سبق: میجر شبیر شریف شہید، خلاصہ، سوالات و جوابات

Back to: Punjab Text Book Urdu Class 8 | Chapterwise Notes

پنجاب کریکولم اینڈ ٹکیسٹ بک بورڈ “اردو” برائے “آٹھویں جماعت”
سبق نمبر: 09
سبق کا نام: میجر شبیر شریف شہید

خلاصہ سبق:
۱۹۷۱ء کی جنگ میں میجر شبیرشریف جوکہ سلیمانکی سیکٹر میں رجمنٹ کی ایک فورس کی قیادت کر رہے تھے ان کو حکم ملا کہ وہ مسلسل پیش قدمی کریں اور متعلقہ محاذ پر دشمن کو واپس اس کی سرحدوں میں دھکیل دیں۔ان کی کمپنی نے اہم سرحدی مقام جیسے کہ سبونہ بند اور گل مکھیڑا بند کو فتح کرکے مورچے قائم کیے۔بھارتی فوجی جنھیں ٹینکوں کی مدد حاصل تھی انھوں نے پوری قوت سے ان پہ دھاوا بولا مگر ناکام رہے۔
ایک بھارتی کمانڈر نے جب میجر شبیر شریف کی بہادری کا سنا تو انھیں دو بدو چت کرنے کی ٹھانی اور جیسے ہی وہ للکار کر پاکستانی مورچے میں پہنچے میجر شبیر شریف ان کے دو بدو ہوئے دونوں میں خوب لڑائی ہوئی آپ اس لڑائی میں زخمی ہوئے اور دست بدست جنگ سے اس کمانڈر کا غرور خاک میں ملایا اور اس کی اہم دستاویزات اپنے قبضے میں کر لیں۔مگر بھارتی میڈیا نے اس کہانی کو الگ رنگ دے کر میڈیا کو دکھایا۔ میجر شبیرشریف ںے اپنے سینے پہ ٹینک کا گولا کھا لیا مگر دشمن کو پیٹھ نہ دکھائی۔
میجر شبیر شریف نے شدید زخمی حالت میں اپنے ساتھیوں کو پیغام دیا کہ دشمن کی شکست قریب ہے ڈٹے رہو۔ 1971ء کی اس پاک بھارت جنگ میں ان کی بہادری اور شہادت پر شبیر شریف شہید کو ستارہ جراءت اور نشان حیدر جیسے بڑے اعزازات سے نوازا گیا ہے۔1943ء میں ضلع گجرات میں پیدا ہوئے تھے۔سینٹ انتھونی سکول سے ہائی سکول کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا اور وہیں دوران تعلیم پی ایم اے کاکول چلے گئے۔پاسنگ آؤٹ پر اعزازی شمشیر حاصل کی۔آپ فرنٹیئر فورس کی چھٹی بٹالین میں شامل تھے۔1965ء کی پاک بھارت جنگ میں ایک دستے کے ساتھ آپ کو کشمیر بھیجا گیا جہاں آپ بہت جرات اور بہادری سے لڑے۔میجر شبیر شریف رشتے میں میجر راجا عزیز بھٹی شہید کے بھانجے اور پاک فوج کے سابق جرنل راحیل شریف کے بڑے بھائی تھے۔آپ لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جواب دیں۔
۱۹۷۱ء کی جنگ میں میجر شبیر شریف کو کیا حکم ملا؟
۱۹۷۱ء کی جنگ میں میجر شبیرشریف جوکہ سلیمانکی سیکٹر میں رجمنٹ کی ایک فورس کی قیادت کر رہے تھے ان کو حکم ملا کہ وہ مسلسل پیش قدمی کریں اور متعلقہ محاذ پر دشمن کو واپس اس کی سرحدوں میں دھکیل دیں۔
شبیر شریف شہید کو کن دو اعزازات سے نوازا گیا؟
شبیر شریف شہید کو ستارہ جراءت اور نشان حیدر جیسے بڑے اعزازات سے نوازا گیا ہے۔
میجر شبیر شریف کا میجر راجا عزیز بھٹی شہید کیا رشتہ ہے؟
میجر شبیر شریف رشتے میں میجر راجا عزیز بھٹی شہید کے بھانجے اور پاک فوج کے سابق جرنل راحیل شریف کے بڑے بھائی تھے۔
۱۹۶۵ء کی جنگ کے دوران میں شبیر شریف شہید فوج میں کس عہدے پر فائز تھے؟
۱۹۶۵ء کی جنگ کے دوران میں شبیر شریف شہید فوج میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کے عہدے پر فائز تھے۔
مندرجہ ذیل سوالات کے تفصیلی جواب دیں۔
(الف) میجر شبیر شریف نے شدید زخمی حالت میں اپنے ساتھیوں کو کیا پیغام دیا؟
میجر شبیر شریف نے شدید زخمی حالت میں اپنے ساتھیوں کو پیغام دیا کہ دشمن کی شکست قریب ہے ڈٹے رہو۔
(ب) اگر کبھی آپ کو ملک کے لیے جان قربان کرنے کا موقع ملا تو آپ کا رد عمل کیا ہو گا؟ اپنے الفاظ میں تحریر کیجیے۔
اگر کبھی مجھے ملک کے لیے جان قربان کرنے کا موقع ملا تو یہ میری خوش قسمتی ہوگی کہ وہ ملک جو ایک ماں کی طرح مجھے اپنی محفوظ آغوش میں سمیٹے ہوئے ہے جو مجھے تحفظ کے ساتھ ساتھ مذہیبی آزادی ، باعزت روزگار اور دیگر کئی چیزیں فراہم کر رہا ہے۔ وہ ملک جس کے لیے میرے آباؤ اجداد نے اپنی جانیں قربان کی ہیں میں اس ملک کے کام آ سکوں گا۔ لہذا میں اس ملک کے لیے جان قربان کرتے ہوئے شہید کہلوانے سے ہر گز گریز نہیں کروں گا۔
متن کے مطابق درست جواب پر ✔️ کا نشان لگا ئیں۔

(الف) بھارت نے مغربی پاکستان پر حملہ کیا:
5دسمبر 3دسمبر✔️ 10دسمبر 14 دسمبر
(ب) میجر شبیر شریف پیدا ہوئے:
ساہیوال میں دیپال پور میں بھارت میں گجرات میں ✔️
(ج) وہ فرنٹیر رجمنٹ فورس کے بٹالین میں تعینات تھے :
ساتویں چھٹی✔️ تیسری پانچویں
(د) میجر شبیر شریف کو اعزازات عطا کیے:
دو ✔️ تین چار پانچ
(و)میجر شبیر شریف جنرل راحیل شریف کے ہیں:
چچا بھائی✔️ تایا والد
(ہ) میجر شبیر شریف کو کمپنی کی کمان دے کر محاذ پر بھیجا گیا:
کابل کے بنگال کے کشمیر کے✔️ سیالکوٹ کے
(ز) میجر شبیر شریف کا اعزاز حاصل کیا:
بھائی نے بیٹے نے بیوی نے✔️ والد نے
(ح) اُنھوں نے انتھونی ہائی سکول سے امتحان پاس کیا:
میٹرک کا اولیول کا ✔️ اے لیول کا گریجویشن کا

ان الفاظ و تراکیب کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے:

الفاظ
جملے

ہنگام جنگ
ہنگام جنگ میں ملک کے معاشی حالات ابتر ہو گئے۔

پیٹھ نہ دکھانا
بہادر انسان کی علامت ہے کہ وہ کبھی اپنے دشمن کو پیٹھ نہیں دکھاتا ہے۔

گھمسان کی جنگ
جرمنی اور فرانس کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی۔

ستارہ جرأت
شبیر شریف شہید کو ان کی بہادری پر ستارہ جراءت کے اعزاز سے نوازا گیا۔

آسودہ خاک
شبیر شریف شہید اپنے آبائی وطن میں آسودہ خاک ہیں۔

اس سبق کا خلاصہ تحریر کیجیے۔
ملاحظہ کیجیے سبق کا خلاصہ۔
قوم کی خاطر ایثار” کے عنوان پر کہانی تحریر کیجیے۔ اخلاقی سبق بھی تحریر کیجیے۔
ایک تھا جنگل جس کے ایک حصے میں ریچھ رہا کرتے تھے اور دوسرے حصے میں بندر۔ ایک دن ریچھوں کے جی میں آئی کہ کیوں نہ سارے جنگل پر قبضہ کر لیں۔ چناں چہ انھوں نے بندروں پر حملہ کیا۔ انھیں مار مار کر بھگا دیا اور سارے جنگل پر قبضہ کر لیا۔ بندروں سے ان کا وطن چھٹا، جنگل کے پھل چھٹے اور وہ حیران و پریشان آوارہ گردی کرنے لگے۔ یہ حال دیکھ کر ایک بندر کا بہت دل کڑھا۔ اس نے سب کہانی کیا اور کہا ” میری بات مانو ، مجھے زخمی کر دو، جگہ جگہ سے کھال نوچ لو اور جہاں سے ہمیں نکالا گیا ہے، وہیں پھینک دو۔ میں کچھ تد بیر کروں گا اور ریچھوں کی بلا سے نجات مل جائے گی اور تمھیں اپنا وطن واپس مل جائے گا۔
بندر ایسے غم گسار اور ایثارمند سے یہ سلوک کرنا تو نہ چاہتے تھے مگر آخر مان گئے اور اس بندر کو ادھ موا کر کے ڈال گئے۔ ریچھوں نے ایک زخمی بندر کو دیکھا اور پوچھا: ” تم یہاں کیسے آئے تمھیں معلوم نہ تھا کہ ہم اس جنگل کے واحد مالک ہیں؟زخمی بندر نے آہیں بھرتے ہوئے جواب دیا: ” میں نے اپنے ساتھیوں کو تمھارا غلام بن کر رہنے کو کہا تو انھوں نے میرا یہ حال کر دیا۔ اب وہ ایک ایسے جنگل میں چلے گئے ہیں، جہاں ہر طرف ہری بھری گھاس کا فرش بچھا ہوا، چشمے ٹھنڈا پانی اگل رہے ہیں ۔ پھل دار درختوں کے بے شمار جنگل ہیں،جنگل کیا ہے بہشت کا قطعہ ہے۔ریچھ حریص تو ہوتے ہی ہیں۔
انھوں نے کہا: ” تم ہمیں وہاں لے چلو، ہم تمھارا انتقام بھی لیں گے اور اس جنگل میں چین کی بنسری بجا ئیں گے تمھارے زخموں کا علاج بھی کریں گے۔بندر مان گیا۔ انھوں نے ایک ریچھ پر بندر کولاد لیا اور سارے ریچھ بندر کی راہ نمائی میں چل پڑے۔ رات بھر چلتے رہے، ایک جگہ معمولی کیچڑ تھی اور اس سے آگے گہری دلدل ۔ بندر نے کہا اس دلدل سے آگے وہ جنگل ہے جسے جنت نظیر کہا جاتا ہے تم بے خطر بڑھو اور میرے پیچھے چلو آؤ۔ ریچھ آگے بڑھتے گئے اور دلدل میں دھنستے گئے۔ حتی کہ آخری ریچھ تک دلدل کے پیٹ میں اتر گیا۔ اگلی صبح کو سارا جنگل سنسان تھا۔کسی ریچھ کا پتا نہ تھا۔ بندر خوشی مناتے ہوئے واپس آئے اور سارے جنگل کے مالک بن گئے۔ ایک بندر کا یہ ایثار ساری قوم کا اقبال بن گیا۔

روز مرہ زندگی سے متعلق یا کسی تقریب سے متعلق کسی عنوان پر چند جملوں میں اظہار خیال کریں۔
میں ایک طالب علم ہوں میرے روزمرہ زندگی کے معمولات میں پڑھائی میرا بنیادی مقصد ہے جس کے لیے میں دن بھر جدوجہد کرتا ہوں۔ پڑھ لکھ کر مجھے ایک قابل انسان اور معاشرے کے لیے مفید شہری بننا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صبح سویرے اٹھنے کے بعد میں نماز کی ادائیگی کرنے اور ناشتا کرنے کے بعد سکول جاتا ہوں۔۔ دوپہر کو وہاں سے لوٹنے کے بعد نماز پڑھ کر کچھ دیر آرام کرتا ہوں اور پھر سکول کا کام کرنے لگتا ہوں۔ اپنی پڑھائی مکمکل کرنے کے بعد میں دوستوں کے ساتھ کھیلتا ہوں۔ رات کو کچھ وقت گھر والوں کے ساتھ گزارنے کے بعد میں اپنا سبق دہراتا ہوں اور سو جاتا ہوں۔ پچھلے کچھ مہینوں سے یہ میری روزمرہ زندگی کی روٹین ہے۔
پاکستان اور بھارت کے مابین اب تک کتنی جنگیں ہو چکی ہیں ؟ ان کی بنیادی وجہ بتائیے۔
بھارت اور پاکستان کے مابین چار جنگیں ہوچکی ہیں۔ 1948ء، 1965ء، 1971ء اور 1999ء میں۔ پہلی جنگ کشمیر کےمسئلہ پہ تھی اس جنگ میں بھارت نے کشمیر کے کچھ حصوں جیسے جموں کشمیر اور لداخ وغیرہ کو اپنے قبضے میں کر لیا۔ 1965ءکی جنگ پاک بھارت کی دوسری جنگ آپریشن جبرالٹر سے شروع ہوئی، جس کے مطابق پاکستان کا منصوبہ تھا کہ وہ بھارت کی حکمرانی کے خلاف بغاوت شروع کرنے کے لیے جموں و کشمیر میں فوج بھیجے۔ اس کے جواب میں، بھارت نے بھی مغربی پاکستان پر بڑے پیمانے پر فوجی حملے شروع کیے۔
اس جنگ میں ہزاروں افراد مارے گئے جو سترہ دن تک جاری رہی۔ سوویت یونین اور امریکا کی سفارتی مداخلت کے بعد بالآخر جنگ بندی کا اعلان کیا گیا۔ 1966 میں، بھارت اور پاکستان کے وزرائےاعظم نے تاشقند معاہدے پر دستخط کیے۔ بہت سے ذرائع کے مطابق، جب جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تو بھارت پاکستان سے زیادہ مضبوط پوزیشن میں تھا۔1971ءکی جنگ بھارت اور پاکستان کے مابین تیسری جنگ تھی۔ اس جنگ میں، 94000 سے زیادہ پاکستانی فوجیوں کو قیدی بنا لیا گیا تھااس جنگ میں مسئلہ کشمیر شامل نہیں تھا، بلکہ مشرقی پاکستان کے رہنما اور یحیی کے درمیان مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) میں سیاسی بحران پیدا ہوا تھا، جس کی وجہ پری بحران تھا۔ خان اور مغربی پاکستان کے رہنما ذو الفقار علی بھٹو۔
اس کا اختتام پاکستان کے ریاستی نظام سے بنگلہ دیش کی آزادی کے اعلان کے آخر میں ہوگا۔ آپریشن سرچ لائٹ اور 1971 کے بنگلہ دیش مظالم کے بعد، مشرقی پاکستان میں لگ بھگ ایک کروڑ بنگالیوں نے ہمسایہ ملک بھارتمیں پناہ لی۔ بھارت نے بنگلہ دیش کی جاری تحریک آزادی میں مداخلت کی۔ پاکستان کی جانب سے ایک زبردست قبل از وقت زبردستی ہڑتال کے بعد، دونوں ممالک کے مابین مکمل پیمانے پر دشمنی شروع ہو گئی۔ پاکستان نے پاکستان کے ساتھ بھارتکی مغربی سرحد کے ساتھ متعدد مقامات پر حملہ کیا، لیکن بھارتی فوج نے کامیابی کے ساتھ اس کی جگہ پر قبضہ کر لیا۔
ہندوستانی فوج نے فوری طور پر مغرب میں پاکستانی فوج کی حرکتوں کا منہ توڑ جواب دیا اور کچھ ابتدائی فوائد حاصل کیے، جن میں پاکستان کی سرزمین کا تقریباً 5 5،795 مربع میل (15،010 مربع کلومیٹر) پر قبضہ (بشمول بھارتنے پاکستانی کشمیر، پاکستانی پنجاب اور سندھ کے علاقوں میں حاصل کیا) شامل ہیں۔ زمین کھو گئی) لیکن 1972 کے شملہ معاہدے میں پاکستان کو خیر سگالی کے اشارے کے طور پر اس کو تحفہ دیا گیا)۔ دو ہفتوں کی شدید لڑائی کے بعد، مشرقی پاکستان میں پاک فوج نے ہندوستانی اور بنگلہ دیشی افواج کی مشترکہ کمان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے، جس کے بعد عوامی جمہوریہ بنگلہ دیش تشکیل دیا گیا۔
کارگل جنگ 1999ء، بھارت اور پاکستان کے مابین چوتھی جنگ ہوئی، جسے کارگل جنگ کہا جاتا ہے، یہ جنگ کارگل کی جگہ پر ہوئی، جس کی وجہ سے اسے کارگل جنگ کہا جاتا ہے۔پاکستانی فوجیوں نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے پار گھس گھسا اور زیادہ تر کارگل ضلع میں بھارتی سرزمین پر قبضہ کیا۔ بھارت نے پاکستانی دراندازیوں کو نکالنے کے لیے ایک اہم فوجی اور سفارتی کارروائی کا آغاز کیا۔
پاکستان کے واہگہ بارڈر پر پرچم کشائی کی تقریب کا منظر اپنے الفاظ میں بیان کیجیے۔
واہگہ کے مقام پر انڈیا اور پاکستان کے درمیان سالوں سے پرچم کشائی کی ایک تقریب ہوتی ہے۔ جس کامنظر کچھ یوں ہوتا ہے کہ روزانہ پاک بھارت سرحد کے دونوں طرف ہزاروں افراد شریک ہوتے ہیں۔ اس طرف پاکستان سے محبت کے گیت سنائی دیتے ہیں اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگ رہے ہوتے ہیں جبکہ سرحد کے دوسری طرف بھارتی علاقے میں وہاں کے ملّی نغمے اور جے ہند کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ لوگوں کی کثیر تعداد بڑے منظم انداز میں دونوں طرف پُر وقار طریقے سے پرچم اُتارنے کی پریڈ دیکھتی ہے۔ نہ بھارت کے خلاف کوئی نعرہ لگتا ہے اور نہ پاکستان کے خلاف کوئی نعرہ سُنائی دیتا ہے۔
پاکستان رینجرز اور بھارت بارڈر سیکورٹی فورس کے جوان البتہ کافی جارحانہ انداز اختیار کیے ہوتے ہیں اور پریڈ کے دوران دونوں طرف موجود حاضرین اپنے اپنے جوانوں کو داد بھی دیتے رہتے ہیں۔پرچم اتارنے کی تقریب اگرچہ سورج غروب ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے شروع ہوتی ہے مگر لوگ مغرب سے دواڑھائی گھنٹے پہلے ہی اسٹیڈیم میں پہنچنا شروع کردیتے ہیں۔کھلے آسمان کے نیچے ہزاروں لوگ مسلسل ملی نغمے سُنتے اور نعرے بازی کررہے ہوتے ہیں کہ بگلرز بِگل بجھا کر پرچم اُتارنے کی تقریب کا آغاز کردیتے ہیں۔سرحد کے دونوں طرف چونکہ ایک ہی طرح کی تقریب جاری ہوتی ہے لہذا عجیب سماں دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایک بِگل اِدھر سے بجتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اُدھر سے بھی بِگل بجنا شروع ہوجاتا ہے۔
اِس کے بعد ایک جوان کی آواز اِدھر سے بلند ہوتی ہے تو ساتھ ہی بھارت کی طرف سے بھی ایک جوان کی آواز بلند ہوجاتی ہے۔ اِس طرح اِدھر سے پاکستان رینجرز کے جوان اور اُدھر سے بھارت سیکورٹی فورس کے جوان آگے بڑھتے ہیں اور سرحد کے دروازوں کے دونوں طرف ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پھِر دونوں طرف سے سرحد کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور سب سے پہلے ایک پاکستانی جوان اور ایک بھارتی جوان ایک دوسرے سے ہاتھ مِلا کر خیر سگالی کا اظہار کرتے ہیں۔
خیر سگالی کے اس اظہار کے دوران بھی البتہ دونوں طرف جوانوں کا کھڑے ہونے اور مارچ پاسٹ کا انداز جارحانہ رہتا ہے جس کی حاضرین اپنے اپنے جوانوں کو داد بھی دیتے رہتے ہیں۔اپنے اپنے پرچم اُتارنے سے پہلے دونوں طرف کے جوان مشترکہ پریڈ کرتے ہیں جس میں دونوں کا جارحانہ انداز نمایاں طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اِس مشترکہ پریڈ کے بعد دونوں طرف بِگل بجتے ہیں اور پاکستان اور بھارت کے پرچم آہستہ آہستہ اُترنے شروع ہوجاتے ہیں۔ جونہی یہ پرچم اُترتے ہیں تو جوان اپنے اپنے پرچم تہہ کرکے مخصوص انداز میں واپس ہوتے ہیں اور ساتھ ہی دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور تھوڑی سی نعرہ بازی کے بعد تقریب کے خاتمے کا اعلان ہوجاتا ہے۔ سورج غروب ہونے سے ایک گھنٹہ قبل شروع ہونے والی یہ پریڈ لگ بھگ آدھ گھنٹہ جاری رہتی ہے اور مغرب سے آدھ گھنٹہ پہلے ختم ہوجاتی ہے۔اس تقریب کو ایک طرح سے ثقافتی حثیت بھی حاصل ہے۔
یوم دفاع کے موقع پر ہونے والی سکول کی کسی تقریب کا احوال بتائیے۔
کچھ دن قوموں کی زندگی میں بہت خاص ہوتے ہیں۔ انہی دنوں میں سے ایک دن 6 ستمبر ہے جو یوم دفاع کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد 1965 کی جنگ کے ان عظیم ہیروز کی قربانیوں پر انہیں خراج تحسین پیش کرنا ہے اسی حوالے سے 3 ستمبر کو ضلع اٹک تحصیل حضرو کے چھوٹے سے گاؤں اوجڑی میں احمد علی ایلمینٹری پبلیک سکول میں یوم دفاع پاکستان کے حوالے سے تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پر پیام احمد علی نے اس دن کو شایانِ شان طریقے سے منانے کے بہترین انتظامات کئے تھے۔
تقریب میں ملک کی نامور خواتین نازیہ پروین صاحبہ جنہوں نے سنگ پیما میں ریکارڈ قائم کیا اور نیشنل سائیکلنگ ریکارڈ یافتہ گل آفشاں طارق صاحبہ کو خصوصی طور پر اس تقریب میں مدعو کیا گیا تھا۔جب کے دیگر مہمانان گرامی میں زہین طارق سائیکلنگ رس گولڈمیڈل یافتہ اور رُشنہ ضمیر جنہوں نے سنگ پیمائی میں اپنا مقام پیدا کیا ہے۔ اس تقریب میں شامل تھیں۔ جبکہ آرمی پبلیک کالج کے لیکچرار محترم فاروق خان صاحب نے خصوصی شرکت کی۔
دیگر مہمانان گرامی میں سرسیدایلیمنٹری پبلیک سکول کے سرپرست جناب ارشد شاہ, پرنسپل محترم عمرفاروق خان اور سٹاف جبکہ اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے والدین نے تقریب میں اپنی شرکت کو یقینی بنایا۔پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن پاک سے کیا گیا جس کی سعادت عالشبہ جب کے نعت رسول مقبول کی سعادت سنبل نے حاصل کی۔اس تقریب میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض محترمہ ارم صاحبہ نے سرانجام دیں۔تقریب میں بچوں نے مختلف مقابلوں میں حصہ لیا جن میں کوئز مقابلہ , ٹیبلو اور تقاریری مقابلے شامل تھے۔مقابلوں میں نمایاں کردارگی پیش کرنے والے طلبہ و طالبات میں اعزازی اسناد اور میڈلز جبکہ اسکول سٹاف کو بھی اعزازی اسناد سے نوازہ گیا۔
اس موقع پر لیکچرارآرمی پبلیک کالج احمد خان صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے یوم دفاع پاکستان کے حوالے سے منعقدہ تقریب پر احمد علی کی کاوش کو سہراہا انہوں نے کہا کہ نوجوان نسل کو ایسے تقریبات منعقدہ کرنے اور نئی نسل میں شعور اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ وہ اپنی تاریخ سے متعلق علم سے آگاہ ہوسکیں۔علی فاروق نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افواج پاکستان نے ہمارے کل کے لیے اپنا آج قربان کردیا انہوں نے طلبہ و طالبات سے کہا کہ ہمیں اصل معنوں میں اقبالؒ کا شاہین بنے کی ضرورت ہے اور وہ تب ہی ممکن ہوگا جب آپ اپنی تعلیم پر توجہ دیں گے۔
سنگ پمائی میں ریکارڈ یافتہ نازیہ پروین صاحبہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی بقا وسلامتی کے لیے ہمیں بہت کچھ کرنا ہے۔ انہوں نے طلبہ و طالبات کی کاوش کوسہراہااور کہا کہ وہ مذید محنت کریں تاکہ وہ ملک کی ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کرسکیں, نیشنل سائیکلنگ ریکارڈ یافتہ گل آفشاں طارق صاحبہ نے اس دن کی مناسبت سے دفاع وطن کی اہمیت کو شاندار الفاظ میں اجاگر کیا انہوں نے ستمبر 1965کی جنگ کے حالات مختصراً بیان کئے.تقریب کے اختتام پر پرنسپل عمرفاروق خان نے تمام مہمانوں کا اور والدین کا شکریہ ادا کیا۔ آخر میں سکول کی جانب سے مہمانان خصوصی اور مہمانان اعزازی میں تحائف تقسیم کئے گئے۔
رب کائنات ہمارے ملک کو ہر آفت سے بچائے اور رہتی دنیا تک قائم و دائم رکھے___آمین
خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترےوہ فصل گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو

Leave a Reply

Ilmu علمو