فراق گورکھ پوری کی غزلوں کی خصوصیات۔ احمد عمار صدیقی

فراق گورکھ پوری کی غزلوں کی خصوصیات۔ احمد عمار صدیقی

فراق گورکھ پوری اردو شاعری بالخصوص اردو غزل کا ایک بڑا نام ہیں۔ وہ اردو کے صاحب طرز غزل گو ہیں۔  اردو شاعری اور تنقید کو بہت بلندی پر لے گئے۔  اُنہوں نے اِن دونوں شعبوں  میں اپنا لوہا منویا۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اپنی کتاب "جوش ملیح آبادی اور فراق گورکھ پوری” میں لکھا ہے۔
"یوں تو ہمارے ہاں بیشتر بڑے ناقدین مثلاً مولانا حالی، مولانا شبلی، مولانا محمد حسین آزاد، علامہ نیاز فتح پوری، پروفیسر مجنوں گورکھ پوری، پروفیسر کلیم الدین، پروفیسر احتشام حسین اور آل احمد سرور سب ہی نے نثر کے ساتھ ساتھ شاعری کا دامن بھی کسی نہ کسی طور پر آخر تک پکڑے رکھا، لیکن سچ یہ ہے کہ ان میں حالی و فراق کے سوا کوئی بھی بیک وقت اپنا عہد کا ممتاز شاعر اور ممتاز ناقد نہ بن سکا۔” مزید آرٹیکلز کے لیے ملاحظہ کیجیے علمو

فراق گورکھ پوری کی غزلوں کی خصوصیات۔ عمار صدیقی
فراق گورکھ پوری کی غزلوں کی خصوصیات۔ عمار صدیقی

فراق بحیثیت زیادہ مقبول نہیں ہوئے، بحیثیت شاعر زیادہ مقبول ہیں۔ میرا موضوع بھی فراق کی شاعری (بالخصوص صنفِ غزل) ہے۔ فراق نے اپنے مجموعہ "شبستان” کے دیباچے میں اپنی غزل کے بارے میں لکھا ہے
"یہ غزلیں میری کم و بیش چوتھائی صدی کی مشقِ سخن کا نتیجۂ فکر ہیں۔ یہ غزلیں وحی و الہام نہیں ہیں۔ خدا و جبرئیل سے ان کا کوئی تعلق نہیں، نہ عرش و قدس سے کوئی واسطہ ہے”۔

اس قول کا اطلاق جس طرح فراق کی غزلوں پر ہوتا ہے سچ یہ ہے کہ اس طرح  اُس دور  کے کسی اور شاعر کی غزلوں پر نہیں ہوتا۔ فراق کی آواز اُن کے ہم سؑر شاعروں کی آوازوں سے بالکل الگ ہے۔ پُر کیف ہونے کے ساتھ ساتھ زمینی حقائق  سے بھی پُر ہے۔ اس دور کے بعض شعرا مثلاً حسرت، جگر، فانی، اصغر اور یگانہ کی آوازوں کے اثر سے بچ نکلنا نا ممکن تھا، مگر فراق نے اپنی حقیقت پسندانہ ذہنیت کی بدولت یہ کر دکھایا۔ انداز دیکھیے
ا؎           کہاں کا وصل تنہائی نے شاید بھیس بدلا ہے          ترے دم بھر کے مل جانے کو ہم بھی کیا سمجھتے ہیں
ا؎           اس دور میں زندگی بشر کی                  بیمار کی رات ہو گئی
ا؎           ذرا وصال کے بعد آئنہ تو دیکھ اے دوست          ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی

فراق گورکھ پوری کی غزلوں  کی وجہ سے اُردو کی عشقیہ شاعری پورے عالم پر چھا گئی۔ فراق کی غزلوں میں کیفیت کے اشعار کی فراوانی ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ کیجیے
ا؎           ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں              اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
ا؎           بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں               تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں
ا؎           ہم سے کیا ہو سکا محبت میں      خیر تم نے تو بے وفائی کی
ا؎           غرض کہ کاٹ دیئے زندگی کے دن اے دوست               وہ تیری یاد میں ہوں یا تجھے بھلانے میں
فراق گورکھ پوری کی غزلوں کی دوسری تمام صفات کے مقابلے میں ان کی کیفیت کے اشعار نے ان کو بہت زیادہ مقبولیت دلائی۔ یہ بات غلط نہیں  کہ  ان کے کچھ لفظی حشو و زوائد اور زبان یا وزن کی ناہمواری وغیرہ کی طرف کیفیت کے غلبے نے قاری کو بالعموم متوجہ نہیں ہونے دیا۔ فراق کی غزل پر ان کی انفرادیت اتنی غالب ہے کہ وہ اپنے آپ فراق کے مخصوص اسلوب کا تعین کر دیتی ہے۔ محمد حسن عسکری نے فراق کے کلام میں عاشق کی انفرادیت پر بہت زور دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں
"فراق کے عاشق اور معشوق کے پاس جسم تو خیر ہے ہی لیکن دماغ بھی ہے اور بڑے مصروف قسم کا اور جیسے عشق کے علاوہ اور بھی مصروفیتیں ہیں۔ اس لیے ان دونوں کے تعلقات میں اور پیچیدگیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ یہاں دو جسم ہی ایک دوسرے کے مد مقابل نہیں بلکہ دو دماغ بھی گتھے ہوئے ہیں۔ انہی دو دماغوں کے داؤ پیچ سے فراق کی شاعری تشکیل پاتی ہے۔”

فراق گورکھ پوری کی غزلوں میں عاشق کا کدار روایتی عاشق سے بہت مختلف ہے جس کو غزل میں ایک قسم کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ ان کی غزلوں میں عاشق کبھی ایک کردار کے طور پر اور کبھی واحد متکلم کی شکل میں آتا ہے۔ عاشق کے کردار کے غیر رسمی ہونے کی وجہ سے  بہت سے نقادوں نے اسے بدلی ہوئی عشقیہ کیفیات کا نام دیا ہے۔ فراق کا عاشق وصل کو بھی تنہائی بلکہ انفرادیت کے اظہار کی ایک صورت قرار دیتا ہے
ا؎           کہاں کا وصل تنہائی نے شاید بھیس بدلا ہے          تیرے دم بھر کے مل جانے کو ہم بھی کیا سمجھتے ہیں
فراق کی غزلوں میں وصال  و ہجر کے روایتی تجربے کے بر خلاف عاشق کا یہ احساس اس کی شخصیت کا اظہار ہے۔
ا؎           ہر نظارے میں، ہر حقیقت  میں            نظر آتا ہے کچھ تضاد مجھے
ا؎           دل دکھ کے رہ گیا یہ الگ بات ہے مگر                ہم بھی ترے خیال سے مسرور ہوئے ہیں
ا؎           تم مخاطب بھی ہو قریب بھی ہو                        تم کو دیکھیں کہ تم سے بات کریں

محمد حسن عسکری کہتے ہیں
"فراق نے محبوب کو ایسی معروضی حیثیت دے دی ہے  جو اردو شاعری میں اسے حاصل نہیں تھی۔ انہوں نے محبوب کو عاشق کی ہستی سے الگ کر کے بھی دکھا دیا ہے۔ ان کا محبوب ایک کردار ہے اور اس کردور کی نفسیات بھی سیدھی سادی نہیں ہے۔ ایسی ہی پیچ در پیچ ہے جیسے عاشق کی نفسیات۔”
اس سلسلے میں فراق کے چند اشعار
ا؎           کہاں وہ خلوتیں دن رات کی اور اب یہ عالم ہے                 کہ جب ملتے ہیں دل کہتا ہے کوئی تیسرا بھی ہو
ا؎           قرب بھی کم ہے نہ دوری ہی زیادہ لیکن                           آج وہ ربط کا احساس کہاں ہے کہ جو تھا
ا؎           اوروں کی بھی یاد آ رہی ہے                میں کچھ تجھے بھو ل سا گیا ہوں
ا؎           حسن  سر تا پا تمنا عشق سر تا پا غرور                     اس کا انداز ہ نیاز و ناز سے ہوتا نہیں

فراق گورکھ پوری کی غزلوں کی فکری اور فنی خصوصیات کے اس مختصر جائزے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فراق ایک عظیم شاعر ہیں۔ اپنی اس عظمت کا احساس خود فراق کو بھی تھا۔ وہ اپنے ایک پر تعلی شعر میں کہتے ہیں
ا؎           آنے والی نسلیں تم پر ناز کریں گی ہم عصرو           ان کو جب معلوم یہ ہو گا تم نے فراق کو دیکھا ہے
فراق ایک رجحان ساز شاعر ہیں ۔ فراق کی غزلوں میں روایت سے جو رابطہ ملتا ہے وہ احترام کا رابطہ ہے تقلید کا نہیں۔ ان کی غزلوں میں بالکل نئی فضا اور نئی روایت ملتی ہے۔ فراق نے اپنے نئے احساس سے آنے والی نسلوں کے لیے راہیں استوار کیں۔ ان کی غزل ہر دور کے لیے رہنما ثابت ہوتی رہے گی۔

تحریر۔ احمد عمار صدیقی

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں


اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ Ilmu علموبابا

اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔

 

Follow us on

1 thought on “فراق گورکھ پوری کی غزلوں کی خصوصیات۔ احمد عمار صدیقی”

Leave a Reply

Ilmu علمو