زبان انسان کی سماجی اور معاشرتی ضرورتوں کی ایجاد ہے۔ ہر زبان اپنی ارتقائی منزلیں سماجی زندگی ہی کے سہارے طے کرتی ہے اور اس کے زیر اثر اس کی صورت اور معنی میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ کسی زبان کے عروج و زوال کی داستان کو دراصل کسی قوم کے عروج و زوال کی تاریخ سمجھنا چاہیے۔ بات یہ ہے کہ زبان بھی اپنے بولنے والوں کی طرح اپنے سماجی محرکات و عوامل کی پابند ہوتی ہے۔
علاوہ ازیں جس طرح افراد یا کسی قوم و ملک کے لیے ضروری ہے کہ وہ نہ صرف اپنے ہمسایہ ملکوں یا قوموں سے بلکہ دور دراز کے ملکوں اور قوموں سے بھی زیادہ سے زیادہ تعلقات و روابط قائم کرے بالکل اسی طرح کسی زندہ زبان کے لیے بھی ضروری ہے کہ دوسری زبانوں سے اس کا ربط و ضبط بڑھتا رہے اور ایک دوسرے سے اخذ و استفادہ اور ترجمے کی راہیں کشادہ ہوتی رہیں۔ اس کے بغیر نہ کوئی قوم بین الاقوامی مسائل میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے اور نہ کوئی زبان۔ اس لیے زبانوں کا ایک دوسرے سے استفادہ کرنا ناگزیر ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دنیا کی ترقی یافتہ سے ترقی یافتہ زبان بھی اس بات کا دعویٰ نہیں کر سکتی کہ وہ دوسری زبانوں کے اثرات یا الفاظ سے یکسر خالی ہے۔
اردو زبان بھی اس قانونِ فطرت سے مستثنیٰ نہیں ہے بلکہ اس کی تو بنیاد ہی آس پاس مختلف زبانوں یعنی پنجابی، ہندی، خروشتی، سندھی، پشتو، بلوچی اور سرائیکی وغیرہ کے اشتراک پر رکھی گئی ہے۔ بعد میں اس نے عربی، فارسی، انگریزی اور ترکی کے بھی بے شمار الفاظ اپنے اندر جذب کر لیے اور آج وہ اپنے مزاج اور اپنی ساخت کے لحاظ سے زبانوں کی ایک ایسی انجمن ہے جس میں شرکت کے دروازے ہر زبان کے الفاظ پر یکساں کھلے ہوئے ہیں، خاص طو رپر ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کے لیے اردو کی سبھا ایک ایسی سبھا ہے جس میں ہر علاقے کے بول صاف پہچان میں آ جاتے ہیں اور ہر شخص کلی طو رپر نہ سہی جزوی طو رپر ہی یہ ضرور محسوس کرنے لگتا ہے کہ اردو کا خمیر جس مسالے سے تیار کیا ہواہے اس میں بعض اجزا اس کے علاقے کے بھی شامل ہیں۔ جزو اور کل کا یہ تعلق معمولی نہیں غیر معمولی ہے۔ مجاز اور حقیقت کے تعلق کے باب میں خواجہ میر دردؔ نے کہا تھا کہ ؎
ہر جزو کو کُل کے ساتھ بمعنی ہے اتصالدریا سے دُر جدا ہے پہ ہے غرق آب میں
یہی بات اردو اور علاقائی زبانوںکے رشتے کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔اردو اور علاقائی زبانوں کارشتہ دراصل ایک ہی خون، ایک ہی رنگ و نسل ، ایک ہی آسمان، ایک ہی زمین، ایک ہی انداز فکر اور ایک ہی طرز ادا کا رشتہ ہے۔ دور حاضر سے لے کر قدیم تر زمانے تک سراغ لگاتے چلے جائیے یہ رشتے پوری طرح واضح ہوتے چلے جائیں گے۔ صاف اندازہ ہو جائے گا کہ اردو اور علاقائی زبانیں ایک دوسرے کی حریف و رقیب نہیں بلکہ عزیز و رفیق ہیں۔ یہ بھی صحیح نہیں کہ ان میں ماں بیٹی کا رشتہ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ نہ تو اردو نے کسی علاقائی زبان کے پیٹ سے جنم لیا اور نہ کوئی علاقائی زبان اس کے بطن سے پیدا ہوئی ہے۔ لسانی نقطہ نظر سے ایسا ممکن بھی نہیں ہے۔ زبان سے زبان جنم نہیں لیتی بلکہ سماجی ، علاقائی اور معاشرتی ضرورتوں سے کبھی ایک اور کبھی بہ یک وقت کئی زبانیں وجود میں آ جاتی ہیں۔ ہندوستانی اور پاکستانی علاقے کی صورت حال بھی یہی ہے یعنی اردو اور دوسری علاقائی زبانیں ایک ہی ماں کی بیٹیاں ہیں۔ ایک ہی قسم کے ماحول میں انھوں نے یکے بعد دیگرے جنم لیا ہے اور ایک قسم کی فضا میں پروان چڑھی ہیں۔ ان میں جو مشابہت اور مماثلت نظر آتی ہے وہ اسی خاص رشتے کے سبب ہے۔
اردو کے بارے میں ایک غلط فہمی کو بہت ہوا دی گئی ہے وہ یہ کہ اردو کا رشتہ مقامی یا علاقائی زبانوں سے اتنا استوار نہیں جتنا کہ بعض بیرونی زبانوں سے۔ یہ بات کسی نقطۂ نظر سے بھی صحیح نہیں ہے۔ اردو کا صوتی نظام اس کے جملوں کی ساخت ، قواعد کے بیشتر اصول اور بول چال کا لب و لہجہ سب پر مقامی اثرات کا غلبہ ہے۔ اردو کے بعض علمی اور ادبی شعبوں پر یقیناً فارسی اور عربی کا گہرا اثر ہے لیکن اس اثر و تاثیر کا تعلق اردو زبان کے مزاج یا باطن سے نہیں بلکہ اس کی اوپری سطح سے ہو رہا ہے۔ اردو شاعری نے وزن، بحر اور بعض اصناف سخن یقیناً عربی فارسی سے لی ہیں، لیکن اپنے اثر، لب و لہجہ اور موضوع کے اعتبار سے اردو کا رنگ و آہنگ عربی، فارسی سے بہت الگ رہاہے۔ حتیٰ کہ اس علاقے میں عربی و فارسی میں بھی جو کچھ لکھا گیا ہے اسے بھی سبک ہندی کا نام دیا گیا ہے۔ ایسی صورت میں یہ کہنا کہ اردو پر عربی و فارسی کے اثرات مقامی زبانوں کے اثرات سے قوی تر ہیں، صحیح نہیں ہے۔ اردو زبان کا مزاج شروع ہی سے مقامی یا دیسی رہا ہے، اس نے عربی، فارسی ، ترکی اور انگریزی سب سے حسب ضرورت فائدہ اٹھایا ہے اور باہر کی زبانوں کے بے شمار الفاظ اپنے اندر جذب کر لیے ہیں، لیکن یہ انجذاب، کیفیت کے اعتبار سے ہمیشہ علاقائی یامقامی زبانوں سے متاثر رہاہے۔
اس سلسلے میں ایک اور بات قابل توجہ ہے کہ اردو میں جو الفاظ دوسری زبانوں سے آئے ہیں وہ صرف اسماء تک محدود ہیں۔ ایک وقت تھا کہ مختلف علوم و فنون کے بہت سے اسماء عربی فارسی سے لیے گئے تھے۔ آج ریڈیو، ٹی وی، ہوائی جہاز اور دوسری مشینوں کے توسط سے بے شمار الفاظ انگریزی سے آگئے ہیں۔ ان الفاظ سے صرف پڑھے لکھے لوگ ہی نہیں بلکہ ایک معمولی مکینک بلکہ ٹیکنیکل اداروں کا مزدور بھی خوب واقف ہے لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اردو میں دخیل الفاظ کا یہ سلسلہ صرف اسماء تک محدود رہاہے۔ دوسری قسم کے الفاظ یعنی فعل و حرف Verb & Prepositionوغیرہ سارے کے سارے مقامی ہیں۔
اسماء کے سلسلے میں بھی ایک وضاحت ضروری ہے کہ عربی و فارسی کے جو الفاظ مستعمل ہیں ان میں بھی بیشتر کا تعلق مخصوص سطح کی علمی اور ادبی زبان سے ہے ۔ روز مرہ کی گفتگو میں خواہ اس گفتگو کا تعلق عام آدمیوں سے ہو یا خاص سے زیادہ تر مقامی الفاظ ہی استعمال ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر شکم، انگشت، چشم، گوش اور دست کے الفاظ ہی کو لے لیجیے۔ یہ فارسی سے آئے ہیں اور اردو میں مستعمل ہیں لیکن ان کا مصرف صرف علمی اور ادبی زبان میں ہوتا ہے۔ روز مرہ کی بات چیت میں عوام وخواص سب شکم کی جگہ پیٹ، انگشت کی جگہ انگلی ، چشم کی بجائے آنکھ اور گوش کی جگہ کان اور دست کی بجائے ہاتھ کے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔
وجہ یہ ہے کہ اس قسم کے الفاظ اردو میں مفرد بولے ہی نہیں جا سکتے۔ ان کو استعمال کرنے کے لیے انھیں اسی قسم کے دوسرے الفاظ سے مرکب کرنا پڑتا ہے جیسے شکم سیر، انگشت بدنداں،گوش ہوش، چشمِ عبرت اور دست کرم وغیرہ۔ ظاہر ہے اس قسم کے مرکبات کی تخلیق اور ان کا استعمال ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ اردو نے عربی ، فارسی یا انگریزی و ترکی سے جو اسماء لیے ہیں، ان میں سے جو اردو کے مزاج کے موافق نہیں تھے انھیں خراد پر چڑھا کر مزاج کے موافق بنا دیا گیا ہے۔رائو منٹر اور لکشمنٹر، اردو میں راون اور لچھمن ہو گئے ہیں۔ آرڈر لی کو اردلی کر لیا گیا ہے۔ میچ باکس کو ماچس، ہسپتال کوا سپتال، فبرواری کو فروری اور مے کو مئی بنا دیا گیا ہے۔ عربی کے سَیّد جَیّد، سیدھے سادے سیّد جیّد ہو گئے ہیں۔
یہی حال بے شمار عربی، فارسی اورسنسکرت سے آنے والے لفظوں کا ہے تارید یا اردو بنا لینے کا یہ عمل صرف تلفظ تک محدود نہیں بلکہ الفاظ کے معنی ، املا،واحد، جمع اور تذکیر و تانیث کے اصول سبھی میں اس طرح کا تصرف کیا گیا ہے۔ حروف تہجی سے لے کر الفاظ کی ساخت ، جملوں کی بناوٹ، صرف و نحو کے قاعدے ، الفاظ کے استعمال اور فصاحت و بلاغت تک سب میں اردو کا اپنا ایک منفرد اسلوب اور مخصوص لب و لہجہ ہے۔ وہ کسی بیرونی زبان کی مقلد یا تابع نہیں ہے ۔ اس لیے یہ خیال کرنا کہ اردو کا تعلق کسی بیرونی زبان سے ہے یا اس کی جنم بھومی، علاقائی زبانوں سے الگ کہیں اور ہے۔ کسی طرح درست نہیں ہے۔ اردو نے بھی اسی سر زمین پر جنم لیا ہے۔ اس لحاظ سے بھی بدیسی نہیں علاقائی کہنا چاہیے۔ یہ ضرور ہے کہ اردو کے اثر و نفوذ کا علاقہ ، علاقائی زبانوں کے مقابلے میں بہت بڑا ہے۔ اس کی یہی بڑائی اردو کو دوسری علاقائی زبانوں یعنی ہندی ، بلوچی، سندھی اور پشتو وغیرہ سے بڑا بنا دیتی ہے۔ اس بڑائی پر اردو کو فخر کرنے اور علاقائی زبانوں کو رشک کرنے کاحق ہے لیکن اس فخر و رشک کی بنیاد نفرت و تعصب پر نہیں اخوت و محبت پر ہونی چاہیے۔
میں نے ابھی عرض کیا تھا کہ اردو اور دوسری علاقائی زبانوں کی جنم بھومی ایک ہی ہے۔ اردو ، بلوچی، سندھی، پنجابی، پشتو، سرائیکی سب ایک ہی قسم کی تہذیبی زندگی ایک ہی قسم کی معاشرت اور ایک ہی قسم کی آب و ہوا کی زائدہ اور پروردہ ہیں۔ ان کے ظاہری خدوخال ایک دوسرے سے کچھ الگ سہی لیکن بباطن وہ ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں۔ ان سب کی روحوں پر اسلامی تہذیب و تمدن اور صوفیائے کرام کے احساس کا سایہ ہے۔ ان کے سرمایۂ علم و ادب اور مزاج و اسلوب میں بھی ایسی قدریں مشترک ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے قریب تر ہوتی چلی جا رہی ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ بعض حلقوں کی طرف سے اردو اور علاقائی زبانوں کو ایک دوسرے سے الگ رکھنے اور انھیں ایک دوسرے کی حریف و رقیب ثابت کرنے کی شعوری کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ کوشش چونکہ ساری زبانوں کے حق میں غیر مفید اور غیر فطری ہے اس لیے کامیاب نہ ہو گی۔ علاقائی زبانیں اردو سے بہت کچھ لے رہی ہیں اور اردو پر علاقائی زبانوں کی اثر پذیری کی رفتار بھی روز بروز تیز ہوتی جا رہی ہے۔
اردو اور علاقائی زبانوں کو باہم ملنے جلنے اور ایک دوسرے سے قریب تر آنے کا موقع دراصل جمہوری نظام نے دیا ہے۔ جس میں عوام خود اپنی تقدیر کے خالق و مالک اور حکمران، عوام کی خواہشوں کے تابع بنتے جا رہے ہیں۔ یوں بھی زبانوں کے ارتقا کی راہ میں کسی فرد یا ادارے کی حاکمیت کبھی حائل نہیں ہو سکتی۔ زبانوں کا تاریخی مطالعہ ظاہر کرتاہے کہ دنیا کی ہر زبان میں زندگی کے تقاضوں کے مطابق برابر تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ اس کا لب و لہجہ عہد بہ عہد بدلتا رہتا ہے۔ بہت سے الفاظ متروک و مردہ ہوتے رہتے ہیں۔ ان کی جگہ نئے جاندار الفاظ خود بخود جگہ پاتے ہیں۔ یہ سارا عمل عوامی سطح پر انجانے طور پر ہوتا ہے۔ زبان کی تراش اور حذف و اضافہ میںکسی خاص گروہ یا علاقے کی حاکمیت کو زیادہ دخل نہیں ہوتا۔
کہا جاتا ہے کہ ناسخؔ نے بعض الفاظ متروک قرار دیے تھے اور اپنے شاگردوں کے ذریعے ایک طرح کی تحریک بھی چلائی تھی لیکن یہ تحریک چونکہ غیر فطری تھی اس لیے کامیاب نہ ہو سکی حتیٰ کہ جن الفاظ کو انھوں نے متروک قرار دیا ان میں سے کئی الفاظ خود انہی کے کلام میں لاشعوری طو ر پر داخل ہو گئے۔ دوسروں پر تو اس کا بہت ہی کم اثر ہوا ۔ شہنشاہوں کی طرف سے شراب کی رام رنگی اور سنترہ کو رنگترہ کہنے کا حکم صادر ہوا لیکن عوام نے اسے پسند نہ کیا۔ پاکستان کے سابق صدر محمد ایوب خان (مرحوم) نے صبح و شام ریڈیو سے نشر کرایا کہ مغربی پاکستان کو پچھمو پاکستان اور مشرقی پاکستان کو پوربو پاکستان کہا جائے لیکن کسی نے ایک نہ سنی کہنے کا مطلب یہ ہے کہ زبان پر کسی کی اجارہ داری اور حکمرانی کبھی قائم نہیں رہ سکتی۔آج کے جمہوری دور میں جیسے جیسے ایک عام شہری کی وزیر اعظم سے، ایک ہاری کی زمیندار سے ، ایک مزدور کی کارخانے کے مالک سے اور ایک کسان کی جاگیر دار سے ملاقات کرنے کے امکانات روشن ہوتے جا رہے ہیں۔ ویسے ویے اردو اور علاقائی زبانوں کے ملاپ اور باہم اشتراک کی راہیں بھی ہموار ہوتی جا رہی ہیں۔ علاقائی زبانوں کا حلقہ ٔ اثر بڑھ رہاہے۔ ان کے ذخیرۂ الفاظ ،موضوعات اور اسالیب بیان سب پر اردو کا اثر بہت نمایاں نظر آ رہاہے۔ اردو پر بھی علاقائی زبانوں کے اثرات پوری طرح رونما ہو رہے ہیں۔ اس کے اسلوب اور لب و لہجہ میں خاصی تبدیلی آ چکی ہے۔ یہ تبدیلی کسی کو گوارا ہو یا نہ گوار، عوام کی حاکمیت اس کی پروا نہیں کرتی۔ سمجھنے کی بات صرف اتنی ہے کہ زبان اور اس کے لہجے میں عہد بہ عہد اور مقام بہ مقام تبدیلیاں ہوتی ہوتی رہتی ہیں اور یہی تبدیلیاں جب قبول عام حاصل کر لیتی ہیں تو معیاری زبان کا جزو بن جاتی ہیں۔
اردو زبان موجودہ سماجی زندگی اور علاقائی زبانوں کے زیر اثر کیا رنگ و روپ اختیار کر رہی ہے۔ اس کا اندازہ کرنے کے لیے چند جملے دیکھیے:
۱۔ اس نے آج بہت بور کیا۔
۲۔ حامد کی تقریر نے جلسے میں بے سبب بوریت پیدا کر دی۔
۳۔ میں آپ کی دادا گیری نکال دوں گا۔
۴۔ اس نے خواہ مخوا پھڈا کھڑا کر دیا۔
۵۔ ایک روپے کا کھلا چاہیے۔
۶۔ اس جگہ محمود کے بازو میں حامد کی دوکان ہے۔
۷۔ کاغذ کے بیوپاری نے کہا کہ مال خلاص ہو گیا۔
۸۔ اس نے ایک بیان داغ دیا اور کہا سیاست میں سب چلتا ہے۔
ان جملوں میں بور، بوریت، دادا گیری، پھڈا، کھلا، بازو، خلاص اور چلتا ہے، ایسے الفاظ ہیں جو آئے دن سنے اور بولے جاتے ہیں۔ اب محض اس بنا پر کہ یہ الفاظ اردو میں پہلے سے موجود نہ تھے یا فلاں اور فلاں طبقے میں استعمال نہیں ہوئے۔ کون ہے جو انھیں مردود قرار دے گا۔ ان الفاظ نے معاشرتی زندگی میں پوری طرح جڑ پکڑ لی ہے اور اب انھیں عام و خاص سبھی استعمال کر رہے ہیں۔ نئے الفاظ کے ساتھ ساتھ پرانے الفاظ بھی نئے معنوں کے ساتھ اردو میں جگہ پا رہے ہیں۔ چند جملے دیکھیے:
۱۔ جلد بازی کی ضرورت نہیں ہے۔ تسلی سے کام کرو۔
۲۔ آرام آرام سے چلو ورنہ ٹھوکر کھا کر گرو گے۔
۳۔ میرا دوست آج کل فلاں جگہ کمشنر لگا ہوا ہے۔
۴۔ آپ نے بہت کم کھایا کچھ اور لیجیے۔
۵۔ محمود صاحب آپ کو ساتھ والے کمرے میں مل جائیں گے۔
ان جملوں میں تسلی ، آرام، کمشنر لگا ہوا ہے، کوئی چیز اور لیجیے اور ساتھ والے کمرے میں، کے الفاظ و فقرات پر غور کرنے سے اندازہ ہو گا کہ وہ اپنے معنی کس طرح بدل رہے ہیں۔ اس طرح کے اور نہ جانے کتنے الفاظ و فقرات اور محاورات و اسالیب ہیں جو مقامی زندگی اور علاقائی زبانوں کے زیر اثر اردو کو نیا رنگ روپ دے رہے ہیں۔ یہی صورت علاقائی زبانوں کی ہے۔ اردو کی معرفت ان کا دامن وسیع تر اور ان کا سرمایہ وقیع سے وقیع تر بنتا جا رہا ہے۔
باہم اخذ و استفادے کا یہ نیا سلسلہ چونکہ آزادانہ ماحول میں شروع ہوا ہے اس لیے یقین ہے کہ کسی طبقے کی اجارہ داری اب زیادہ عرصے تک باقی نہ رہے گی۔ ضرورت اس کی ہے کہ علاقائی زبانیں اور اردو اپنے باہمی رشتوں کو سمجھیں اور اپنے اپنے منصب کو پہچانیں۔ ساری علاقائی زبانیں اپنی اپنی جگہ اہم ہیں اور ان سب کا اپنا اپنا حلقۂ اثر ہے لیکن ان کا یہ حلقۂ اثر اپنے اپنے علاقے تک محدود ہے۔ اس کے برعکس اردو ہر علاقے اور ہر خطے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اس کا علمی اور ادبی سرمایہ بھی علاقائی زبانوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اس لیے اسے پاکستان میں قومی زبان کا درجہ دیا گیا ہے۔ ہندوستان میں بھی کم از کم دوسری سرکاری زبان کی حیثیت سے اردو کو یہی مقام ملنا چاہیے کہ یہی زبان عموماً زیادہ بولی اور سمجھی جاتی ہے۔
قومی زبان کسی خاص علاقے یا گروہ کی زبان نہیں پوری قوم اور پورے ملک کی زبان ہوتی ہے۔ اس لیے اس پر پشاور سے لے کر کراچی تک سب کا یکساں حق ہے۔ اردو کا تصادم کسی علاقائی زبان سے نہیں انگریزی زبان سے ہے۔ اس کا حق علاقائی زبانیں نہیں انگریزی غصب کر رہی ہے۔
تحریر
ڈاکٹر فرمان فتح پوری
#قومی #زبان #اور #دیگر #پاکستانی #زبانیں