قرآنی تعلیمات، جدید سائنسی علوم اور دورِ حاضرکے چیلنجز

قرآنی تعلیمات، جدید سائنسی علوم اور دورِ حاضرکے چیلنجز

آج کے دور میں دین اور دنیا کو دو الگ ا اور متصادم حیثیتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ سمجھا یہ جاتا ہے  کہ دنیا کے ساتھ چلنا دین نہیں اور جہاں دین ہے وہاں دنیا  کی بات ہو نہیں سکتی۔   لیکن سوال یہ ہے کہ کیا دین اسلام  یا قرآن  دنیا  سے بالکل دور کا نام ہے، یا پھر اِس معاملے میں لوگوں کی رائے انتہا پسندی کا شکار ہو گئی ہے۔  یہ آرٹیکل قرآنی تعلیمات، جدید سائنسی علوم اور دورِ حاضرکے چیلنجز علامہ حافظ محمد حیدر نقوی   کے لیکچر سے ماخوذ ہے جو انہوں نے اسوہ کالج اسلام آباد میں پیش کیا تھا۔
Ilmu علموبابا ملاحظہ فرمایئے۔

قرآنی تعلیمات، جدید سائنسی علوم اور دورِ حاضرکے چیلنجز
قرآنی تعلیمات، جدید سائنسی علوم اور دورِ حاضرکے چیلنجز

قرآن  اور  کوئی بھی دوسری سائنسی کتاب بظاہر تو دو مختلف چیزیں ہیں لیکن ان میں  مشترک قدر کا پہلو زیادہ اہم ہے۔   کسی بھی فزکس، کیمسٹری یا بائیولوجی کی کتاب اور قرآن کے مشترک پہلو اگر وسعتِ نظری سے  قبول کیے جائیں تو دین اور دنیا کی تقسیم رد ہو سکتی ہے۔

قرآن میں اللہ کا کلام درج ہے جبکہ سائنسی کتب میں اللہ کا کام ۔  سو اپنی اپنی حیثیتوں میں اگرچہ یہ دو الگ چیزیں ہیں، لیکن اِن کا رخ اور اشارہ ایک ہی طرف ہے۔ کلامِ الہی کا لاکھ انکار کر لیا جائے، لیکن پھر بھی وہ دنیاوی امور اور اُس کے متعلقات کی وضاحت  کرتا رہے گا۔ اور اِسی طرح سائنسی علوم کو ملحدانہ لباس بھی پہنا لیا جائے، تب بھی قدرت اور فطرت خداکی تخلیق ہی رہے گی۔  صرف یہی نہیں، اگر تعلق تلاش کیا جائے تو ایسےدنیاوی مسائل اور  سائنسی دقیقے بھی ہیں، جن کا حل ہمیں قرآن میں نظر  آ جاتا ہے۔ اور اِسی طرح اگر وسعتِ نظری ہو تو  سائنسی دریافت و ایجادات میں خالق کائنات کی جھلک نظر آئے گی۔

یہ سراسر انسانی طرزِ فکر پر منحصر  کہ کوئی شخص دین اور دنیا کی تقسیم کے ذریعے  امور اور اعمال کو وضع کرے ۔ ورنہ دینی امور اور دنیاوی امور کا آپس میں گہرا  اور مضبوط تعلق موجود ہے۔  اِس بیان کے اثبات کے لیے ایک آسان دلیل اور مثال یہ دی جا سکتی ہے، مسجد میں بیٹھ کر قرآن پڑھنا اور نماز میں مشغول رہنے کو تو سب عبادت گردانتے ہیں۔ لیکن کسی سائنسی تجربہ گاہ میں بیٹھے ہوئے سائنس دان کے مطالعے ، مشاہدے ،تجربے اور ایجاد کو کوئی دینی معاملہ تصور نہیں کرے گا، اگرچہ ممکن ہے کہ اُس سائنس دان کی تعلیم اور ایجاد ملک ، انسانیت، اسلام اور امن دشمن  سے مقابلے کے لیے ہو۔ گویا اُس کی نیت اور کوشش ، ملک و ملت کو مضبوط کرنے کی ہو گی، لیکن موجودہ  انسانی طرزِ فکر من مانے مطالب اخذ کرتے  ہوئے اِس بات کا انکار کرتی ہے۔ تاریخ ، سائنسی علوم اوار قرآن کے موضوعاتی اشتراک کی مثالیں فرعون کی انیسویں صدی میں فرعون کی میت کی دریافت کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ قرآن کے مطابق فرعون کی لاش کو دنیا  کی عبرت کے لیے محفوظ کر لیا گیا ہے، وہیں اِس بات کے اثبات کے لیے وہ لاش مصر کے صحرا میں موجود  قبرستان سے دریافت ہو گئی۔ اِسی طرح عرب کے سر سبز ہونے کے عمل کو بھی دین اور دنیا کی یکجہتی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ پھر اِسی طرح اسلامی نظام اقتصادیات کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ تمام احکام اور نظریاتِ اسلامی محض دین کا حصہ نہیں ہیں بلکہ اِس دنیا پر عمل درآمد کرنے کے لیے صادر فرمائے گئے ہیں۔ اِن تمام باتوں سے ظاہر ہوا  کہ اگر کوئی شخص علم کے حصول، رزق کے حصول، تعلقات کی بہتری وغیرہ  کے لیے جد و جہد اور کوشش محض اِس لیے کرے کہ وہ خدا کا حکم ہے ، تو   یہ دنیاوی معاملات بھی دینی امور اور عبادت کا درجہ ہی رکھیں گے۔

مزید دو اور اہم مثال کو ہم جدید سائنس اور اسلامی نظریے  تخلیق کائنات اور روزِ حشر سے جوڑ سکتے ہیں۔  جس کا ذکر ڈاکٹر ہینس جینی  کے مشہور تجربے  “سائمیٹکس” کی شکل میں بھی ملتا ہے، جس کی ویڈیو اور تفاصیل بآسانی مل جاتی ہے۔ ڈاکٹر ہینس جینی نے 1972 میں  ڈرم شیٹ پر ریت کے ذرات بچھائے  اور اُس شیٹ کو  سپیکر سے جوڑ  دیا۔ سپیکر  پر مختلف آوازیں لگائی گئیں اور اُن کی فریکوئینسی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل کی جاتی رہی۔ آواز کی پیداوار اور فریکوئینسی کی تبدیلی سے شیٹ پر موجود ریت کے ذرات بھی اپنی شکل تبدیل کرتے رہے۔  جدید سائنس کا مطابق انرجی (توانائی) ، میٹر (مادہ) پر اثر اندار ہوتی ہے اور اُسے نہ صرف بناتی یا بگاڑتی ہے بلکہ اُس کی شکل  کا تعین بھی کرتی ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جسے اسلامی عقائد “کن فیکون” سے جوڑتے ہیں۔ جہاں ایک آواز یا لفظ یا انرجی “کُن” کی شکل میں ابھری اور کائنات یا مادی دنیا “فیکون” کی شکل اختیار کر گئی۔ یہی  دینی اور علوم کے ملاپ کا سنگم ہے۔

دوسری مثال بروزِ حشر  اُن تمام اعمال اور افعال کی گواہی کی ہے، جو انسان اِس دنیا میں کرتے رہے ہیں۔ کلامِ الہی کے مطابق جو کچھ بھی کیا گیا، سب دکھایا جائے گا۔ چلیں جو چیزیں کیرے کی ایجاد کے بعد ریکارڈ ہوئیں ، وہ تو دکھائی اور سنائی جا سکتی ہیں، لیکن جو ایجادات کیمرے اور ریکارڈر کے ایجاد سے پہلے کے افعال ہیں، اُنہیں کیسے دکھایا اور سنایا جا سکتا ہے۔ اِس کی سادہ اور مختصر مثال انرجی کا مختلف شکلوں اور حالتوں میں تبدیل ہونا ہے۔ ہر چیز کوئی نہ کوئی انرجی رکھتی ہے اور یہ انرجی مختلف صورتوں میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ٹیلی فون پر آواز (ساؤنڈ انرجی) بجلی (الیکٹریکل  انرجی) میں تبدیل ہو جاتی ہے اور دوسرے فون پر دوبارہ آواز کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ تمام سائنسی آلات انرجی تبدیل اور استعمال کرنے کے اسی اصول کے مطابق کام کرتے ہیں ۔ ان آلات کی طرح  تمام انسانی اجسام، آوازیں، باتیں،  افعال اور جو کچھ بھی ہوا، اُن کی انرجی کو حاصل کر کے دوبارہ سابقہ شکل میں  حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ جب انسان کے لیے یہ سب ممکن ہے تو پھر کائنات کے  خالق کے لیے یہ  سب کچھ کرنا نا ممکن کیسے ہو سکتا ہے۔  یہ ہے سائنس اور مذہب کی ہم آہنگی۔ خدا کے کلام اور خدا کے کام کی ہم آہنگی۔ قرآن میں “عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں” کا تذکرہ اِسی بات کو ثابت کرتا ہے، کہ عقل اور علم کی راہ پر چلا جائے  تب ہی دنیا بھی آسان ہو گی اور خدا کی قربت بھی حاصل ہو گی۔

(اختتام حصہ اول)

 

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں


اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ Ilmu علموبابا

اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔

 

Follow us on

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
Ilmu علمو
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x