاشعور یا بے ہودہ عمل دکھایا جاتا ہے جو انسانی جماعت کے لئے نااہل ہے۔
اس سبق کا خلاصہ لکھیں۔
ملاحظہ کیجیے سبق کا خلاصہ
انٹرنیٹ کے ذریعے سائبر کرائم ڈیپارٹمنٹ کی ذمے داریوں کے حوالے سے معلومات اکٹھی کریں:
سائبر کرائم انٹرنیٹ کے زریعے کی جانے والی وہ غیر قانونی سرگرمی ہے جس کے تحت مجرم کمپیوٹر، لیپ ٹاپ یا کسی گیجٹ کے ذریعے کسی بھی شخص کا ڈیٹا، معلومات یا حساس نوعیت کے کاغذات چرا لے، ان میں ردو بدل کر دے، سسٹم ہیک کر دے، یا پھر کسی کو دھمکی آمیز پیغامات دے۔سائبر کرائم کی اصطلاح میں کمپیوٹر، ڈیجیٹل آلات اور انٹرنیٹ کے دائرے میں شمار کی جانے والی اور استعمال ہونے والے نیٹ ورکس کے ذریعے شروع کی جانے والی کوئی بھی غیر قانونی سرگرمی شامل ہو سکتی ہے، اس میں کسی فرد، حکومت یا کارپوریٹ سیکٹر سے تعلق رکھنے والی معلومات کی دور دراز کی چوری بھی شامل ہو سکتی ہے ۔ اس میں آن لائن بینک سے لاکھوں روپے چوری کرنے سے لے کر سائبر صارفین کو ہراساں کرنا اور ان کا پیچھا کرنا بھی شامل ہے۔پاکستان میں سائبر کرائم سے نمٹنے کا قانون الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کا ایکٹ، 2016 ہے جو پاکستان کے ہر شہری پر لاگو ہوتا ہے وہ جہاں بھی ہو اور ہر دوسرے شخص پر جو اس وقت پاکستان میں موجود ہوں۔
پاکستان میں سائبر کرائم کے قوانین

اس وقت پاکستان میں سائبر کرائم کے تین قوانین ہیں۔ یہ قوانین پاکستان میں انٹرنیٹ جرائم کے مختلف زمروں میں آتے ہیں۔
الیکٹرانک ٹرانزیکشن آرڈیننس 2002 ای ٹی او
الیکٹرانک/ سائبر کرائم بل 2007
الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام ایکٹ 2016 پیکا
الیکٹرانک ٹرانزیکشن آرڈیننس 2002
2002 میں متعارف کرایا گیا، الیکٹرانک ٹرانزیکشنز آرڈیننس (ای ٹی او) جسے قانون سازوں نے مرتب دیا، آئی ٹی سے متعلق پہلی قانون سازی کے طور پر سامنے آیا۔ یہ پہلا قدم تھا جس نے قانونی تقدس اور مقامی ای کامرس انڈسٹری کے تحفظ کے لیے ایک مضبوط بنیاد کے طور پر کام کیا۔

پاکستان میں اس سائبر کرائم قانون کا ایک بڑا حصہ سائبر کرائم سے متعلق غیر ملکی قانون سے متاثر تھا۔ اس کے 43 سیکشنز ہیں جو پاکستان میں مختلف قسم کے انٹرنیٹ جرائم سے متعلق ہیں۔ پاکستان میں سائبر کرائم کا یہ قانون ای کامرس انڈسٹری سے متعلق درج ذیل 8 اہم شعبوں سے متعلق ہے۔

الیکٹرانک دستاویزات کی پہچان
الیکٹرانک کمیونیکیشن
ڈیجیٹل دستخطی نظام اور اس کے واضح نتائج
ویب سائٹ اور ڈیجیٹل دستخطوں کے سرٹیفیکیشن فراہم کرنے والے
اسٹامپ ڈیوٹی
تصدیق شدہ کاپیوں کی تصدیق
دائرہ کار، عملداری
جرائم
الیکٹرانک/سائبر کرائم بل آرڈیننس 2007
الیکٹرانک جرائم کی روک تھام یا سائبر کرائمز آرڈیننس (پیکو) 2007 میں منظور کیا گیا تھا۔ پاکستان میں یہ سائبر کرائم قانون درج ذیل الیکٹرانک جرائم سے نمٹتا ہے۔

سائبر دہشت گردی
ڈیٹا کا نقصان
الیکٹرانک فراڈ
الیکٹرانک جعلسازی
غیر مجازرسائی
سائبرسٹاکنگ
سائبر سپیمنگ/ سپوفنگ

الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام یا سائبر کرائمز آرڈیننس (پیکو) کے مطابق پاکستان میں سائبر جرائم پیشہ افراد کو مختلف سزاؤں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان میں مختلف قسم کے سائبر کرائمز کے لیے چھ ماہ قید سے لے کر بعض اوقات موت کی سزا بھی شامل ہو سکتی ہے۔ قوانین کا اطلاق قومیت یا شہریت سے قطع نظر ہر اس شخص پر ہوتا ہے جو پاکستان میں سائبر کرائمز کا ارتکاب کرتا ہے۔
الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کا ایکٹ (2016)الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کا ایکٹ (پیکا) 2016 میں متعارف کرایا گیا تھا جو پاکستان میں سائبر کرائم کی مختلف اقسام کے لیے ایک جامع فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ یہ پاکستان کے سائبر کرائم قوانین میں سے ایک ہے جو سائبر کرائم بل 2007 کے مطابق ہے۔ یہ پاکستان میں درج ذیل انٹرنیٹ جرائم سے متعلق ہے۔

ڈیٹا تک غیر قانونی رسائی (ہیکنگ)
سروس اٹیک سے انکار، ڈی او ایس اٹیک
الیکٹرانک جعلسازی اور الیکٹرانک فراڈ
سائبر دہشت گردی
سائبر کرائم پر سزائیں
الیکٹرانک کرائم کی روک تھام کا ایکٹ پیکا
پاکستان میں سائبر مجرموں کے لیے ذیل میں دی گئی سزاؤں سے متعلق ہے۔بغیر اجازت کے اہم معلوماتی نظام تک رسائی پر تین سال تک قید، 10 لاکھ روپے جرمانہ، یا دونوں ہو سکتے ہیں۔بے ایمانی یا دھوکہ دہی کے ساتھ اہم معلوماتی نظام میں خلل ڈالنے پر سات سال تک قید، ایک کروڑ روپے جرمانہ یا دونوں ہو سکتے ہیں۔دہشت گردی سے متعلق جرم میں ملوث ہونے پر سات سال تک قید، ایک کروڑ روپے جرمانہ یا دونوں ہو سکتے ہیں۔جارحانہ استعمال کے لیے الیکٹرانک ڈیوائس کی درآمد، برآمد یا سپلائی پر چھ ماہ تک قید، 50 ہزار روپے جرمانہ یا دونوں۔ڈیٹا کی خلاف ورزی میں ملوث ہونے پر تین سال تک قید، 50 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں ہو سکتے ہیں۔ اس میں رضامندی کے بغیر کسی کے ذاتی ڈیٹا کی آن لائن تقسیم شامل ہوسکتی ہے۔

شکایت کیسے کی جائے؟
اگر کسی شہری کو انٹرنیٹ پر ہراساں کیے جانے، دھوکہ دہی یا اس طرح کی کسی اور جعلسازی کا سامنا ہو تو شہری اپنے مسائل تحریری طور پر ایف آئی کے دفاتر میں جمع کروانے کے علاوہ اس ای میل ایڈریس پر اپنی شکایات بھیج سکتے ہیں، اس کے علاوہ سائبر کرائم سیل کی ہیلپ لائن 9911 پر کال کر کے اپنی شکایت درج کرا سکتے ہیں۔

Leave a Reply

Ilmu علمو