قیام پاکستان کی تحریک اور اردو

قیام پاکستان کی تحریک اور اردو

تحریک پاکستان میں اردو کا کیا اہم کردار رہا؟ اس آرٹیکل”قیام پاکستان کی تحریک اور اردو” میں ہم انہی تمام امور کا احاطہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ تحریک پاکستان، قیام پاکستان اور اردو کے بارے میں مزید جاننے کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ڈاٹ پی کے ملاحظہ فرمائیے۔

قیام پاکستان کی تحریک اور اردو
قیام پاکستان کی تحریک اور اردو

  برصغیر کے طول و عرض میں جب اٹھارویں صدی عیسوی میں سنسکرت ، ہندوی اور فارسی اپنے نقطۂ کمال پر تھیں تو ایسے وقت میں ایک نوازئیدہ زبان اردو منصہٴ شہود پر جلوہ گر ہوئی۔ اس زبان کی پذیرائی تیزی سے بڑھنے لگی اور تھوڑے ہی عرصہ میں اسے مسلمانوں میں وہ قبولِ عام حاصل ہوا کہ اسے مسلمانوں کی زبان کے طور پر جانا جانے لگا ۔ حالانکہ اس سے پہلے برصغیر میں مسلمانوں کی دفتری اور عدالتی زبان فارسی تھی۔ زبان کسی بھی قوم کی تہذیب و ثقافت کا اہم جُزو تصوّر کی جاتی ہے اور ہر قوم اپنی زبان کو ذریعہ اظہار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔برصغیر میں آباد مسلمانوں نے اُنیسویں اور بیسویں صدی عیسوی میں اردو ہی کو اپنی زبان بنایا۔ جس نے خواص و عوام دونوں میں حُسنِ قبول حاصل کیا۔

 اٹھاروہیں صدی عیسوی میں تنگ نظری کا شکار ہندو ، اردو زبان کو مٹانے اور ہندی کو اُبھارنے کی کوشش سے دو قومی نظریہ کے نمایاں ثبوت سامنے لا رہے تھے ۔ محمد علی چراغ اپنی کتاب اکابرین تحریک پاکستان میں لکھتے ہیں

سرانتونی میکڈانل نے متحدہ صوبہ جات کا گورنر بنتے ہی صوبہ بِہار سے اردو کو ختم کرکے اس کے بجائے ہندی کو سرکاری زبان قرار دے دیا تھا۔ اس عمل سے مسلمانوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی تھی۔ اردو چونکہ براعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی ایک طرح کی شناخت کا ذریعہ تھی اس لیے مسلمانوں نے اس مسئلے سے سنجیدگی سے نمٹنا شروع کیا۔

 اردو زبان کی مسلم قوم میں بڑھتی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ہندوؤں کو یہ خیال آنے لگا کہ مسلمان اپنی اردو زبان کے وسیلے سے اپنے مذہب اور اسلامی روایات کے تحفّظ کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس کی واضح دلیل 1867 عیسوی میں ہونے والا اردو ہندی جھگڑا ہے ۔ اس کا ایک سبب بزرگانِ دین اور علمائے اسلام کا اردو میں دینی تعلیمات کی اشاعت و تبلیغ تھا۔ اس بنا پر ہندوؤں نے اردو زبان کے ساتھ بھی وہی طرزِ عمل اپنایا جیسے انہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے ساتھ رَوا رکھا۔ ایسی دِگّر گُوں کیفیت میں سرسید احمد خان نے درحقیقت ایک مردِ آہن کا کردار ادا کیا اور اپنی ثابت قدمی سے گُلشنِ اردو کو سینچا۔  1867ء کے بنارس میں پیش آمدہ اردو اور ہندی مناقشہ کے بعد سر سید کی دور اندیشی نے اندازہ لگا لیا کہ جو قوم مسلمانوں کی زبان پر عدم برداشت کا مظاہرہ کر رہی ہے وہ مسلمانوں کو بحیثیت قوم کیسے قبول کر سکتی ہے؟ اس لیے انہوں نے علی الاعلان یہ بات کہی تھی کہ آنے والے دور میں ہندو اور مسلمان جدا گانہ راہیں اپنا لیں گے اور وقت نےاس حقیقت کا ہوبہو نظارہ کیا۔

 مسلمانانِ ہند نے قیامِ پاکستان کی تحریک میں پورے جوش اور ولولے سے شرکت کی۔ قیامِ پاکستان کی تحریک میں علیحدہ زبان اردو دو قومی نظریے کا ایک مُستند حوالہ تھی۔ اس ضمن میں ڈاکٹر مجیب احمد اپنے ایک مقالہ میں رقم طراز ہیں

قیام پاکستان سے قبل برصغیر کے طول و عرض کے خطےاور مختلف علاقائی زبانیں رکھنے کے باوجود الگ وطن کے لیے اردو کو بحیثیت قومی زبان تسلیم کرتے ہوئے مسلمانانِ ہند نے تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا اور قیام پاکستان کو ممکن بنایا۔ تحریک پاکستان کے دوران الگ زبان  ”اردو “ دو قومی نظریے کا ایک بڑا اور بنیادی حوالہ تھی۔

جیسے جیسے قیامِ پاکستان کی تحریک زور پکڑتی جارہی تھی ویسے ویسے اردو زبان بھی وسیع اور مقبول ہوتی گئی۔ سندر مالیگاویں نے کیا خوب شعر کہا

  جس کو دیکھو تمہارا عاشق ہے
  تم  تو  اردو  زبان  لگتی  ہو 

اردو زبان کی بڑھتی مقبولیت اور شان و شوکت دیکھتے ہوئے ہندوؤں کا قیامِ پاکستان کی تحریک اور اردو کے خلاف بغض اور عناد بڑھتا گیا۔ مسلمانوں نے بھی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے اردو زبان کی سربلندی کے چراغ کو جگمگائے رکھا۔ مسلم لیگ کا پہلا سالانہ جلسہ 1907 عیسوی کو کراچی میں ہوا جبکہ دوسرا سالانا جلسہ 1908عیسوی کو لاہور میں منعقد ہوا ۔ جس میں سر علی امام نے کہا

اردو کو ایک مشترک زبان کی حیثیت سے باقی رکھا جائے کیونکہ یہ وہ زبان ہے جو برصغیر کے طول و عرض میں سمجھی جاتی ہے۔

 مسلم لیگ کے بہت سے جلسوں میں اردو زبان کے ارتقاء ، حفاظت اور اسے قومی زبان تسلیم کیے جانے کے لئے بارہا قراردادیں اور مختلف تجاویز  منظور کی گئیں۔ قیامِ پاکستان کی تحریک کی عملی جدوجہد کے اس سفر میں روابط کے لئے اردو زبان کا ہی سہارا لیا گیا۔ اس تحریک میں اردو کا کردار بہت نتیجہ خیز اور بامعنی ثابت ہوا ۔

دسمبر 1938 عیسوی میں مسلم لیگ کا چھبیسواں جلسہ ہوا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اردو سے لگاؤ اور محبت کی وجہ سے اپنی انگریزی تقریر کے فوراً بعد اردو میں پُراثر تقریر کی۔ انہوں نے اپنے مشہور چودہ نکات میں بھی مسلمانوں کی زبان اردو کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔ 21 مارچ 1948 عیسوی کو ڈھاکہ میں بہت بڑے جلسہ میں قائداعظم محمد علی جناح نے واضح اعلان کیا

    میں آپ پر یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کے پاکستان کی سرکاری و قومی زبان صرف اور صرف اردو ہوگی۔

24 مارچ 1948 عیسوی کو قائد اعظم نے اردو کو قومی زبان قرار دیتے ہوئے فرمایا

 ملک کے مختلف صوبوں کے مابین رابطہ پیدا کرنے کے لیے صرف ایک ہی قومی زبان قرار پائے گی اور وہ اردو ہوگی 

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے ارشادات کی روشنی میں بھی قیامِ پاکستان کی تحریک میں اردو زبان کے مؤثر کردار کی تصدیق ہوتی ہے۔ چونکہ اردو زبان ہی قیامِ پاکستان کی تحریک میں ذریعہ روابط اور  مسلمانانِ برصغیر کی نمائندہ زبان رہی۔ اس لیے انہوں نے اردو ہی کو قومی اور سرکاری زبان قرار دیا۔

  علٰی ھٰذا القیاس!  ہم اس حقیقت سے رُوگردانی نہیں کرسکتے کہ اگر پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کا ایک طاقت ور محرک اسلامی نظریہ تھا تو دوسری سمت اس کا ایک توانا اور مضبوط سبب اردو زبان بھی تھی۔ اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ قیامِ پاکستان کی اس عظیم جدوجہد میں اردو زبان و ادب کا گہرا اور وسیع کردار ہے ۔

اردو جسے کہتے ہیں  تہذیب کا چشمہ ہے
وہ شخص مہذہب ہے جس کو یہ زباں آئی

(تحریر: کاظم حسین تھہیم )

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں


اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ Ilmu علموبابا

اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔

 

Follow us on

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
Ilmu علمو
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x