Table of Contents
خطہ پنجاب
مشرقی و مغربی خطہ پنجاب کا مختصر تعارف
خطہ پنجاب برصغیر پاک و ہند کی سر زمین کا ایک وسیع اور زرخیز ترین حصہ ہے جو یہاں کی تاریخ و تہذیب کا ایک الگ نمائندہ رہا ہے۔بر صغیر پاک و ہند کی اپنی تاریخ و تہذیب دنیا میں منفرد اہمیت بھی رکھتی ہے اور تاریخی بھی۔ تاریخی اعتبار سے اس خطے کی قدیم تہذیب کو وادئ سندھ کی تہذیب میں شامل کیا جاتا ہے اور پنجاب کی تہذیب و تاریخ بھی اسی کا ایک حصہ ہے۔ اگرچہ وادئ سندھ کی تہذیب میں موہنجوداڑو اور ہڑپہ جیسی تہذیبوں کا ذکر عام ہے لیکن یہ تہذیب صرف انہی علاقوں تک محدود نہیں بلکہ اس کے اثرات صدیوں تک اس خطے میں رہے جو آج بھی واضح ہیں۔
خطہ پنجاب برصغیر پاک وہند کی وہ سرزمین ہے جو پانچ بڑے دریاوں سے سیراب ہوتی ہے۔اسی اعتبار سے اسے پنجاب کا نام دیا گیا جو کہ فارسی الفاظ پنج یعنی پانچ اور آب یعنی پانی کا مرکب ہے۔ یہ نام سترویں صدی عیسوی میں معروف ہوا۔[1] اس علاقے کو سیراب کرنے والے بڑے دریا سندھ، جہلم، چناب، راوی اور ستلج ہیں۔ اس کے علاوہ بیاس بھی اس علاقے کا اہم دریا ہے۔ ان بڑے دریاوں کے علاوہ بھی کئی چھوٹے دریا اس علاقے سے گزرتے ہیں اور اس خطے کی زرخیزی میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ دریا برصغیر کے شمال مغرب میں واقع پہاڑی سلسلوں بشمول ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش سے رواں ہو کر پنجاب کی سرزمین کو سیراب کرتے ہیں۔ان سلسلوں کو پانی مہیا کرنے کے ذرائع میں صرف گلیشئر ہی شامل نہیں ، بلکہ جا بجا پھوٹنے والے اَن گنت چشمے بھی دریاؤں کے پانی میں شامل ہوجاتے ہیں۔ دریائی گزرگاہوں کے درمیان واقع ہونے کی وجہ سے پنجاب برصغیر کے زرخیز ترین علاقوں میں شامل رہا ہے۔ دریاؤں اور نہروں کے میٹھے پانی کی کثرت کے ساتھ بارشوں کا مناسب دورانیہ اور مٹی کی موزوں قسم اس علاقے کی زرخیزی میں اضافہ کرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں کا کسان دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ خوشحال رہا ہے اور خطہ پنجاب کی تہذیب وثقافت میں بھی اس خوشحالی کا رنگ نظر آتا ہے۔
ہن وستان کی تقسیم پاک وہند میں پنجاب کا یہ خطہ دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ بھارت کے حصے ہیں آنے والے پنجاب کو مشرقی پنجاب کا نام دیا گیااور پاکستان کے حصے میں پنجاب کا مغربی حصہ آیا۔ تقسیم کے نتیجے میں پاکستان کو ملنے والا پنجاب اس وقت کے کل پنجاب کا 54 فیصد تھا جبکہ باقی کا 46 فیصد بھارت کے حصے میں آیا۔ تقسیم کے باوجود بھی مشرقی خطہ پنجاب اور پاکستان کے حصے میں آنے والے پنجاب میں بہت سی ثقافتی قدریں مشترک ہیں اور اسی لئے دونوں حصوں کے شاعروں اور ادیبوں کو دونوں طرف ہی مقبولیت حاصل رہی ہےلیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان دونوں حصوں کی زبان، بول چال، عادات و اطوار، رہن سہن، رسوم و رواج وغیرہ میں تبدیلی کی چھلک بھی نظر آنے لگی ہے۔پنجاب کی ایک نمایاں ثقافتی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں پر صوفیا کو اہم مقام حاصل رہا ہے اور صوفی شعرا کے کلام کو پنجاب کے شہروں اور دیہاتوں میں شوق سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ صوفیا کے مزارات پر منعقد ہونے والے عرس اور میلے بھی پنجاب کی ثقافت کا اہم حصہ ہیں۔ پنجابی ثقافت میں کاشتکاری، مویشی بانی، میلوں ٹھیلوں، لوک موسیقی اور ثقافتی تہواروں کو بھی اہم مقام حاصل ہے۔
تقسیم سے قبل پورے پنجاب میں ہندو، سکھ اور مسلمانوں پر مشتمل آبادی آپس میں مل جل کر رہتی تھی اور ان کی ثقافت پر بھی ایک دوسرے کا اثر تھا۔ تقسیم کے بعد ہندواور سکھ بھارت کی طرف نقل مکانی کر گئے اور بھارت سے بھی مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد نے ہجرت کرکے پاکستان کے حصے میں آنے والے پنجاب میں سکونت اختیار کی۔ اس طرح اب پاکستانی پنجاب میں قریب قریب تمام آبادی مسلمان ہے اور آبادی میں دیگر مذاہب کا تناسب نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیکن آج بھی پاکستان کے پنجاب میں شامل کئی قدیم شہروں میں ہندو اور سکھوں کی سکونت کا رنگ نظر آتا ہے۔ بالخصوص لاہور اور راولپنڈی کے اندرون شہر کے علاقے آج بھی اپنی طرزِ تعمیر کے اعتبار سے تاریخ میں ہونے والی تبدیلیوں کی عکاسی کرتے ہیں اور یہاں کی عمارتوں میں ہندو، سکھ کے ساتھ ساتھ انگریزی طرز تعمیر کے اثرات بھی دکھتے ہیں۔
جغرافیائی اعتبار سے پنجاب کے ان دونوں حصوں پر نظر ڈالی جائے تو مشرقی پنجاب ہندوستان کی تین ریاستوں سے گھِرا ہوا ہے۔ پنجاب کے مشرق میں ریاست ہریانہ موجود ہے جس کا اہم ترین شہر دہلی ہے۔ مشرقی پنجاب کے اس مشرقی حصے میں ہندوؤں کی بھی کثیر آبادی ہے۔اور ہریانہ کی زبان ، معاشرت و لباس کے اثرات یہاں بھی دکھائی دیتے ہیں۔جنوب میں راجھستان کا صحرائی علاقہ ہے جہاں راجپوتوں کے تعمیری شاہکار ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں۔جبکہ شمال میں ہیماچل پردیش، اور ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کے خوبصورت پہاڑی اور برفیلےعلاقے ہیں۔ انہی علاقوں کا پانی دریاؤں کی شکل میں بہہ کر نشیبی علاقوں کی طرف آتا ہے۔مغربی پنجاب جغرافیائی اعتبار سے پاکستان کے دیگر تمام صوبوں سے منسلک ہے۔ اس کے جنوبی نیم صحرائی علاقے صوبہ سندھ کی سرحد سے جڑے ہیں ، جنوب مغرب میں بلوچستان کی سرحد ہے، مغرب میں صوبہ خیبر پختونخواہ اور شمال میں اس کی سرحد کشمیر پہاڑیوں اور وادیوں سے جڑی ہوئی ہے۔پنجاب کےان تمام سرحدی علاقوں میں دوسرے صوبوں کی ثقافت و معاشرت کے آثار پنجابی تہذیب سےملے جلے نظر آتے ہیں اور مرکز کی نسبت ان علاقوں میں مشترکات کے ساتھ ساتھ فرق بھی نظر آتا ہے۔
مشرقی اور مغربی پنجاب میں ایک فرق زبان کا بھی ہے۔ مغربی پنجاب میں پنجابی زبان کے مختلف لہجے پائے جاتے ہیں جنہیں بولیاں بھی کہا جاتا ہے۔پنجابی زبان کا سب سے مشہور لہجہ پنجاب کے درمیانے حصے کا ہے۔ ان علاقوں میں لاہور، اوکاڑہ، شکر گڑھ، فیصل آباد، سرگودھا وغیرہ کے علاقے شامل ہیں۔ سرائیکی پنجابی کی وہ بولی ہے جو میانوالی، بہاولپور،ملتان جیسے جنوبی علقاقوں سے تعلق رکھتی ہے۔اہل پنجاب اس کو پنجابی کی میٹھی بولی کہتے ہیں۔مغربی پنجاب کے شمالی علاقوں میں پوٹھوہاری ، ہندکو، اور پہاڑی بولیاں بولی جاتی ہیں۔
مشرقی پنجاب میں بھی پنجابی کے مختلف لہجے موجود ہیں ۔ مشرقی پنجاب کی زبان مغربی پنجاب سے بہت مختلف ہے جس کی ایک وجہ مشرقی پنجاب میں سکھوں ،اور مغربی پنجاب میں مسلمانوں کی مذہبی زبانوں کے اثرات ہیں۔ مغربی پنجاب نے عربی ، ایرانی اور اردو سے جبکہ مشرقی پنجابی نے ہندی اور سنسکرت کے اثرات حکومتی سرپرستی اور مذہبی اثرات کے باعث قبول کیے۔یہاں تک کہ تحریر میں بھی مذہب کا اثر نظر آتا ہے کہ مغربی پنجاب میں عربی فارسی(نستعلیق) رسم الخط رائج ہے جبکہ مشرقی پنجاب میں وہی پنجابی دیوناگری میں لکھی جاتی ہے۔
[1] سنگھ، پریتام، فیڈرل ازم، نیشنل ازم اینڈ ڈیویلپمینٹ: انڈیا اینڈ دی پنجاب اکانومی، لندن، روٹلیج، ص: ۳