قومی زبان اردو اور پاکستان کے مسائل

قومی زبان اردو اور پاکستان کے مسائل

            پاکستان میں قومی زبان سے متعلق ہمیشہ ہی تنازعہ قائم رہا ہے۔ صرف آزادی کے بعد ہی نہیں بلکہ قیام پاکستان سے قبل ہی یہ مسائل سر اٹھا چکے تھے کہ آیا نئی بننے والی پاکستانی قوم کی قومی زبان کیا ہو گی؟ یہ مسئلہ آج بھی جوں کا توں ہی قائم ہے۔ قومی زبان اردو کو قومی زبان کا درجہ مل کر بھی نہ ملنے کی بہت سی وجوہات ہیں ، لیکن ان مسائل بنیادی وجہ سیاسی  امور ہیں۔  ہم جب جب بھی پاکستان کے مسائل کو سلجھانے کی بات کرتے ہین تو اس میں ہمیں سرکاری اور سیاسی عوامل کے اثرات نظر آنے لگتے ہیں ۔ یہ مسائل سیاسی عوامل ہی کے پیدا کردہ  بھی ہوتے ہیں اور ان کا حل بھی سیاسی عوامل کے  ذریعے ہی ممکن نظر آتا ہے۔ آخر قومی زبان اردو اور پاکستان کے مسائل آپس میں کس حد تک الجھے ہوئے ہیں؟ مزید جاننے کے لیے ہماری ویب سائٹ علمو ڈاک پی کے کو ملاحظہ فرمائیے۔

قومی زبان اردو اور پاکستان کے مسائل
قومی زبان اردو اور پاکستان کے مسائل

اپنائیت و سرپرستی کا نہ ہونا

پاکستان کی قومی زبان اردو  کا سب سے بڑا اور واضح مسئلہ یہ رہا ہے کہ اس قومی زبان کی کبھی سرپرستی نظر نہیں آئی۔ نہ ہی سرکار کچھ زیادہ دلچسپی رکھتی دکھائی دیتی ہے ، نہ ہی ادارے اپنا کردار ادا کر پا رہے ہیں اور نہ  ہی قوم کے اندر اس کے لیے کوئی اپنائیت دکھتی ہے۔  حالاں کہ اردو کو “قومی زبان” کا درجہ تو دے دیا گیا  ہے لیکن  یہ درجہ صرف نام کی حد تک نظر آتا ہے۔ جن اداروں کا یہ کام ہے کہ وہ قومی زبان کو قومی زبان کے منصب پر لائیں ، وہ ابھی تک اپنی کارکردگی سے مطمئن نہیں کر پا رہے۔ اور جہاں تک تعلق ہے رعایا کا ، تو وہ بھنور میں پھنسی ہوئی ہے کہ اپنے دیگر امور  کے حل کیسے تلاش کرے۔ نیز یہ کہ قوم موجودہ حالات میں ہوا کے دوش پر اپنے فیصلے صادر کرتی نظر اتی ہے۔ سو جب تک قوم تذبذب کے عالم سے نکل کر یک سوئی سے اپنی سمت کا تعین نہیں کرے گی، اس کے مسائل یونہی قائم و دائم رہیں گے۔

 علاقائی تعصبات

اپنائیت کی کمی کی بینادی وجوہات میں سے ایک ، علاقائی تعصب بھی ہے۔ یہ تعصب بھی پاکستان کے قیام کے وقت سے ہی اپنی جگہ بنا چکا تھا۔ جس کا واضح اظہار ہمیں سکوت ڈھاکہ کی صورت میں نظر آیا۔ لیکن یہ مسئلہ صرف بنگلہ اور اردو زبان کا ہی نہیں تھا۔ نیز یہ کہ بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بعد  یہ مسئلہ اور بھی گمبھیر صورت اختیار کر گیا،کہ جہاں پنجابی ، بلوچی ، سندھی، پشتو وغیرہ  بھی اردو بحیثیت قومی زبان کے خلاف ہو گئیں۔ اور یوں اردو  کے بجائے اپنی اپنی مقامی زبانوں کو اہمیت کا درجہ دیا جانے لگا۔ صوبوں میں موجود انتہا پسندانہ سوچ اپنے نظریے کے مطابق  اپنی مقام ی زبان کو اولیت دینے لگیں ، اور مملکت کی قرار دی گئی قومی زبان کو مسلسل نظر انداز کیا جانے لگا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان میں کئی زبانوں کو سرکاری زبان کا درجہ دینے سے نسلی تناؤ کم ہو سکتا ہے۔

 سرکاری زبان کا مسئلہ

قومی زبان کے مسائل میں ایک سب سے بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگرچہ پاکستان کی قومی زبان کا درجہ ارد و کو ہی دیا گیا ہے لیکن کہیں سے بھی اسے سرکاری زبان قرار نہیں دیا گیا۔ 1973 کے آئین پاکستان کے مطابق پندرہ سال تک انگریزی کو ہی سرکاری زبان کا درجہ دیا جانا تھا۔ ان   پندرہ سالوں میں اردو کو سرکار کو حکومتی امور کی انجام دہی کے لیے استعمال ہونا تھا۔ تا ہم پندرہ برس مکمل ہونے پر بھی اردو سرکاری زبان بن نہ سکی اور انگریزی کی جگہ نہ لے سکی۔
اس مسئلے کا بنیادی حل بھی حکومت ہی کے ہاتھوں میں نظر آتا ہے کہ حکومت کے مطابق قومی زبان کو نافذ العمل  نہ بنا سکی۔

کثیر سرکاری زبانوں کا نظریہ

پاکستان میں یہ نظریہ بھی پیش کیا گیا کہ بھارت کی طرز پر دیگر علاقائی زبانوں کو بھی قومی زبان کا درجہ دیا جائے ۔ اور تمام حکومتی احکام علاقائی و صوبائی زبانوں میں بھی شائع کیے جائیں۔

“حال ہی میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے بائیس ارکان کی طرف سے ایک بل پیش کیا گیا ہے کہ آئین کی دفعہ 251 میں ترمیم کی جائے۔ ایک کی بجائے آٹھ قومی زبانیں تسلیم کی جائیں یعنی اردو کے ساتھ بلوچی ، پنجابی، پشتو، شنا/ بلتی ، سندھی اور سرائیکی۔”

اس نظریے کا تعلق بھی علاقائیت اور صوبائی تعصب کے ساتھ وابستہ ہے، کہ جہاں بہت ہی کم سمجھی اور بولی جانے والی زبان کو قومی زبان کا درجہ دیا جانے کا تقاضا کیا جاتا رہا۔ اس ضمن میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ حکومت ایک قومی زبان کی درست انداز میں سرپرستی کر نہیں پا رہی تو آٹھ  نو زباں کی سرپرستی کیا ممکن ہو پائے گی۔ اگر بالفرض علاقائی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دے بھی دیا جائے تو ایک ہی حکم تمام زبانوں میں کیسے جاری ہو سکے گا اس کا ملک اور خزانے پر کتنا بوجھ پڑے گا۔ ایک معاشی حوالے سے غیر مستحکم مملکت کے لیے یہ ممکن نہیں۔

تعلیمی اختلاف

اردو کی ترویج کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں کوئی ایک تعلیمی نظام لاگو نہین کیا گیا۔ صوبے تو اپنے نصاب کے انتخاب میں خود مختار ہیں ہی، لیکن یہاں ہر ایک اسکول اپنی مرضی کا نصاب متعین کیے ہوئے ہے۔ نہ جانتے ہوئے کہ اس کے نقصانات کیا ہیں، ہر اسکول اپنی مرضی چلاتے ہوئے، آکسفورڈ، فلاں فلاں وغیرہ وغیرہ کو اپنا لیتا ہے۔ اس سے معاشرے میں ایک اختلاف اور طبقاتی چپقلش پیدا ہو جاتی ہے، جہاں مدارس، اسرکاری اسکول، پرائیویٹ اسکول اور اشرافیہ کے مخصوص اسکولز اپنا اپنا نصاب متعین کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔ اور  معاشرے میں عرش اور فرش کا فرق پیدا ہو جاتا ہے۔ جس کی ایک صورت مختلف طبقات کا اردو سے نہ بلد ہونا ہے۔

(تحریر: ع حسین زیدی)

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں

اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔

اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔ مزید جاننے کے لیے ہماری ویب سائٹ علمو ڈاٹ پی کے کو ملاحظہ فرمائیں۔

 

Follow us on

Leave a Reply

Ilmu علمو