نظم جاوید کے نام۔ دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر ۔تشریح

نظم جاوید کے نام۔ دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر ۔تشریح

اس آرٹیکل ” نظم جاوید کے نام۔ دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر ۔تشریح” میں علامہ محمد اقبال کی نظم “جاوید کے نام” کی تشریح پیش کی جا رہی ہے۔ یہ نظم “بال جبریل” میں موجود ہے۔  جب علامہ اقبال دوسری گول میز کانفرنس کے لیے لندن گئے تو وہاں اُنہیں ، ان کے فرزند جاوید اقبال کا لکھا ہوا پہلے خط موصول ہوا۔ جاوید اقبال نے اپنے خط میں گراموفون لانے کی فرمائش کر دی۔ علامہ اقبال اپنے بیٹے کے لیے گراموفون تو نہ لائے مگر ان کے نام یہ نظم “جاوید کے نام” لکھ ڈالی۔یہ نظم بظاہر صرف جاوید کے نام ہی لکھی گئی لیکن اس میں ایک باپ کے جذبات اور افکار کی ترجمانی بھی ہے، اور ملک و قوم کے نوجوانوں کے نام پیغام بھی۔   مزید معلومات کے لیے ملاحظہ کیجیے علمو۔ اور جماعت نہم کے اردو نوٹس کے لیے یہاں کلک کریں۔ نظم جاوید کے نام تشریح “دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر تشریح۔

نظم جاوید کے نام۔ دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر ۔تشریح
نظم جاوید کے نام۔ دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر ۔تشریح

شعر 1۔ دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئی صبح و شام پیدا کر

تشریح۔ اس نظم جاوید کے نام میں علامہ اقبال اپنے بیٹے جاوید کو نصیحت اور تلقین کر رہے ہیں۔ یہاں بظاہر جاوید کو مخاطب کیا گیا ہے لیکن جاوید کے ذریعے ملک و قوم کے نمام نوجوانوں کو پیغام دیا جا رہا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ اے نوجوان/ اے جاوید! اگر تُو زندگی میں کچھ کرنا چاہتا ہے تو عشق کے میدان میں اپنا نام پیدا کر۔عشق کے میدان میں کامیابی حاصل کر۔
علامہ اقبال کا پیش کردہ عشق اور اُن کا تصورِ عشق عام لوگوں سا نہیں، بلکہ اُن کا تصورِ عشق مذہب اور اس کی اقدار سے جڑا ہوا ہے۔  اقبال کا یہ شعر اسی کا ترجمان ہے کہ
صدقِ خلیل بھی ہے عشق صبر حُسین بھی ہے عشق                        معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق
ابراہیم خلیل اللہ کی سچائی ، امام حسین کے صبر اور غزوہ بدر اور حنین میں رسول اللہ اور ان کے اصحاب کی قربانیاں عشق ہیں،  یعنی اقبال خدا ، رسول اور دین اسلام  کی محبت ہی کو اصل عشق مانتے ہیں۔ اس رو سے وہ نوجوانوں اور بالخصوص اپنے بیٹے سے مخاطب ہو کر یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ  دین کی خدمت کرو اور اس کے اصولوں پر چلو۔
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کرنے سے مراد   بظاہر تو نئی دنیا بنانا ہے ۔ اگرچہ نئی دنیا کا قیام  ایک  نا ممکن بات ہے لیکن اسے مجازی معنوں میں استعمال کیا جائے تو معانی “انقلاب لانے” کے  نکلتے ہیں۔ یعنی دنیا کے موجودہ نظام میں تبدیلی اور انقلاب  لا کر اسے ایک نئی شکل دی جائے۔ جتنے بھی لوگوں نے دنیا کے مروجہ نظام سے بغاوت کی اور دین حق کے اصولوں پر چلے، وہ انقلابی بن گئے ، اپنی پہچان بھی پیدا کر گئے اور آنے والوں کو زندگی گزارنے کے لیے نیا ماحول بھی دے گئے۔ ان مثالوں میں خاتم المرسلین رسول اکرم ﷺ کی زندگی سب سے زیادہ نمایاں ہے جنہوں نے دنیا  اور اپنے بعد آنے والی معاشرت کی شکل و صورت  یکسر بدل دی۔ اسی طرح امام حسینؑ، جابر بن حیان، صلاح الدین ایوبی، علامہ اقبال، جیسی شخصیات آئیں جنہوں نے اسلام  کے نام پر چلتے ہوئے نہ صرف ایک انقلاب سا پیدا کیا بلکہ اپنا نام بھی تاریخ میں درج کرا گئے۔  نظم جاوید کے نام تشریح “دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر تشریح۔

شعر 2۔ خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالہ و گُل سے کلام پیدا کر

تشریح۔ نظم جاوید کے نام کے اس شعر میں علامہ اقبال نوجوان/ جاوید کو کہہ رہے ہیں کہ اگر خدا تجھے فطرت ، قدرت اور اپنے گردوپیش کے مشاہدے اور مطالعے کا ذوق و احساس دے تو اس قدرت میں تو خدا کو تلاش کر۔
اس دنیا کے نظاروں کو ہر شخص دیکھتا ہے۔ ہر شخص سر سبز جنگلوں ، باغوت، بلند و بالا پہاڑوں، دریاوں، سمندروں کی گہرائیوں، چاند سورج ستاروں اور آسمان کو دیکھتا تو ہے۔ لیکن ہر شخص ان پر غور و فکر نہیں کرتا۔ قرآن میں خدا نے بھی  مظاہرِ فطرت میں رات دن کے آنے جانے میں عقل والوں کے لیے ہی نشانیوں کی موجودگی کا کہا ہے(آل عمران 190)۔
اقبال بھی اسی آیت  میں موجود پیغام کو اپنے الفاظ کا جامہ پہنا کر نوجوان/ جاوید کو کہہ رہے ہیں کہ اگر خدا تجھے یہ توفیق دے، کہ تو اس کی پید اکردہ قدرت کا مشاہدہ کرے، تو  گل ، لالہ، باغات، پیڑ پودوں  جیسے مظاہر فطرت کے ذریعے سے خدا کو تلاش کر۔ اگرچہ یہ مظاہر فطرت، سکوت رکھتے ہیں یعنی خاموش رہتے ہیں، لیکن یہ سب مظاہر اللہ کی آیات یعنی نشانیاں ہیں۔  اکبر الہ آبادی نے اسی حقیقت کو یوں بیان کیا
صاف آئے گی نظر صانعِ عالم کی جھلک               سامنے کُچھ نہ رکھ آئینۂ فطرت کے سِوا
یعنی خدا خود تو نظر نہیں آتا لیکن اس کی پیدا کی ہوئی اس قدرت و فطرت میں  خدا کی عکس صاف نظر  آتا ہے۔  نظم جاوید کے نام تشریح “دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر تشریح۔

شعر3۔ اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں
سفالِ ہند سے مینا و جام پیدا کر

تشریح۔ نظم جاوید کے نام کے اس شعر میں چند مشکل ترکیبات اوار الفاظ پیش کیے گئے ہیں۔ شیشہ گر سے مراد کانچ کے برتن بنانے والا،  فرنگ یعنی یورپ (مغربی اقوام)، سفال ِ ہندیعنی ہندوستان کی مٹی، مینا و جام سے مراد پیالے اور برتن ہیں۔  اقبال کے نزدیک یورپ کی اقوام ، شیشہ گر ہیں۔ یعنی  یہ نازک اور نا پائداراشیا بنانے والے ہیں جن کا بھروسا نہیں کیا جا سکتا۔اقبال کے مطابق  ان قوموں کے اصولِ زندگی پائیدار نہیں ہیں نیز ان کے معاہدے کانچ کے برتنوں کی طرح کمزور اور ناقابلِ اعتماد ہیں۔ ان کے علوم و فنون اور خیالات میں بھی پختگی اور افادیّت نہیں پائی جاتی۔  اس لیے جو علوم و فنون انہوں نے ایجاد کیے ہیں ان کو بیشک حاصل کر سکتے ہو ان اقوام کی تقلید مت کرو۔
یورپی اقوام کی تقلید سے بہتر سے ہے کہ خود مختار بن جاؤ۔ اگر شراب پینا چاہتے ہو تو ان پیالیوں میں پیو جو ہندوستان کی مٹی سے بنے ہوئے ہیں یعنی اپنے وطن کی مٹی اور اپنی تہذیب سے محبت کرو۔  شراب کو اردو شاعری میں محبت کے استعارے کے طور پر بھی استعمال کیا ہے۔ اقبال خود ساقی، شراب، مینا، ساغر جیسے الفاظ کو اردو شاعری کی روایت سے لیتے ہیں۔ نظم ساقی نامہ میں و خدا سے دعا کرتے ہوئے چودہ سو سال پرانے اسلام کی دعا یوں مانگتے ہیں
شرابِ کہن پھر پلا ساقیا                    وہی جام گردش میں لا ساقیا
اقبال اپنے دور کے اُن مفکرین میں سے ہیں جو یورپ کی تقلید کے بجائے  اپنے دین کے اصول کے مطابق زندگی گزارو۔  مشرق اور ہندوستان کی تہذیب ہی ہمارے لیے، اپنی تہذیب، مضبوط اور مستحکم ضابطہ حیات ہے۔  ہم یورپ کے اصولوں پر چل کر کامیاب دنیا اور آخرت نہیں اپنا سکتے۔ اقبال یورپ کی تہذیب کے متعلق لکھتے ہیں
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی                               جو شاخ نازک پہ آشانہ بنے گا نا پائدار ہو گا
نظم جاوید کے نام تشریح “دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر تشریح۔

شعر 4۔ میں شاخِ تاک ہوں میری غزل ہے میرا ثمر
مرے  ثمر سے مئے لالہ فام پیدا کر
تشریح۔ نظم جاوید کے نام میں علامہ اقبال خود کو شاخ تاک یعنی انگور کی شاخ سے تشبیہ دے رہے ہیں۔وہ کہہ رہے ہیں کہ میں  انگور کی بیل ہوں اور میری غزل یعنی میری شاعری ہی میرا پھل ہے۔ اے جاوید/ نوجوان تُو میرے اس پھل (شاعری/ غزل) سے اپنے لیے (مئے لالہ فام) لالہ کے پھول جیسے رنگت والی سُرخ شراب تیار کر ۔
علامہ اقبال نے خود کو انگور کی بیل سے اور اپنے کلام کو خوشۂ انگور سے تشبیہ دی ہے اور اپنے بیٹے کے ذریعے ملت کے نوجوانوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ اپنے بزرگوں کے افکار ، خیالات، نظریات، اور تجربات سے ”مئے لالہ فام“ پیدا کرو، مطلب یہ ہے کہ میں نے اپنے کلام میں جو  اسرار و رموز بیان کیے ہیں، اُن کی معرفت حاصل کر کے پوری طرح ذہن نشین کرو، اُن پر کار بند ہو جاؤ اور یوں اپنے اندر مذہبی، مِلّی اور سیاسی شعور پیدا کرو۔  ساتھ ہی اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اور اپنا مقام پیدا کرنے کے لیے میری شاعری سے بھر پور فائدہ اٹھاؤ۔  نظم جاوید کے نام تشریح “دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر تشریح۔

شعر 5۔ مرا طریق امیری نہیں ، فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
تشریح۔ نظم جاوید کے نام کے اس شعر میں علامہ اقبال اپنے بیٹے کی گراموفون لانے کی فرمائش کا جواب دے رہے ہیں۔لیکن اگر اسے ایک بڑے کینوس پر دیکھا جائے تو ملت کے نوجوانوں سے ان کے آبا و اجداد کی زندگی اور اُن کے زندگی گزارنے کے طریقے سے متعلق آگاہ کر رہے ہیں۔
اقبال کہتے ہیں کہ میرا زندگی گزارنے کا طور طریقہ امیری نہیں، درویشی ہے۔ جاوید تو بھی  اس طریقے کو اپنا کر اپنی زندگی کا مقصد بنا لے اور اپنی خود داری قطعات نہ بیچ بلکہ غریبی ہی میں نام پیدا کر۔
درویش اور غریب خدا کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ اسے دنیاسے غرض نہیں ہوتی اور نہ ہی اسے دنیا کا مال جمع کرنے کی لالچ ہوتی ہے۔ جبکہ امیر کے پاس دولت آتی رہتی ہے پھر بھی اس کا پیٹ نہیں بھرتا۔ اقبال کے مطابق اصل دولت امیری میں نہیں بلکہ فقیری میں ہے۔
اگرچہ زر ہے زمانے میں قاضی الحاجات                          جو فقر سے ہے میسر تونگری سے نہیں
اگر جواں ہوں میری قوم کے جسور و غیور                       قلندری میری کچھ کم سکندری سے نہیں
میری قوم کا ایک قلندر، مال و دولت دنیا جمع کرنے والے سکندر سے زیادہ بڑا مقام رکھتا ہے۔ دنیا کے مال کی لالچ نہ ہونا، مومن کی نشانی ہے۔ اور اقبال چاہتے ہیں کہ نوجوان مومن کی صورت میں انسان کامل بن جائیں۔
انسان دولت، عزت اور شہرت ہی حاصل کرنے کے لیے اپنی خودی کو بیچ دیتا ہے ۔ اقبال کے مطابق اگر انسان ہمت اور استقلال سے کام لے تو غریبی میں بھی نام پیدا کر سکتا ہے لہذا نام پیدا کرنے کے لیے ضمیر فروشی کی ضرورت نہیں۔  کیونکہ خودی ہی مومن کا سب سے بڑا سرمایہ ہے ۔ اس سے بڑی دولت اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ یہی خودی ہے جو  انسان کو خدا کے قریب کر دیتی ہے اور اس کا محبوب بندہ بنا دیتی ہے۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے               خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
نظم جاوید کے نام تشریح “دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر تشریح۔

 

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں

اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ Ilmu علموبابا
اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔
ہمارے فیس بک ، وٹس ایپ ، ٹویٹر، اور ویب پیج کو فالو کریں، اور نئی آنے والی تحریروں اور لکھاریوں کی کاوشوں  سے متعلق آگاہ رہیں۔

Follow us on

Leave a Reply

Ilmu علمو