Table of Contents
کالم کیسے لکھیں
کالم کیسے لکھیں یا”کالم کیسے لکھا جاتا ہے” اس سے پہلے آپ یہ جانیں کہ “پیراگراف کیسے لکھا جاتا ہے؟” آئیے ! اس پر بات کرتے ہیں۔ یاد رکھیں! پیراگراف جملوں کا ایک گروہ ہوتا ہے جو حسب ذیل عنوانات پر لکھا جاسکتا ہے: ایک خیال۔ ایک چیز۔ ایک جانور۔ ایک پودا۔ ایک شخص۔ زندگی کا ایک پہلو۔ ایک واقعہ۔ ایک حادثہ۔ ایک خاصیت وغیرہ۔ ان عنوانات کی کوئی حتمی فہرست نہیں تیار کی جاسکتی۔ اسے کسی بھی عنوان پر لکھا جاسکتا ہے۔ کسی بھی خیال کے بارے میں جس میں ایک “عنوانی جملہ” موجود ہو۔ پیراگراف کو دوسرے جملے عنوان کے بارے میں مزید اور اضافی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ پیراگراف لکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ منتخب کیے ہوئے عنوان پر بحث کریں۔ اس کے اصل، مرکزی خیال کے بارے میں اپنے آپ سے سوالات پوچھیں جو اس عنوان سے متعلق ہوں۔ پھر ان جوابات کو ایک ترتیب سے ایک پیراگراف کی شکل میں جمع کردیں۔ مثال کے طور پر سامنے ایک ٹیبل اور بینچ رکھی ہوئی ہے۔ مزید جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے ویب پیج علمو۔
اب آپ سوال کریں کہ “یہ کیا ہے؟” جواب: “یہ ایک بینچ ہے۔” سوال: ”یہ کس چیز کی بنی ہوئی ہے؟“ جواب: ”یہ لکڑی کی بنی ہوئی ہے۔“ سوال: ”اس کو کس نے بنایا ہے؟“ جواب: ”اس کو بڑھئی نے بنایا ہے۔“ سوال: ”اس کا کیا رنگ ہے؟“ جواب: ”یہ گہرے بھورے رنگ کی ہے۔“ سوال: ”اس کے کتنے پائے ہیں؟“ جواب: ”اس کے چار پائے ہیں۔“ سوال: ”کیا اس کی کوئی پیٹھ یا پشت ہے؟“ جواب: ”ہاں! اس کی پشت ہے۔“ سوال: ”اس کی پشت کس چیز کی بنی ہوئی ہے؟“ جواب: ”اس کی پشت بھی لکڑی کی بنی ہوئی ہے۔“ سوال: ”اس پر کتنے آدمی بیٹھ سکتے ہیں؟“جواب: ”اس پر پانچ آدمی بیٹھ سکتے ہیں۔“سوال: ”اس کی کیا قیمت ہے؟“ جواب: ”اس کی قیمت 800/= روپے ہے۔“سوال: ”اسے کہاں سے خریدا جاسکتا ہے؟“جواب: ”اسے کسی فرنیچر مارٹ یا بڑھئی کی دکان سے خریدا جاسکتا ہے۔”
اب ان تمام جوابی باتوں کو ایک ایک ترتیب سے جوڑ دیں تو پیراگراف بن جائے گا۔ ”یہ ایک بینچ ہے۔ یہ لکڑی کی بنی ہوئی ہے۔ اس کو بڑھئی نے بنایا ہے۔ یہ گہرے بھورے رنگ کی ہے۔ اس کے چار بازو ہیں۔ اس کی ایک پشت ہے جو لکڑی کی بنی ہوئی ہے۔ اس پر پانچ آدمی بیٹھ سکتے ہیں۔ اس کی قیمت 800 روپے ہے۔ اسے کسی فرنیچر یا بڑھئی کی دکان سے خریدا جاسکتا ہے۔“ یہی طریقہ ہے ہر موضوع پر پیراگراف لکھنے کا۔ پھر اسی قسم کے چند پیراگرافوں کو ملاکر مضمون بنادیا جاتا ہے۔
کالم لکھنے کی منصوبہ بندی
کالم نویسی کے لیے سب سے پہلے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ اس کے لیے عنوان کا انتخاب کرکے مضمون کا خاکہ تیار کرنا پڑتا ہے جس کے لیے خیالات کی فہرست بنائی جاتی ہے جو اس عنوان کے بارے میں مضمون نویس کے ذہن میں آتے ہیں۔ ایک دلچسپ مضمون کی شروعات کے لیے کوئی تجویز یا کسی ضرب المثل یا کسی نظم کے مصرعے سے کام لیا جاتا ہے۔ اس کے ہر خیال پر ایک پیراگراف یا نثرپارہ لکھا جانا چاہیے جس میں ایسی معلومات شامل ہونی چاہیے جو مضمون کے قارئین کے لیے قابل قبول ہوں۔ اس کے بعد عمل درآمد کا مرحلہ ہے۔ کامیاب مضمون نویسی کے لیے زبان پر عبور حاصل ہونا ضروری ہوتا ہے جسے اظہاری صلاحیت کہتے ہیں۔ آخر میں مضمون کا اختتامیہ ہوتا ہے۔ اختتامیہ کو اثر انگیز ہونا چاہیے جن کو بڑی دانشوری کے ساتھ سوچنا چاہیے۔ اسے مضمون کے مرکزی خیال کا نچوڑ ہونا چاہیے۔
سب سے آخر میں نظر ثانی کی جاتی ہے۔ طرزِ تحریر (رائٹنگ سٹائل) صاف، سلیس، دلفریب، دل کش، فطری اور قابل فہم ہونا چاہیے۔ مضمون نویس کو اپنے مضمون میں غلط العام، زبان زد خاص و عام کا استعمال، غیردلچسپ عمومی فقروں کا استعمال، بے ہودہ و لغو زبان، ثقیل جملے، فحش فقرے، مبہم باتیں، غیرمستند مخفف الفاظ کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔ اچھے مضامین میں یہ خصوصیات ہونی چاہیے۔ احساسات کے مطابق نفس مضمون کی بالکل صحیح وضاحت کرنی چاہیے۔ خیالات میں ہم آہنگی ہونی چاہیے۔ صحیح طرح عنوان سے مطابقت قائم رکھنی چاہیے۔ موضوع سے ہٹنا نہیں چاہیے۔ مضمون کو کئی پیرگرافوں میں تقسیم کرنا چاہیے۔ ایک جملے کا دوسرے جملے سے اور ایک پیراگراف کا دوسرے پیراگراف سے موزوں منطقی ربط قائم رکھنا چاہیے۔ خیالات میں تسلسل برقرار رکھنا چاہیے۔
کالم نگار کے اوصاف
ماہرینِ صحافت نے کالم نگارکے 12 اوصاف بیان کیے ہیں۔ آئیے !ان اوصاف میں سے چند ایک کا جائزہ لیتے ہیں۔ کالم نگار کا مطالعہ بے حد وسیع ہونا چاہیے۔ اسے ادب، نفسیات، فلسفہ، سائنس، اقتصادیات، سیاسیات، غرضیکہ ہر شعبہ زندگی کے متعلق ضروری معلومات حاصل ہونی چاہییں۔ اگر کالم نگارکسی خاص شعبے پر کالم لکھنا چاہتا ہے تو اس شعبے کے متعلق اس کی معلومات نہ صرف وسیع بلکہ تازہ ترین بھی ہونی چاہییں۔ آپ خود سوچیں اگر کالم نگار کا مطالعہ وسیع نہیں ہوگا تو وہ رہنمائی کا فریضہ کیسے سر انجام دے سکے گا؟ کالم میں دیے گئے کسی بھی حوالے کے لیے ضروری ہے کہ وہ درست ہو۔ اس میں غفلت سے بعض اوقات ایسی غلطی ہوجاتی ہے جس سے کالم نگار کو شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے اور پڑھنے والوں میں اس کی ساکھ خراب ہوتی ہے۔ اس کا علاج مطالعے کی وسعت اور تحقیق کی عادت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔
کالم نگارکی دوسری اہم خوبی یہ ہے کہ اسے زبان وبیان پر عبور حاصل ہو۔ جس زبان میں کالم لکھا جا رہا ہے، اس زبان کی باریکیوں اور قواعد سے بخوبی واقف ہو۔ صحافتی قوانین اور ضابطہ اخلاق سے واقفیت رکھتا ہو۔ ایک طرف تو اسے صحافتی قوانین کو پیش نظر رکھتے ہوئے کالم لکھنا ہوتا ہے، دوسری طرف اخبار کی پالیسی اور قارئین کے مزاج کا خیال بھی رکھنا ہوتا ہے۔ اخباروں میں کالم نگاروں پر عموماً کوئی پابندی عائد نہیں کی جاتی، لیکن قانونی طور پر کالم نگارکی تحریر کا پرنٹر اور پبلشر کو بھی ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے کالم نگار سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ جہاں اس کی تحریریں قارئین کے لیے معلومات فراہم کریں، وہاں اس کی تحریروں سے اخبار کے لیے بھی کوئی مسئلہ نہ ہو، اس لیے کالم نگار کو صحافتی قوانین اور ضابطہ ہائے اخلاق سے مکمل واقفیت ہونی چاہیے۔ صحافتی قوانین اور اصول وقتاً فوقتاًتبدیل بھی ہوتے رہتے ہیں۔
نوآموزوں کے لیے
گذشتہ سال ”کالم نگاری “کے موضوع پر ہم نے مدارس اور کالج ویونیورسٹی کے طلبہ کو لیکچر دیا تھا، اس کا خلاصہ جو اس وقت میرے ذہن کے کینوس پر موجود ہے، وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ کسی بھی موضوع پر لیکچر دینا تو آسان ہوتا ہے، لیکن اصل بات عمل کی ہے ۔ آپ جو کالم نگاری اور مضمون نویسی سیکھنا چاہتے ہیں تو اس کا مطلب ہے اس موضوع سے آپ کی دلچسپی ہے۔ کچھ نہ کچھ لکھنا تو آپ کو آتا ہی ہے، لہٰذا آج کا سوال یہ ہے ہمارے لکھے ہوئے میں بہتری کیسے آئے؟ ہم اس مختصر گفتگو میں اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کریں گے۔ اس کے لیے چند چیزوں کاہونا ضروری ہے۔
ایک تو ذوق وشوق ہو۔ لکھنے کا ایسا شوق ہو کہ ہر وقت اس کے ذہن میں کوئی نہ کوئی کالم چل رہا ہو۔ دوسرے نمبرپر اس کے لےے وسیع مطالعہ ہو۔ کالم کے لےے مواد درکار ہوتا ہے، لہٰذا اس کے لےے ہر موضوع کا مطالعہ ضروری ہے۔ آپ جانتے ہیں ہم لوگوں تک جو معلومات آتی ہیں وہ ”تھرڈ کلاس“ قسم کی معلومات ہوتی ہیں۔ حکومتوں میں کیا ہورہا ہے؟ عالمی سیاست میں کیا ہورہا ہے؟ ہم لوگوں کو کچھ پتا نہیں ہے۔ اصل معاملات اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر حکومت کے ہوتے ہیں۔ تیسرے نمبر پروہ باتیں ہوتی ہیں جو میڈیا کے اہم ترین افراد کے پاس آتی ہیں۔ چوتھے نمبر پر ہم اخبارات پڑھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ شاید اس کی حقیقت یہ ہے۔ اصل کہانی ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتی۔ ہم لوگ جب لکھتے ہیں تو وہی سطحی باتیں اور سرسری معلومات لکھ دیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب مضمون چھپنے کے لےے ایڈیٹر اور ذمہ دار کے پاس پہنچتا ہے تو وہ اسے پڑھتا ہے اور دیکھتا ہے کہ یہ تو سرسری بات ہے، سطحی اور بودی معلومات ہیں۔ اس سبب سے آپ کا مضمون چھپتا نہیں ہے۔
نوآموز کالم نگار سمجھتے ہیں کہ تحریر لکھنے کے بعد ان کا کام ختم ہوگیا ہے۔ نہیں میرے بھائی نہیں، ایسا ہر گز نہیں ہے۔ کالم لکھنے کے بعد کم از کم ایک مرتبہ اسے ضرور پڑھنا چاہیے۔ کالم کا دوبارہ جائزہ لیتے ہوئے اگر درج ذیل امور کا خیال رکھا جائے تو اس سے بہتر نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔ ضروری ترمیم اور لازمی تصحیح کی جائے۔ بعض اوقات کالم نگار کا ذہن اتنی تیزی سے کام کرتا ہے کہ اس کا قلم ذہن کا ساتھ نہیں دے پاتا اور بہت سے الفاظ تحریر ہونے سے رہ جاتے ہیں، اس لیے کالم کا دوبارہ مطالعہ کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھیں کہ کہیں کوئی لفظ رہ نہ جائے۔ اگر کوئی لفظ بلا ضرورت لکھا گیا ہو تو اسے کاٹ دیا جائے۔ اگر کالم میں کاٹ چھانٹ زیادہ ہوجائے تو اسے دوبارہ صاف صاف لکھنا چاہیے۔ کالم دوبارہ لکھتے ہوئے اس میں اچھے اضافے بھی کیے جاسکتے ہیں اور غیر ضروری چیزوں کو ختم بھی کیا جاسکتا ہے۔ اگر کسی لفظ کے متعلق شک اور شبہ ہوکہ اس کے ہجے یا املا درست نہیں ہے یا یہ مناسب طور پر استعمال نہیں ہورہا تو اس سلسلے میں لغت یا کسی استاد سے مدد لینی چاہیے۔
اسی طرح اگر آپ نے کالم میں اعداد وشمار، تاریخی اورتحقیقی معلومات دی ہیں تو ان کے درست ہونے کا یقین کرنے کے لیے متعلقہ مراجع سے استفادہ ضرور کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں ماہرین سے مشورہ کرنے میں بھی جھجک اور شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ کالم نگار کوچاہےے کہ اپنے کالم کو قارئین کی نظر سے بھی پڑھے۔ اگر ایسا محسوس ہوکہ کسی جگہ کالم کے مندرجات کا صحیح ابلاغ قارئین تک نہیں ہوگا یا کم ہوگا تو اس صورت میں کالم کی اس خامی کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
نو آموز کالم نگار کے لیے یہ بڑی خوش نصیبی سمجھی جاتی ہے کہ اسے کسی ایسی شخصیت کی رہنمائی حاصل ہوجائے جو اس کی خام تحریر کو اپنی اصلاح سے کندن بنادے، یا ایسا پڑھا لکھا سمجھ دار دوست میسر ہوجائے جسے وہ کالم دکھا کر مشورہ لے سکے اور اس کی ”مشاورتی اصلاح“ کی روشنی میں اپنے کالم کو بہتر سے بہتر کرسکے۔
کالم نگاری اور مضمون نگاری سیکھنے کے پانچ آسان طریقے
یاد رکھیں !شروع شروع میں از خود خالص طبع زاد تحریر لکھنا مشکل ہوتا ہے، اس لیے یہاں چند ایسے طریقے تجویز کیے جاتے ہےں جن کی مدد سے نو آموز لکھاری رفتہ رفتہ استعداد اور تجربہ حاصل کر سکتے ہیں۔ ایک طریقہ ”روزانہ ڈائری لکھنا“ ہے۔ انسان کی زندگی ایک داستان ہے تو اس کی زندگی کا ہر دن اس داستان کا ایک ورق۔ اگر کوئی انسان اس ورق میں روز مرّہ پیش آنے والی کہانی کا خاکہ بنانا اور اس میں رنگ بھرنا سیکھ جائے تو وہ اچھا لکھاری بن سکتا ہے۔ اس پر بے شمار تجربات گواہ ہیں۔
دوسرا طریقہ ”کہانی لکھنا“ ہے۔ننھی منی ، چھوٹی چھوٹی، مختصر اور دلچسپ کہانیاں لکھنے سے آہستہ آہستہ لمبی اور طویل تحریر لکھنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ شروع شروع میں مختصر اخلاقی کہانیاں لکھنے کی مشق کریں اور کسی استاد سے اصلاح لیتے رہیں۔تیسرا طریقہ ”کسی تحریر کی تلخیص وتسہیل“ ہے۔ کسی بڑے ادیب کی تحریر کو غور سے پڑھ کر اس کا ایسا خلاصہ نکالنا جس میں معنی ومفہوم تو اصل تحریر کا ہو، البتہ الفاظ اور اندازِبیان نو آموز لکھاری کا اپنا ہو۔
اس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی معیاری تحریر کو لے کر اسے تین مرتبہ پڑھا جائے۔ پہلی مرتبہ سمجھنے کے لیے، دوسری مرتبہ سمجھانے کے قابل ہونے کے لیے، تیسری مرتبہ آسان اور مختصر ودلچسپ انداز میں تلخیص وتسہیل کرنے کے لائق ہونے کے لیے۔ تین مرتبہ مطالعہ کرلینے اور اہم چیزوں پر نشان لگانے کے دوران اگر کوئی مشکل یا تحقیق طلب لفظ آجائے تو اس کا معنی دیکھ کر متبادل آسان لفظ منتخب کریں، پھر تحریر کا ایک ایک پیرا لے کر اس کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیں۔ اس طرح مشق کرنے سے بھی لکھنا آ جاتا ہے۔
چوتھا طریقہ ”مکالمہ“ ہے۔ تحریر سیکھنے کا ایک طریقہ دو چیزوں کے درمیان فرضی مکالمہ ہے۔ مثال کے طور پر ایک آدمی شہر میں رہنے کو ترجیح دیتا ہے، دوسرا دیہاتی زندگی کادلدادہ ہے۔ ایک چھٹی کا دن گھر پر سستاتے ہوئے گزارنے کا عادی ہے ا ور دوسرا فارغ وقت میں باہر جاکر شکار یا تفریح کا شوقین ہے۔ ایک خواتین کی جدید تعلیم کی افادیت کا قائل ہے جبکہ دوسرا اسے تباہ کن اور مضر سمجھتا ہے۔ ایک کو گرمی کا موسم اچھا لگتا ہے اور دوسرے کو کڑاکے کی سردی میں زندگی کا لطف آتا ہے۔ اس طرح کے دو متضاد نظریات کے حامل افراد یا اشیا کے درمیان مکالمہ لکھنے سے مافی الضمیر کے اظہار کی بہترین مشق ہوجاتی ہے۔
پانچواں طریقہ ”مراسلہ اورمکتوب نگاری“ ہے۔ کسی قومی وملّی مسئلے پر اخبارات میں مراسلہ بھیجنا یا اپنے احباب کو سنجیدہ گپ شپ کے انداز میں خط لکھنا بھی تحریر کی تربیت کا بہترین ذریعہ ہے۔ مختصر، بامعنی اور جاندار انداز میں تحریر کیے گئے مراسلے اور خطوط تحریر کی صلاحیت پروان چڑھانے کا موثر طریقہ شمار ہوتے ہیں۔ نوآموز طلبہ اس سے بھی اپنی مشق کا آغاز کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی طریقے ہیں۔
(تحریر : انور غازی)
We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)
اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں
اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔ تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ Ilmu علموبابا
اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔