معنی اور معانی میں فرق

معنی اور معانی میں فرق

اس آرٹیکل میں ہم “معنی اور معانی میں فرق” کو واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔ معنی اور معانی کے استعمال میں اکثر و بیشتر بڑے بڑے اساتذہ اور پڑھے لکھے لوگ بھی غلطی کر جاتے ہیں۔ نیز یہ کہ ہمارے ہاں لکھی جانے والی کتب میں بھی کئی مقامات پر ان کے استعمال میں غلطی نظر آ جاتی ہے۔ سو اس لیے طلبا کی  اصلاح کرنے اور معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے یہ آرٹیکل پیش خدمت ہے۔ مزید معلومات کے لیے ملاحظہ کیجئے ہمارا پیج علمو

سادہ اور آسان لفظوں میں “معنی اور معانی میں فرق” محض واحد اور جمع کا ہے۔ عمومی طور پر ان کے فرق کو واضح کرنے کے لیے بس اتنا  کہہ دینا کافی ہے کہ معنی واحد ہے جبکہ معانی اس کی جمع ہے۔ لیکن ایک علم کے متلاشی اور تشنہ ذہن کے لیے اس کی مزید تفصیلات درکار ہوتی ہیں۔

لغت کے اعتبار سے معنی، عربی زبان کا لفظ ہے۔ قواعد کے اعتبار سے مذکر اسم ہے۔ معنی کا تلفظ م۔زبر ع۔جزم ن۔زیر ی۔جزم ہے۔ اس کے مطالب میں مقصد، مدعا، ارادہ، مطلب، منشا، مراد، سبب، وجہ، باعث، اصلیت، ماہیت، حقیقت، جمع، معانی وغیرہ شامل ہیں۔

نیز اگر لفظ معانی کا جائزہ لیا جائے لغت کے اعتبار سے سے ہے تو یہ بھی عربی کا ہی لفظ لیکن معنی کے برعکس بطور مونث اسم مستعمل ہو گا۔ اس کے اعراب و تلفظ بھی معنی سے ذرا مختلف ہیں۔ م۔پیش، ع۔زبر، الف۔ جزم، ن۔زیر، ی۔جزم۔ اس کا سب سے سادہ آسان اور عام فہمی معنی، “معنی کی جمع” ہے۔ دیگر مطالب میں  مقاصد مطالب مرادیں بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔

معنی اور معانی کی تعریف یوں بھی کی جا سکتی ہے کہ “یہ ایسا علم ہے جس میں کسی بھی زبان کے الفاظ کے مفاہیم و مطالب کو واضح کیا جاتا ہے۔ نیز یہ وہ علم ہے جس سے الفاظ کا صحیح موقع استعمال اور لفظوں کے معنوں کا درست اور موزوں استعمال ہونا واضح ہوتا ہے۔” معنی اور معانی کی یہ تعریف فیروز اللغات میں موجود ہے۔

معنی کے مترادفات میں اور بہت سے الفاظ شامل ہیں لیکن ساتھ اس کے مشتق الفاظ بھی اس کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں۔ معنے، معانے، معنوں، معنوی وغیرہ کا استعمال بھی انہی معنوں میں ہوتا ہے۔

یہاں سب سے ضروری بات یہ ہے کہ لوگ “معنی اور معانی” کو ایک ہی طرح برتتے ہیں اور ان کے درمیان فرق نہیں کرتے۔  حالانکہ دونوں کا تلفظ اور طریقہ استعمال ایک دوسرے سے قدرے مختلف ہے۔ اس کی بہترین مثال ہم شعرا کے یہاں دیکھ سکتے ہیں۔ اگر کسی مقام پر معانی آنا ہے تو معنی کے استعمال سے پورا کا پورا مصرعہ بے وزن ہونے خدشہ ہوتا ہے۔

اگر علامہ علامہ محمد اقبال کے شعر
ہر چند کہ ایجاد معانی ہے خدا داد
محنت سے کہاں مرد ہنر مند ہے آزاد
میں معانی کی جگہ معنی لگایا جائے تو شعر بے وزن ہو جائے گا۔

اسی طرح نظم “شکوہ” کے مصرعے “پھر یہ آزردگی بے سبب کیا معنی” میں معنی کی جگہ معانی لگایا جائے تو بھی شاعری کے وزن سے گرنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

سو اس تمام بحث کا ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ “معنی اور معانی میں فرق” خواہ وہ استعمال میں ہو یا تلفظ میں، بلاشبہ موجود ہے۔ نیز یہ کہ اکثر و بیشتر ان کے استعمال میں غلطی کی جاتی ہے۔ نہ صرف تلفظ و اداگی میں اس کی غلطی عام ہے بلکہ عمومی اور نصابی کتابوں میں اس کی غلطی نظر آ جاتی ہے۔ اس غلطی کی اصلاح کی جانی چاہیے اور ان دونوں کو استعمال کرنے اور برتنے میں احتیاط ضرور کرنی چاہیے۔

(ع حسین زیدی)

 

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں


اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ Ilmu علموبابا

اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔

 

Follow us on

Leave a Reply

Ilmu علمو