خطۂ پیر پنچال کی دھرتی سے تعلق رکھنے والی ایک قابلِ فخر شخصیت ڈاکٹر مسعود چودھری کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ آپ کی پیدائش تحصیل مینڈر کے ایک گاؤں کالا بن میں 10 مارچ 1944ء کو بابو فیض احمد کے گھر پر ہوئی۔ پچپن سے ہی آپ کی زندگی میں ایک بڑی شخصیت کے نقوش نظر آتے تھے۔ گویا اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنی قوم کی سیاسی ، سماجی اور تعلیمی خدمات میں اعلی کارنامے انجام دیے، جن کے عوض انہیں ”بابائے قوم“ کے خطاب سے نوازا گیا۔
ڈاکٹر مسعود احمد چودھری کی شخصیت اور ان کے کارنامے واقعی قابل تحسین ہیں۔ انہوں نے اپنے علاقے پیر پنجال کی تعلیمی اور سماجی بہتری میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ان کی قیادت میں بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی کا قیام ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، جو نہ صرف مقامی نوجوانوں کے لئے بلکہ پورے خطے کے لئے ایک امید کی کرن بن کر ابھری ہے۔
ڈاکٹر مسعود چودھری کا گجر دیس چیریٹیبل ٹرسٹ کا قیام بھی ان کی سماجی خدمات کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ ٹرسٹ گجر بکروال قبیلے کے لوگوں کے حقوق اور ثقافت کی حفاظت کے لئے ایک اہم پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے اس قبیلے کے مسائل کو سمجھا اور ان کے حل کے لئے عملی اقدامات اٹھائے، جو ان کی انسانی ہمدردی اور سماجی ذمہ داری کا ثبوت ہے۔
یونیورسٹی کا قیام ایک بڑا چیلنج تھا، خاص طور پر اس علاقے میں جہاں تعلیم کی کمی اور معاشرتی مسائل موجود تھے۔ ڈاکٹر چودھری کی محنت، عزم، اور وژن نے اس خواب کو حقیقت میں بدل دیا۔ یونیورسٹی نے نہ صرف مقامی طلبہ کو تعلیم فراہم کی بلکہ یہاں کے لوگوں میں شعور بیدار کرنے اور ترقی کے نئے راستے کھولنے میں اہم کردار ادا کیا۔
ان کی خدمات کا اثر آج بھی محسوس کیا جاتا ہے، اور وہ ایک ایسی شخصیت تھیں جنہوں نے نہ صرف اپنے علاقے کی تقدیر سنواری بلکہ علم و ادب کے میدان میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا۔ ڈاکٹر مسعود احمد چودھری کا نام ہمیشہ ان کی خدمات اور قربانیوں کے ساتھ جڑا رہے گا اور ان کی کوششیں آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوں گی۔
تحریر | ڈاکٹر ساجد منیر |