Table of Contents
یاسمین حمید کی کتاب “ایک اور رخ “۔ تبصرہ شہناز نقوی
یہ آرٹیکل “یاسمین حمید کی کتاب “ایک اور رخ “۔ تبصرہ شہناز نقوی” ایک تبصرہ و تجزیہ ہے۔ شہناز نقوی کی تحریر میں یاسمین حمید کی کتاب “ایک اور رخ” ، اس میں شامل مضامین اور دیگر جزئیات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ مزید معلومات کے لیے ہمارے ویب پیج علمو کو ملاحظہ کیجیے۔

یاسمین حمید کی کتاب “ایک اور رخ “جس میں انکے تحریر کردہ پندرہ مضامین ہیں ۔کہتی ہیں
” مضامین لکھنے کا سلسلہ چند برس پہلے ہوا ۔ ” ایک اور رخ “میں شامل مضامین اس سے پہلے ادبی جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں ۔ پڑھنے والے انہیں تنقیدی مضامین کہتے ہیں ۔ تنقید نگاری باقاعدہ ایک علم ہے ۔ رسمی اور پیشہ وارانہ حثیت میں تنقید نگار یا نقاد ،فن پارے کی قدر پیمائی کرنے کے علاوہ ،کھرے کھوٹے کو بھی الگ کرتے ہیں ۔ میں نے جب بھی کوئی مضمون لکھا ،میرے پیش نظر ایک ہی بات رہی ہے ،اپنے موضوع کو سمجھنے کی کوشش ۔ ادبی معاملات سے متعلق نظریات و تصورات کو ، تخلیق کی پیچیدگیوں کو ، ادبی معیارات سے متعلق مباحث کواور دوسری بہت سی باتوں کو سمجھنے کےلئے بعض اوقات صرف پڑھنا کافی نہیں ہوتا کچھ صورتیں اس سے زیادہ کا تقاضا کرتی ہیں ۔ میرے لئے مضمون لکھنا ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے بہت سے تصورات واضح ہونے لگتے ہیں ۔ ذہن میں انکے متعلق بے ترتیبی کم ہو جاتی ہے ۔ سیکھنا اور سیکھتے رہنا ،جاننا اور مزید جاننے کی خواہش رکھنا شاید زندگی کا سب سے بڑا ” ایڈوینچر ” اور انتہائی بھر پور تجربہ بھی “
پہلے مضمون میں ” جدید نظم میں طرز احساس کی تبدیلیاں” ، یہ لفظ یعنی جدید پچھلے تقریباً ڈیڑھ سو برس میں نظم کے لئے استعمال ہوا ہے “۔یاسمین حمید نے اس مضمون میں اردو ادب کی مختلف تحریکوں کا ذکر کیا ہے جس کے تحت نظم نے ہیئت اور مضامین ، کے حوالے سے کیسے اپنے سفر کو جاری رکھا ۔ ان کا کہنا ہے کہ نظم نےاصلاحی ، کبھی ترقی پسندی ، رومانوی ، مقصدی ، روائتی اور جدت کے امتزاج سے کیسے نئے موسموں کی آمد کیساتھ یوں دھنک رنگ کے پیراہن بدلے ۔ زمانوں کے ہمراہ کیسے اپنا سفر جاری رکھا ۔کہتی ہیں
” میرے خیال میں اگر اردو نظم کے لئے پہلے غیر مقفی یا معری اور بعد میں آزاد ہیئت کا تجربہ نہ کیا جاتا تو نئے طرز احساس کو مناسب میڈیم نہ ملتا “
پھر انہوں نے میرا جی ،راشد کے ذکر کیساتھ تصدق حسین خالد کا ذکر کیا کہ انکا کار نامہ ایسا ہے جو بالکل منفرد ہے اور ہیئت کی ایجاد کے ضمن میں بہت اہم ہے ۔ انکے ” سرود نو ” کے لئے لکھے گئے تعارفی مضمون میں ۔ نظم میں ہئیت کے دوسرے بڑے تجربے کا ذکر کرتی ہیں کہ انیس سو ساٹھ کی دھائی میں نثری نظم کا آغاز اور اس کی قبولیت کے طویل سفر کے بعد نثری نظم میں آہنگ کے ہونے یا ہونے پر جامع حوالہ جات کے ساتھ بات کرتی ہیں ۔ یہاں وہ قمر جلیل ، مبارک احمد ،احمد ہمیش اور عبدالرشید کی نظموں کا ذکر کیا ہے ۔
کہتی ہیں ایک ادیب اور شاعر کا منصب بھی یہی ہے کہ وہ اپنے زمانے کے اجتماعی تجربے اور فکر کو محسوس کر سکے اور حالات واقعات کی خارجی اور باطنی واردات کے بیان کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کی حسی تاریخ بھی رقم کرے ۔ دوسرے مضمون میں انہوں نے ” شعری تخلیق میں نئی پرانی جہات کا تصور ” مفصل بیان کیا ہے کہ ہم نیا یا پرانا کسے کہتے ہیں یا سمجھتے ہیں ۔ زمانہ عہد سے قریب تر ہے یا رواں عہد سے فاصلے پر ۔ اس ضمن میں مذید لکھتی ہیں کہ :
“شاعری میں نئے پرانے کے تعین کے لئے شعری تخلیق سے کم سے کم تین عناصر یا جہات کا جائزہ لیا جا سکتا ہے ۔ “
مضامین اور اسلوب ، زبان یا لفظیات کو اسلوب کے ذیلی عناصر میں بھی شمار کیا جا سکتا ہے ۔ انکے خیال میں ادب اگرچہ کسی قسم کی قیود کا پابند نہیں ہے ۔
زبان ،اسلوب ،الفاظ کے استعمال، داخلی اور ذاتی ،خارجی جہت ، تجربات و احساسات کو ماحول ،زمانہ ، سیاست ،تہذیب کے پس منظر میں نظم کے حوالے سے جامع تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔ نظم کے اس تاریخی سفر جو مختلف دہائیوں پر محیط رہا ،پر بات کرتے وہ ” رفیق سندیلوی کہ پہلی نظم ” غار میں بیٹھا شخص ” کو مثال کے طور پر شامل کرتی ہیں ۔
جاؤ اب روتے رہو
تم نہیں جانتے
اس دھند کا قصہ کیا ہے
دھند جس میں کئی زنجیریں ہیں
ایک پھول ،کسی شہد
کسی طائر کی
ایک رنگ ، کسی برق
کسی پانی کی
زلف و رخسار کی
لبوں چشم کی ،پیشانی کی
تم نہیں جانتے
اس نظم کا بنیادی مضمون نیا نہیں ہے ۔ زلف و رخسار ،لب و چشم ،پیشانی موجود ہے ۔ دھند مرکزی استعارہ ہے ۔ یہ کوئی بڑی نظم نہیں لیکن نئی نظم ہے ۔ تہہ دار فکر ، جزبہ ، کیفیت موجود ہے ۔
اسی مضمون میں اضافہ کرتے ہوئے وہ علی اکبر ناطق کی ایک نظم
” ریشم بننا کھیل نہیں ” کا حوالہ پیش کرتی ہیں ۔
ہم دھرتی کے پہلے کیڑے، ہم دھرتی کا پہلا ماس
دل کے لہو سے سانس ملا کر سچا نور بناتے ہیں
اپنا آپ ہی کھاتے ہیں اور ریشم بنتے جاتے ہیں
خواب نگر کی خاموشی اور تنہائی میں پلتے ہیں
صاف مصفا اجلا ریشم تاریکی میں بنتے ہیں
کس نے ۔۔۔
(تحریر : شہناز نقوی)
We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)
اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں
اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔ تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ Ilmu علموبابا
اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔