تحریر : | ڈاکٹر اظہار احمد گلزار |
ہماری محفل کے وہ آفتاب و ماہتاب جن کا وجود ہمارے لیے سر چشمہء فیض ہوتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے عدم کے کُوچ کے لیے رخت ِ سفر باندھ لیتے ہیں اور ہمیں دائمی مفارقت دے جاتے ہیں ۔ان کے نہ ہونے کی ہونی پر ہماری آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ جاتی ہیں اور دُنیا یہ سانحہ دیکھتی کی دیکھتی رہ جاتی ہے ۔ اپنے بزرگوں کا سایہ جب سر سے اُٹھ جاتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ سورج واقعی سوا نیزے پر آ گیا ہے۔ ان لرزہ خیز سانحات اور اعصاب شکن حالات میں دل کو سنبھالنے کی نہ تو کوئی امید بر آتی ہے اور نہ ہی اپنے جذبات حزیں کو حرف حرف بیان کرنے کی کوئی صورت نظر آتی ہے ۔۔لوحِ دل پر نقش ان کی دعائیں ، وفائیں اور عطائیں ہمیشہ کے لیے عزم و عمل کی ندائیں اور آلامِ روزگار کی تمازت سے بچنے کی ردائیں ثابت ہوتی ہیں ۔ان کی چشم کے مُرجھا جانے کا یہ سانحہ پس ماندگان اور احباب کے لیے زندگی بھر کے لیے سوہانِ روح بن جاتا ہے۔
دِل کے طاق میں اس عظیم انسان کی حسین یادوں کے چراغ ابِ ہمہ وقت سرِمژگاں ستاروں کے مانند جھلملاتے ہیں ۔ قبلہ والد گرامی رانا محمد گلزارخاں کپور تھلوی نے 6/ اکتوبر 1996ء کو داعیء اجل کو لبیک کہا ۔ چک نمبر 87 گ ب براستہ ڈجکوٹ ضلع فیصل آباد پاکستان میں ان کے آبائی قبرستان نے انسانی ہمدردی ،بے لوث محبت ،خدمت خلق اور انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے اس آسمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چُھپا لیا ۔وہ شخص جِس کا وجود طلوع صبح بہاراں کی نوید تھا اور جِس کی عظیم شخصیت سفاک ظلمتوں میں ستارہ ء سحر کے مانند تھی اپنے ہزاروں پیاروں کو یاس و ہراس اور آہ و فغاں کے عالم میں تنہا چھوڑ کر دُور بہت ہی دُور اپنی الگ بستی بسانے چلا گیا ۔
اُداس بام ،کُھلے در اور سنسان بستیاں احساس ِ زیاں سے بے حال اپنے رفتگاں کو پُکارتی رہتی ہیں لیکن اِس دنیا کی سرائے سے منہ موڑ کر جانے والے مسافر پھر کبھی اس طرف لوٹ کر نہیں آتے ۔ ہمارے وہم و گُمان میں بھی نہیں ہوتا کہ وہ لوگ جنھیں دیکھ کر ہم جیتے ہیں ہمیں دائمی مفارقت دے کر زینہء ایام سے اُتر کر وقت کی تہہ میں اُتر کر قلزمِ خوں پار کر جائیں گے۔ زندگی کا کوئی بھی عکس ہو’ اُس میں ایسے مہربان سراپا رحمت رشتے کے اقوال ،اعمال اور شخصیت کے خدو خال جلوہ گر دکھائی دیتے ہیں اور کوئی بھی بزم ان کے ذکر سے خالی نہیں رہتی ۔زندگی کی شامِ الم میں اپنے بزرگوں کی یادوں کے ستارے اس طرح ضوفشاں رہتے ہیں کہ رہروانِ زیست کو نشانِ منزل مِل جاتا ہے اور وہ سرابوں میں بھٹکنے اور تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیے مارنے سے بچ جاتے ہیں ۔زندگی کی شبِ تاریک میں رستہ دکھانے والا ایسا ہی ایک تابندہ ستارہ رانا محمد گلزارخان کپور تھلوی بھی تھا ۔جن کے دم قدم سے یہ الفاظ رقم ہو رہے ہیں ،جنہوں نے ہاتھ میں قلم پکڑنا سکھایا ،جنہوں نے چلنا سکھایا، جنہوں نے بولنا سکھایا،گویا زندگی کی تمام تر رحمتیں، برکتیں ، کرم نوازیاں اور رعنائیاں اسی ہستی کا تصدق ہیں ۔۔ دنیا میں اس انسان سے بڑا میرا، مجھے کوئی انسان نظر نہیں آتا ۔۔۔۔۔
رانا محمد گلزار خان کپور تھلوی رحمۃ اللہ علیہ یکم جون 1938ء کو چودھری محمد بخش راجپوت کے گھر ریاست کپور تھلہ مشرقی پنجاب (ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ ساری زندگی محنت و مشقت اور ایمانداری کو اپنا شعار بنائے رکھا ۔عاجزی انکساری ، اخلاص و مروت اور مرنجاں مرنج شخصیت کے حامل آپ ایک زندہ دل انسان تھے ۔ساری زندگی لوگوں میں محبتیں اور خوشیاں بانٹیں ۔۔۔میں نے اپنی زندگی میں انہیں کسی سے لڑتے یا اونچا بولتے نہیں دیکھا ۔۔۔۔آپ کے ساتھی آپ کے حسن اخلاق کی وجہ سے آپ کے ساتھ مل بیٹھ کر چائے پینے کے لئے لاہور یا کسی اور شہر سے ڈیوٹی کرتے ہوۓ گاڑی/ بس سے واپسی پر آپ کا گھنٹوں انتظار کرتے تھے کہ رانا صاحب کے ساتھ مل کر اکٹھے چائے پینی ہے۔۔ آپ کے جانثار ساتھیوں میں مہدی زمان عباسی ، غلام نبی تمیمی ، خوشی محمّد ، شیخ شفیق احمد ، سید شاہجہان ، خادم حسین تمیمی اور بہت سے دوست شامل تھے۔
اپنی ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ رانا محمد گلزار خاں کپور تھلوی کو پڑھنے کا شوق بھی پیدا ہو گیا تھا اور پھر اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے ان کے ہاتھ میں کوئی نہ کوئی رسالہ یا ڈائجسٹ ضرور دیکھا جا سکتا تھا ۔رانا صاحب کو جب موقع ملتا ، وہیں اپنی موٹے شیشوں والی عینک لگا کر مطالعہ شروع کر دیتے۔۔۔۔ پھر انہوں نے کالم اور کہانیاں لکھنی شروع کر دیں ۔۔۔۔۔
رانا محمّد گلزار خاں کپور تھلوی ایک مرنجان مرنج شخصیت کے مالک ایک درد دل رکھنے والے صاف گو اور جری تخلیق کار تھے۔انہوں نے اپنی ملازمت کے ساتھ ساتھ قلم و قرطاس سے اپنا تعلق جوڑے رکھا۔فکری طور پر وہ ایک کہانی کار اور کالم نگار تھے ۔۔۔رانا گلزار کپور تھلوی کو کالم نگاری کی طرف مائل کرنے کا تمام کریڈٹ روزنامہ ” ڈیلی بزنس رپورٹ ” کے چیف ایڈیٹر اور ایگزیکٹو عبد الرشید غازی کو جاتا ہے جنہوں نے آپ کو اخبار میں کالم لکھنے کی طرف مائل کیا ۔۔وہ ڈیلی بزنس رپورٹ کے دفتر میں آ کر فارغ وقت گزارتے تھے ۔کیوں کہ ان کا محکمہ ڈیلی بزنس رپورٹ کے دفتر کے سامنے تھا ۔۔وہیں سے انھوں نے کالم نگاری کی ابتدا کی ۔۔کہانی کاری کی طرف تو وہ پہلے ہی سے منسلک تھے ۔
رانا محمّد گلزار خان کپور تھلوی کے کالم شگفتہ اور لطیف پیراے انداز میں گندھے ہوتے تھے ۔ بظاہر یہ کالم ہلکے پھلکے انداز میں سفر کرتے ، مگر ان کے باطن میں ایک ایسی فکر رواں دواں تھی ، جس کا انداز کالموں کے ان موضوعات سے ہوتا ہے جو ان کے کالموں کے اندر کی صورتحال کو اجاگر کرتے ہیں ۔۔ان کے یہ کالم ڈیلی بزنس رپورٹ میں تسلسل سے شائع ہوتے تھے ۔ انہوں نے اپنے اظہار خیال کے لئے معاشرے کے چھوٹے سے مگر اہم موضوعات کو منتخب کیا ۔۔رانا صاحب کا قلم۔ ۔۔۔۔قلم کے بجائے ایک ایسا نشتر تھا جو معاشرتی ناہمواری کے پودے کو کاٹ ڈالنے میں مصروف رہا ۔۔انہوں نے اپنی تحریروں میں سماج کے مکروہ چہرے پر بے انتہا تھپڑ رسید کیے ہیں ۔۔۔ان کے کالم محض کالم ہی نہیں بلکہ ٹوٹتی بکھرتی قدروں کے نوحے ہیں ۔۔سماجی معاشرتی زوال کے مرثیہ ہیں ۔۔۔ماحول میں بکھری ہوئی فضائی، سماجی، روحانی اور معاشی آلودگی کے کرب ہیں۔۔
رانا محمد گلزار خاں کپور تھلوی نے کالم روشنائی سے نہیں بلکہ اپنے خون جگر سے لکھے ہیں ۔۔۔ان کا مقصد ایک ہی ہوتا تھا کہ کس طرح لوگوں کی معیار زندگی کو بلند کیا جا سکتا ہے ۔ اور کس طرح لوگوں کے لیے زیادہ آسانیاں پیدا کیا جا سکتی ہیں ۔۔ان کے موضوعات برائے راست عوام کی زندگی سے متعلق ہوتے تھے ۔۔۔۔۔۔رانا محمد گلزار خاں کپور تھلوی جنون کا وہ مسافر تھا جو خود بخود نہیں سمٹتا تھا بلکہ اسے دیکھ کر لمحے سمٹ جاتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ کہانی کاری اور افسانہ نگاری کے حوالے سے رانا محمد گلزار خان کپور تھلوی کا نام ہمیشہ زندہ و جاوید رہے گا۔
کہا جاتا ہے کہ والدین کے دل اور دماغ جب کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو ان میں ہمارے لیے خوبصورت خواب بھی دم توڑ دیتے ہیں ۔ جب ان کے ہاتھ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی ہماری لیے دعاؤں کے لیے اٹھنے والے ہاتھ جواب دے جاتے ہیں۔ ان کے دل کی دھڑکن بند ہونے کے ساتھ ہی ہماری تکالیف میں تڑپنے والا درد مند دل بھی اپنا سلسلہ منقطع کر دیتا ہے ۔۔۔۔والدین وہ چراغ ہیں جن کے بھجنے سے اندھیرا ہی نہیں ہوتا ، ہر دکھائی دینے والی ، محسوس کی جانے والی چیز معدوم ہو جاتی ہے ، بے وجود ہو جاتی ہے ۔۔۔
پروفیسر غلام رسول شوق کی شاہکار نظم ” گھر دا بوہا‘‘ ایک علامتی نظم ہے جس کی تشبیہ انھوں نےایک باپ سے دی ہے۔ ہر اس باپ پر یہ نظم صادق آتی ہے جو ساری حیاتی زمانے کی تند و تیز تلخیوں اور دُھوپ بھری زندگی میں محنت اور مشقت کر کے اپنے بچوں کو پالتا ہے ۔ ان کی نگہداشت کرتا ہے۔ اُن کو پروان چڑھاتا ہے۔ ان کے دُکھ سُکھ کا خیال اپنی جان سے زیادہ کرتا ہے۔ دروازہ ساری زندگی گھر کی حفاظت ، چوکیداری اور نگہداشت کرتا کرتا آخر ایک دن تمام قبضے، کیل ڈھیلے اور لکڑی میں تریڑیں پڑ جانے سے اپنی طاقت کھو بیٹھتا ہے اور پھر کسی روز اچانک دھڑام سے زمین پر آ گرتا ہے ۔۔۔۔بعین ہی گھر کا سرپرست ، گھر کا نگہبان باپ بھی حالات کی تلخ اور شخر دوپہروں اور سرد راتوں کا مقابلہ کرتے کرتے تھک کر زندگی سے ایک دن ہار مان جاتا ہے۔ یہ نظم غلام رسول شوق کی شہکار نظموں میں شمار ہوتی ہے ۔ موصوف کا اندازِ بیان بڑا مؤثر اور دل کش ہوتا تھا۔ بسا اوقات وہ یہی نظم پڑھتے پڑھتے آبدیدہ ہو جاتے اور آنسو ان کی آنکھوں میں چمکنے لگتے ۔ یہ نظم ہر اس نیک طینت فرمانبردار اولاد کے لیے ہے جو اپنے والد سے ٹوٹ کر پیار کرتا ہے۔ ان کے مقام اور مرتبے کو پہچانتا اور سمجھتا ہے۔
نظم ’’گھر دا بوہا‘‘ نذرِ قارئین:
اِک سی میرے گھر دا بُوہا
چِٹے پٹ تے متھا سُوہا
ڈُھکدا کھُلدا چیں چیں کردا
دُھپے کھاندا سِی نہ کردا
مہینہ پھانڈے وچ پجھدا رہندا
شِکر دوپہرے رِجھدا رہندا
لوآں دُھپاں نُوں اوہ روکے
اگل واہنڈی سب توں ہو کے
چور اُچکے توں نہ ٹٹ دا
چوتھی پکی سکے رُکھ دا
قبضے کُنڈے سنے چوگاٹھے
بھخدا وانگر گبھرو کاٹھے
ہر کوئی اوتھوں نیوں کے لنگھدا
نیویاں اکھیاں سنگ دا سنگ دا
کجھ ورھیاں توں بعد میں تکیا
تکیا تے پر جَر نہ سکیا
لکڑ سُک تریڑاں پئیاں
ہر ریشہ کر وکھرا گئیاں
اِک اِک پیچ ہویا فِر ڈِھلا
ہلنا جُلنا ہویا جھِلا
جھُکھڑاں دی اوہ مار کی سیہندا
ہر پَٹ اُس دا ہِلدا رہندا
واج سی اُس دی کھڑ کھڑ کر دی
فِر وی راکھی گھر دی کر دی
اِک دِن کُنڈا ہویا نِکّا
سنے چوگاٹھے ویڑے ڈِگّا
چھڈ گیا سب کندھاں کولے
مُک مکا گیا سبھ رولے
کر گیا لُگا سارے گھر نوں
سارے گھر دے اِک اِک در نوں
شوقؔ سبھے ہُن کڑیاں ڈولن
کِڑ کِڑ کِڑ کِڑ کِڑ کِڑ بولن
سچی بات ہے کہ اس نظم کے عنوان اور علامتی انداز نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ یہ نظم سن کر شوق صاحب کے اندر سے مجھے ایک گہرے دُکھ دردوں کی خوشبو آئی۔ وہ دُکھ جو لوہے کو کُندن بنا دیتے ہیں ۔جب میں ان کے قہقہوں کے اندر جھانکا تو مجھے ان کے دل اور زندگی پر غموں کے آرے چلتے دکھائی دیے ۔ وہ عشق کا نور جو آدمی کو انسان بنا دیتا ہے ۔ اس نظم میں علامت کے اندر بہت ہی وسعت اور گہرائی ہے”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔آج تین اکتوبر ہے ۔اکتوبر جب بھی آتا ہے تو یہ خزاؤں کے ساتھ دلوں پر اداسی بن کر نازل ہوتا ہے۔۔۔ 6/ اکتوبر 1996ء کو بھی ایک ایسا ہی دن تھا جب درختوں کے زرد پتوں کے ساتھ ساتھ میں نہ صرف اداس تھا بلکہ شکست و ریخت کا شکار تھا ۔۔ جب میرا باپ علالت پر پڑا تین اکتوبر سے پانچ اکتوبر تک تین دن تک مسلسل قومے کی حالت میں زندگی اور موت کی جنگ لڑتا رہا۔ بالآخر موت جیت گئی اور زندگی ہمیشہ کی طرح ہار گئی ۔۔۔۔۔اس کے بعد جب جب بھی اکتوبر آتا ہے ۔۔یہ میرے دل پر اداسی بن کر برستا ہے ۔۔یکم اکتوبر سے چھ اکتوبر تک خزاں اس مہربان دل کے ساتھ کیسے کھیلتی ہے ۔
یہ کوئی اس سے بہتر نہیں جانتا ۔۔۔خزاں کی پہلی شام کو جنم لے کر خود کو پورے من سے گلے لگانے والا یہ لڑکا اپنے سینے میں اداسیوں کا سمندر، ہونٹوں پر کبھی نہ مٹنے والی انوکھی مسکراہٹ رکھنے کو اپنی فتح سمجھتا تھا ۔اداسیوں کا ساتواں آسمان زرد پیلے پتوں کی قیامت اور لڑکے کا ضبط توڑنے والا اکتوبر آتا ہے اور گزر جاتا ہے مگر آسانی سے نہیں گزرتا ۔۔۔۔۔اسے ایسے اداس کر جاتا ہے کہ مضبوط سے مضبوط دل بھی معصوم بچہ بن کر بلکنے لگتا ہے ۔اکتوبر کی شامیں ایک کے بعد ایک ایک کر کے اداسیاں برساتی ہیں ۔۔۔۔۔زندگی کا کارواں چلتا ہے اور اکتوبر بھی اپنے آپ کو سیاہ چادر میں لپیٹ کر خوف کا سایہ پھیلا دیتا ہے۔۔۔۔۔کتنا درد ناک ہے یہ اکتوبر ۔۔۔۔۔۔!
❣️اللہ کریم میرے ابا جان کو جنت الفردوس میں اعلی و ارفع مقام عطا فرمائے ، درجات کی بلندی سے نوازے اور ان کی مرقد منور پر ہمیشہ اپنی رحمتوں کا نزول جاری و ساری رکھے ۔۔۔۔۔۔آمین
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را