جوش کی شاعری ۔۔۔ عروج وشباب سے لے کر انحطاط اور کفروالحاد تک – (تبصرہ : ماہر القادری)

جوش کی شاعری ۔۔۔ عروج وشباب سے لے کر انحطاط اور کفروالحاد تک – (تبصرہ : ماہر القادری)

اگر میرے پاس وقت ہوتا اور خاطر خواہ فرصت میسر آتی تو میں تفصیل سے بتاتا کہ جناب جوش ملیح آبادی کی شاعری کس دور میں عظیم شاعری تھی، اور انتہائی عروج و شباب پر تھی ۔

جوش کی شاعری ۔۔۔ عروج وشباب سے لے کر انحطاط اور کفروالحاد تک - (تبصرہ : ماہر القادری)
جوش کی شاعری ۔۔۔ عروج وشباب سے لے کر انحطاط اور کفروالحاد تک – (تبصرہ : ماہر القادری)

مثلاً اپنی ملکہ سخن سے وہ خطاب کرتے ہیں  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لہجہ ملیح ہے کہ نمک خوار ہوں ترا
صحت زبان میں ہے کہ بیمارہوں ترا

کوہستانِ دکن کی عورت پر جو نظم کہی ہے اس کا ایک مصرعہ ہی اپنی جگہ مکمل نظم ہے ۔

سنگِ اسود کی چٹانیں آدمی کےروپ میں

گنگا کے گھاٹ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لکھتے ہیں:

“شراب ناب لئے نرگسی کٹوروں میں
لہو چمن کا رواں سرخ سرخ ڈوروں میں
سیاہ زلف پر آنچل خفیف آبی ہے
برہنہ پا ہے تو ہر نقشِ پا گلابی ہے”

اور

اے غنچہ دہنی حرف و حکایت کے کھلا پھول
اے کم سُخنی چشمۂ تقریر و بیاں ہو
اُکسادے چراغ آکے مرے خانۂ دل کا
قبل اس کے کہ شعلہ کی جگہ صرف دھواں ہو

ذاکر سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں :

“خانۂ برباد ہے دولت سرا تیرے لیے
اک دفینہ ہے زمین کربلا تیرے لئے

ذہن میں آتا ہو جس کا نام تلواروں کے ساتھ
اس کا ماتم اور ہو سکّوں کی جھنکاروں کے ساتھ

جوانی کے بارے میں کہتے ہیں :

“خوش ہو تو مسلماں، جو ناخوش ہو تو کافر
اور موج میں آجائے تو کافر نہ مسلماں
بانہوں کے چمن میں کبھی ایفا  شدہ وعدے
بستر کی شکن پر کبھی ٹوٹے ہوئے پیماں”

غزل کے بارے میں فرماتے ہیں :

“آنکھیں ہتھیلیوں سے مل نیند ہے چشمِ ناز میں
بھردے حنا کا رنگ بھی نرگسِ نیم باز میں”

“مجھ کو معلوم نہیں تم کو خبر ہو شاید
لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا”

ایک رباعی :

“غنچے تری زندگی پہ دل ہلتا ہے
بس ایک تبسم کے لیے کھلتا ہے
غنچے نے کہا یہ مسکرا کے بابا
یہ ایک تبسم بھی کسے ملتا ہے”

         کوئی شک نہیں کہ یہ وہ شاعری ہے جس نے اردو زبان و ادب کی آبرو بڑھائی ہے اور جس کی عظمت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔           جوش ملیح آبادی کا دوسرا دور ٹھیراؤ ہے، جہاں ان کی شاعری کی ترقی رک جاتی ہے، اور اس پڑاؤ پر وہ اپنی کہی ہوئی باتوں کا اعادہ کرتے ہیں۔  فکر و خیال اور آہنگ و لہجہ کے ساتھ تشبیہات و تراکیب تک کا اعادہ اور تکرار ۔۔۔۔۔۔           یوں سمجھئے کہ وہ اپنے آموختہ کو دہرائے جاتے ہیں ۔ یہ اعادہ کہیں اچھا لگتا ہے اور کہیں کَھلنے لگتا ہے ۔           مثلاً انہوں نے اب سے چالیس سال پہلے اپنے مجموعہ کلام ۔۔۔۔۔ روحِ ادب ۔۔۔۔۔۔۔ کے مقدمے میں لکھا :
چنانچہ وقت گزرتا گیا اور کمانی کھلتی چلی گئی۔ اس کمانی کھلنے کو انہوں نے نہ جانے کتنی بار اپنی شاعری میں دہرایا ہے، یہاں تک کہ ۱۹۵۸ میں انہوں نے جو نظم ۔۔۔۔۔ کیا گلبدنی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہی ہے، اس میں بھی اسی ترکیب کو نظم فرمایا ہے ۔

“یہ لے ہے کہ کھلتی ہوئی غنچے کی کمانی

مہکا ہوا یہ تن ہے کہ یہ رات کی رانی”
ان کی نظم جوانی اور پیری کا ایک شعر ہے
دھنکی ہوئی گھڑیوں میں کبھی اشکِ حنائی
بھیگے ہوئے لمحوں میں کبھی قطرۂ پنہاں
نامکمل خاکے میں دھنکے کو اس طرح دہرایا ہے:
دھنکے سونے کا آبشار کہ زلف
کھلتے بیلے کی چاندنی کہ عذار

ان کی ایک اور نظم ہے “کچوکا” ۔۔۔۔ اس میں پھر یہ دھنکا ہوا سونا آجاتا ہے :

“پگھلی ہوئی چاندی کی یہ پستی میں روانی
دھنکے ہوئے سونے کی بلندی پہ یہ پرواز”

پھر اپنی ایک رباعی میں وہ اس دھنکے کا اعادہ فرماتے ہیں:
رباعی کا چوتھا مصرعہ ہے ۔۔۔۔۔
“دھنکی ہوئی رات کی سیاہی ہے کہ زلف”

ایک دور ہے جوش صاحب کی شاعری کے عروج و شباب کا،  پھر دوسرا دور ٹھیراؤ اور اعادہ و تکرار کا ہے،  اور اس کے بعد جوش کی شاعری میں انحطاط شروع ہوجاتا ہے ۔  ان کی شاعری خاصی تیزی کے ساتھ گرتی اور پست ہوتی جارہی ہے ۔  حالانکہ شاعر جتنا بوڑھا ہوتا جاتا ہے اسی قدر اس کی فکر جوان اور پرجوش ہوتی جاتی ہے ۔

  علامہ اقبال کی شاعری ہمارے سامنے ہے ۔    بانگ درا جو ان کے دورِ جوانی کا مجموعہ کلام ہے، اس کے مقابلے میں بالِ جبریل اور ضربِ کلیم میں کتنی تازگی، رعنائی اور بلندیٔ فکر پائی جاتی ہے۔     جگر مرادآبادی  نے بسترِ مرگ پر جو غزل کہی اس کا مطلع کس قیامت کا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“مدت میں جو اس شوخ کا دیدار ہوا ہے
تا دیرسنبھلنا مجھے دشوار ہوا ہے”

جوش صاحب کے اسی دورِ انحطاط کی ایک نظم ۔۔۔۔۔۔۔۔ “خطاب صدرِ پاکستان “۔۔۔۔۔۔۔ میں فرماتے ہیں :

“ہم غریبوں کی زمینوں میں بصد ناز و غرور
چل چکا ہے بارہا کتنے امیروں کا غرور”

زمینوں نہیں زمین کہنا چاہئے تھا ۔  زمینوں اس وقت درست ہوسکتا تھا جب غریبوں سے صرف کاشتکار مراد لئے جائیں، زمینوں کھیتی باڑی کی اصطلاح ہے،   میر انیس کہتے ہیں:

بھلا تردّدِ بے جا سے ان میں کیا حاصل
اٹھا چکے ہیں زمیندار جن زمینوں کو

اور شاعر نے غریبوں کا لفظ صرف کسانوں کے لئے ہی نہیں عوام کے لئے استعمال کیا ہے ۔ پھر غرور کیا کوئی جادو ہے جس کے لئے چل چکا ہے ۔۔۔۔۔ کہا گیا ہے،  غرور کا چلنا، اس میں کتنی غرابت اور آورد پائی جاتی ہے ۔  شاعر کا بنیادی تصور یہ ہے کہ مغرور امیر، عوام کو پامال کرچکے ہیں، مگر جوش صاحب نے یہ بات کس بدسلیقگی کے ساتھ نظم کی ہے، اور سنئے :

“عین مفتوحوں کی لاشوں پر برائے جشن عام
ہوچکے ہیں نصیب کتنے فتح مندوں خیام”

شعر میں کوئی غلطی نہیں ہے،  مگر جوش جیسے قادر الکلام شاعر سے ہرگز اس کی توقع نہ تھی کہ وہ “عین” کو شعر میں اس طرح صرف کریں گے ۔

دیدہ ور جوہری لڑیاں پروتے وقت موتیوں کے تناسب کا لحاظ رکھتے ہیں ۔ اس تناسب میں جہاں کہیں بھی کمی نظر آئے گی دیکھنے والی نگاہ وہیں کھٹک محسوس کرے گی ۔
اسی نظم کا ایک اور شعر ہے
“آپ کو آگاہ کرتا ہے یہ رندِ بادہ خوار
قلبِ انساں کو سڑا دیتا ہے لمسِ اقتدار”

جس مصرعہ میں “قلبِ انساں” اور “لمسِ اقتدار” آئے ہوں، ان کےساتھ سڑا دیتا ہے، کتنا ان مل اور بے جوڑ لگتا ہے ۔ پھر خود “لمسِ اقتدار” نہایت ہی نامانوس ترکیب ہے ۔

“یہ وہ صہبا ہے جو پی لیتی ہے خود انسان کو
صرف دیوتا ہضم کر سکتے ہیں اس طوفان کو”

مصرعہ ثانی میں “دیوتا” نے پورے شعر کے لطف کو غارت کردیا،  دیوتا پڑھنے میں زبان کو جھٹکا لگتا ہے،   وجدان ناگواری محسوس کرتا ہے اور سامعہ الگ متوحش ہوتا ہے ۔

“کھا چکا ہے علم کو کیا کیا جہالت کاجنوں
پی چکے ہیں بے ہنر کتنے ہی فنکاروں کا خوں”

“کیا کیا” کا استعمال اس شعر میں خاصہ محلّ ِ نظر ہے۔  جنوں زاید ہے، جیسے برائے بیت لایا گیا ہے۔   اب رہا مصرعہ ثانی تو جوش صاحب ذرا فکر و تأمل سے کام لیتے تو یہ مصرعہ یوں ہوسکتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” پی چکے ہیں بے ہنر کتنے ہنرمندوں کا خوں”

“سب سے پہلے آپ سن لیں غور سے میری بات
دن پہ حملے کے لیئے دبکی ہوئی بیٹھی ہے رات”

مصرعہ اولٰی میں کس قدر ناپختگی پائی جاتی ہے ۔ اس دورِشیب میں اور یہ بچکانہ اندازِ بیان !

“ان کو کیا دل بیٹھ جائیں یا الٹ جائے زمیں
دام وہ اپنے کھرےکرتے ہیں اورکچھ بھی نہیں”

سپاٹ شعر، جس میں کوئی لطف نہیں ۔۔۔۔۔۔۔

“آپ کی بابت میں کہہ سکتا نہیں کچھ بالیقیں
آپ کو میں نے کبھی نزدیک سے دیکھا نہیں”

یہ شعر دندانِ تو جملہ درد ہانند کی نسل سے تعلق رکھتا ہے ۔ قریب قریب پوری نظم اسی صنعت، ناپختگی میں فرمائی گئی ہے ۔  زبان و ادب کی کتنی بڑی ٹریجڈی ہے کہ جوش جسے نئے نئے محاوروں اور ترکیبوں کا بادشاہ کہا جاتا تھا، آخری عمر میں اس قدر مفلس ہوگیا ۔

کہاں اس کی نظموں کی گھن گرج وہ کڑک اورطوفانوں کاشور، اور کہاں یہ آہنگ جیسے مونج کی رسی کے ٹکڑوں سے پتیلیاں مانجھنے کی آواز ۔

کیا گل بدنی ہے ۔۔۔۔۔۔ کا ایک بند ہے ۔

“یہ طے ہے کہ کھلتی ہوئی غنچے کی کمانی
مہکا ہوا یہ تن ہے یا رات کی رانی
لہجے میں یہ رو ہے کہ برستا ہوا پانی
لرزش میں یہ مژگاں ہے کہ پریوں کی کہانی
یہ سرخیٔ لب ہے کہ عقیقِ یمنی ہے
کیا گلبدنی، گلبدنی، گلبدنی ہے”

اس بند کے دوسرے مصرعہ میں یہ تن کتنا اکھڑا اکھڑا سا لگتا ہے، پھر یہ رات کی رانی، میں یہ حشو و زاید ہے۔
کاش یہ مصرعہ یوں ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“مہکا ہوا جسم ہے یا رات کی رانی”

یہ تن ۔۔۔۔ اور کہ ۔۔۔ یہ رات کی رانی ۔۔۔

یہ تمام کمزوریاں دور ہوجاتیں اور خاصہ چست مصرعہ ہوجاتا اور الفاظ کے درد بست کا جھول بھی باقی نہ رہتا ۔
پہلے مصرعہ میں محبوب کی ۔۔ لے ۔۔ کو کھلتی ہوئی غنچے کی کمانی ۔۔۔۔ یعنی غنچہ کی چٹک سے تعبیر کیا گیا ہے، مگر تیسرے مصرعہ میں اسی محبوب کے لہجے کی رو کو ۔۔۔۔۔۔۔ برستے ہوئے پانی ۔۔۔۔۔ سے تشبیہ دی گئی ہے ۔
یہ تضاد کیسا ؟

مصرعہ اولٰی میں غالباَ َ جوش صاحب نے محبوب کی نغمہ طرازی کو بیان کیا ہے۔ یعنی جب وہ گیت گاتا ہے تو کلیاں سی چٹکتی ہوتی ہیں ۔۔۔۔۔ اور تیسرے مصرعہ میں لہجہ سے محبوب کی بات چیت کرنے کا انداز مراد ہے ۔ تو اس صورت میں برستے ہوئے پانی کی تشبیہ محل نظر ہو جاتی ہے ۔ یوں کوئی نہیں بولتا کہ فلاں شخص کا لہجہ کیا ہے گویا پانی برس رہا ہے ۔

ہاں کسی کے لہجے کی تیزی دکھانی ہوگی تو اس طرح بول سکتے ہیں مگر اس بند کا جو انداز بیاں ہے، اس سے محبوب کے لہجے کی تیزی نہیں نرمی اور روانی کو شاعر بیان کرنا چاہتا ہے ۔ پھر یہ مصرعہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“لرزش میں یہ مژگاں ہے کہ پریوں کی کہانی”
۔۔۔۔۔۔۔۔ اہمال کے قریب پہنچ گیا ہے،    لررشِ مژگاں اور پریوں کی کہانی میں آخر کیا چیز وجہ شبیہہ ہے ؟

“آنکھوں میں ہے یہ کفر کہ ایمان ہے میرا
عارض پہ یہ ہے خال کہ حوروں کا ہے ڈیرا
پلکوں کی ہے یہ چھاؤں کہ مستی کا سویرا
رخ پر یہ لٹیں ہیں کہ دھواں دھار اندھیرا
قامت پہ یہ مکھڑا ہے کہ نیزے کی انی ہے
کیا گلبدنی، گلبدنی، گلبدنی ہے”

دوسرے مصرعہ میں خال عارض کو حوروں کے ڈیرے سے جو تشبیہہ دی گئی ہے، وہ شاعری کے ساتھ اچھا خاصہ مذاق ہے ۔

 وہ عارض ۔۔۔۔۔ کیا ہوا
اچھا خاصہ لمبا چوڑا میدان ہوا،
جس پر حوروں کا ڈیرا لگا ہوا ہو ۔

پھر یہ عجیب تلمیح اور نرالا مسلّمہ ہے بہت خوب ہے، مگر پانچواں مصرعہ مضحکہ خیز ہے ۔ محبوب کے قد و قامت کو سرو، شمشاد، اور صنوبر یا کھنچے ہوئے مستقیم خط سے تو تشبیہہ دیتے ہیں، مگر کوئ یوں کہے کہ اس کا قد بانس کی طرح سیدھا ہے تو اس میں کھلا ہوا ژم پایا جاتا ہے۔ نیزہ بانس کا بنا ہوا ہوتا ہے، اس شعر میں محبوب کے قد کو نیزے کے بانس سے تشبیہ دے کر جوش نے اپنے مشاہدے، ذوق اور شاعرانہ فنکاری کا برا نمونہ پیش کیا ہے۔

 نیزے کا بانس کوئی شک نہیں سیدھا ہوتا ہے، مگر محبوب کے قد کی رشاقت پیش کرنے کے لئے بانس سے اسے تشبیہ دینا محبوب کو ذلیل کرنا ہے۔   دوسری غلطی جو اس غلطی سے کسی طرح کم فاحش نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس مصرعہ میں یہ ہے کہ ۔۔۔۔
مکھڑے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کو نیزے کی انی کہا گیا ہے۔   محبوب کے چشم و ابرو اور مژگاں کو تو تیغ و سناں اور ناوک و کماں سے تشبیہ دیتے ہیں مگرمکھڑے کو انی کوئی نہ تو کہتا ہے نہ کسی نے آج تک کہا ہے،   نہ محبوب کا چہرہ دیکھنے میں انی نظر آتا ہے ۔    ذرا اس قد کا تصور تو کیجئے جو بانس کی طرح لمبا ہو اور اس پر صاحب قد کا مکھڑا نیزے کی انی کی مانند رکھا ہوا ہو ۔    جوش صاحب کو اپنا محبوب اگر ایسا ہی دکھائی دیتا ہے، اس کا قد نیزے کے بانس اور چَھڑ کی مانند سیدھا اور لانبا ہےاور مکھڑا نیزے کی انی جیسا ہے، تو پھر اس کی تعریف میں یہ مصرعے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“پیکر ہے کہ انسان کے سانچے میں گلابی
اور
مکھڑا ہے کہ پربت پہ کرن پھوٹ رہی ہے” یا “قامت ہے کہ برنائی سرو چمنی ہے” خلافِ حقیقت ہیں

جوش صاحب کی نظم ۔۔۔۔۔۔” اُٹھ اے ندیم” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کا ایک شعر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“اٹھ اے ندیم نظامِ جہاں بدل ڈالیں
زمیں کو تازہ کریں آسماں بدل ڈالیں”
زمین کوئی حقّہ ہے جو اسے تازہ کرنے کی تلقین کی جارہی ہے ۔ شاعر کہنا یہ چاہتا ہے کہ زمیں کو نئے سرے سے تازگی عطا کریں، وہ تجدید و انقلاب کی دعوت دے رہا ہے ۔ مگر زمین کو تازہ کریں سے یہ مفہوم ادا نہیں ہوتا ۔

نظم “روپ متی” کا ایک شعر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“رس کی بوندیں ہیں کہ نرم باتیں
آواز میں مالوے کی راتیں”

مالوے کی راتیں بڑی خوشگوار ہوتی ہیں مگر آوازسے ان کا کیا جوڑ ۔۔۔۔۔۔۔۔  اگر اس بے احتیاطی اور غیر ذمّہ داری کے ساتھ بے سوچے سمجھے تشبیہ و استعارے کو برتا جائے تو پھر یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس کی آواز کا لوچ کیا ہے بنارس کی صبح ہے، اس کا لہجہ شامِ اودھ ہے، اور اس کی لے کشمیر کی دوپہر ہے ۔

جوش کی شاعری میں اعادہ تکرار کی جو مثالیں ہم نےدی ہیں، ان میں جوش صاحب نے سونے کے لئے دھنکنا استعمال کیا ہے ۔

دھنکے ہوئے سونے کی بلندی پہ پرواز

سونا آخر کس کارخانے میں دھنکا جاتا ہے، اور سونے کو کس لئے دھنکتے ہیں ۔  انوکھا مشاہدہ اور عجیب تجربہ ہے ۔ بے راہ روی  کے اس دور میں جب کہ زبان و بیان کے تقاضوں کی لوگ عام طور پر پرواہ نہیں کرتے اور جو جی میں آیا ہے لکھتے اور نظم کرتے چلے جارہے ہیں، جب نئی نسل کے سامنے اس قسم کی شاعری کے نمونے آئیں گے تو ان کی ادبی بے راہ روی کو کس قدر شہہ ملےگی، اس تصوّر سے خدا جانتا ہے بڑا دکھ ہوتا ہے ۔

جناب جوش ملیح آبادی کی جس شاعری نے انہیں شاعرِ انقلاب بنایا ہے، اور یہ خطاب انہیں زیب بھی دیتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں غیر معمولی جوش اور روانی پائی جاتی ہے، ان کی انقلابی نظمیں ہوں یا رومانی، بڑے معرکے کی نظمیں ہیں ۔

 انہوں نے اردو زبان کو نئی نئی تشبیہات اور رنگا رنگ ترکیبیں دی ہیں، مگر وہ اپنی نظموں میں اس قدر تفصیل اور جزئیات نگاری سے کام لیتے ہیں، اور بات کو اتنا پھیلا کر بیان کرتے ہیں، اور نظم کو اس درجہ طول دیتے ہیں کہ طبیعت بعض اوقات لطف اٹھاتے اٹھاتے سیر ہوجاتی ہے بلکہ اکتاہٹ سی محسوس ہونے لگتی ہے،  نظموں کی طوالت یقیناَ َ جوش صاحب کی پختہ مشقی، قدرتِ کلام، جوشِ بیان اور دل و دماغ اور اعصاب کی قوت اور صحت مندی کی دلیل ہے، مگر رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابی کو تبلیغِ دین کے لئے بھیجتے ہوئے نصیحت فرمائی تھی کہ :

“خدا کا ذکراتنا کرنا کہ لوگ اکتا نہ جائیں”۔
تو جوش صاحب اس نفسیاتی نکتہ کو نظرانداز کردیتے ہیں ۔
خاص طور سے شاعری کا جو لطف اجمال اور رمز و اشاریت میں ہے، وہ تفصیل و طوالت اور برہنہ گفتن میں نہیں ہے،   حافظ شیرازی فرماتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنفشہ طرۂ مفتول خو گرہ می زد
صبا حکایتِ زلفِ تو درمیاں انداخت
اس میں ایجاز اور ایمائیت کا کس قدر لطف پایا جاتا ہے، اگر وہ کھل کر یہ کہدیتے کہ بنفشہ زلفِ محبوب کا ذکر سن کر شرماگئی تو شعر میں وہ بات کہاں پیدا ہوتی جو صبا حکایت زلف تو درمیاں انداخت سے پیدا ہورہی ہے ۔

جوش صاحب کی شاعرانہ طبیعت طوفان کی طرح حرکت میں آتی ہے، اور یہ طوفان جب مائل بہ سکوں ہوتا ہے تو نظر آتا ہے کہ اس نے لعل و گوہر کے ساتھ کچھ روڑے بھی ساحل کے دامن میں ڈال دیئے ہیں اور لالہ و گل کے ہمراہ جھاڑ جھنکاڑ بھی ۔

نومشقی کے زمانے میں تو ایسا ہوتا ہے کہ کسی فنکار کو بھی اپنی خامی کا احساس نہیں ہوتا ، اگر یہ احساس ہوجائے تو اس کی ترقی رک جائے۔  اس وقت شعور ناپختہ ہوتا ہے،  مگر شعور کے بلوغ اور پختگی کے بعد ہر فنکار خاص طور سے شاعر خود اپنی شاعری کے بارے میں اچھی طرح جانتا ہے کہ کہاں بلندی پائی جاتی ہے، کس مقام پر اس کے خیال کی پرواز زیادہ اونچی نہیں ہوسکی، اور کس کس مقام پر اس کا دل کھٹک محسوس کرتا ہے کہ یہ خیال زیادہ حسن و سلیقہ سے ادا ہونا چاہئے تھا ۔ یعنی خوب سے خوب تر کی تمنا اور اس کا احساس، مگر حیرت ہے کہ جناب جوش ملیح آبادی کو اس کا احساس نہیں ہوتا کہ انہوں نے پہلے کیا کہا تھا اور اب کیا کہہ رہے ہیں ؟

شاعری کے فلک الافلاک سے وہ کس تیزی کے ساتھ پاتال میں پہنچے ہیں،  شاعر کےشعور کا اتنا کند ہوجانا کہ بلندی اور پستی ایک ہی جیسی نظر آئیں، تاریخ شعر و ادب کا بہت بڑا المیہ ہے،   اور جوش صاحب کے خدأ قوت و حیات نے انہیں اسی دنیائے آب و گل اور جہانِ حوادث میں یہ بہت بری سزا دی ہے ۔

(ساقی جوش نمبر- بشکریہ مولانا عبد المتین منیری بھٹکلی)

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں


اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔

اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔

 

Follow us on

 

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
Ilmu علمو
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x