منٹو کا افسانہ کھول دو

منٹو کا افسانہ کھول دو

یہ آرٹیکل “منٹو کا افسانہ کھول دو” ایک خط ہے۔ یہ خط ، خط سے بڑھ کر بنیادی طور پر منٹو کے افسانے “کھو ل دو” پرلکھا گیا  ایک تبصرہ ہے۔ یہ  خط نصیب اللہ خٹک کی تحریر ہے، جس میں انہوں نے اپنے ایک عزیز کو سعادت حسن منٹو کا افسانہ ‘کھول دو‘ پڑھنے کی تلقین کی ہے اور اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ مزید جاننے کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ڈاٹ پی کے ملاحظہ فرمائیں۔

منٹو کا افسانہ کھول دو
منٹو کا افسانہ کھول دو

سوہان ، اسلام  آباد
13 اکتوبر ،  2016ء

عزیز!

                        السلام علیکم! امید ہے کہ خیریت سے ہوگے ۔ اگرچہ صنعتی دور نے تمھاری زندگی مفلوج کر رکھی ہے۔ لاہور کیا گئے کہ پلٹ کر خبر بھی نہیں لی۔ کیوں؟ چلو رہنے ، دو جانتا ہوں کہ تمھیں سر کھجانے کی فرصت بھی نہیں ۔ ادھر میں بالکل خیریت سے ہوں۔ تمھیں لکھا تو تھا کے ایم فِل اُردو میں داخلہ حاصل کر لیا ہے ان دنوں پہلے سمسٹر میں ہوں ۔ ابھی کچھ دیر پہلے منٹو کا افسانہ پڑھ رہا تھا لیکن ابھی تک اس کے اثر سے خود کو آزاد نہیں کر سکا ۔ سوچا تمھیں بھی اس کے متعلق لکھوں ، آج کل تو بھائی کوئی کتاب پڑھتا ہی نہیں ہیں۔  سکرین ریڈنگ کا زمانہ ہے۔ نوٹس ہر جگہ دستیاب ہے ۔ براہ راست موضوع کو پڑھنا آب کہاں گوارا ہے۔ یہ صنعتی دور کیا آیا لوگوں نے خود کو کتاب سے دور کرکے سکرین تک محدود کر دیا ۔ تم کیا کہتے ہو؟ کہنا کیا ہے؟تمھارا شمار بھی تو ان ربوٹوں میں ہوتا ہے۔ جو ہر پَل مشینوں میں چھپٹے  رہتے ہیں ۔ میرے حال سے تم آگاہ تو ہو۔ طالب علمی کا زمانہ ہے ابھی معاش سے وابستگی نہیں ہوئی ۔ ورنہ میں تمھیں لازماً منٹو کے افسانے خرید کر بجھوادیتا ۔ خیر میں تمھیں اس افسانے کے متعلق تبصرہ لکھ دیتا ہوں ۔

            زمانہ کہتا ہے منٹو جو بھی لکھتا ہے ۔ جنس ہی کے متعلق لکھتا ہے اور تم بھی یقیناً اس افسانے” کھول دو” کو جنسی ہی شمارے کروگے۔ نہیں بھائی ہر گز مت سوچنا ۔ اصل میں یہ افسانہ ہمارے اس عہد کے سماج کے منہ پر طمانچہ ہے۔ منٹو کا اسلوب سید ھا سادا اور رواں ہے ۔ تم ذرا پڑھ کے تو دیکھو اس کے اسلوب کی روانی بہتے جاؤ گے ۔ زباں دانی کے جو ہر دکھانا منٹو کا وطیر ہ ہے۔ وہ اس ننگے سماج کے جسم سے شرافت کا لبادہ جھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔ اس سماج کے مکروہ چہرے سے نقاب ہٹاتا ہے۔ ہمارے جنسی گھٹن اور حواس کے مظاہرے کو منٹو نے پیکر بخشا ہے۔ کس طرح ایک لڑکی ہجرت کے دوران والد سے بچھڑتی ہے اِدھر اُدھر بھٹکتی پھرتی ہے۔ درندوں کی حواس کا نشانہ بنتی ہے۔ بالآ خر ایک کیمپ میں پہنچ جاتی ہے۔ جہاں لوگوں کو پناہ دی گئی ہے۔ وہاں جو محافظ ہیں ۔ ان کی نیت کا آزاد بند سڑکتا ہے اور وہ اس بے چاری کو اپنے حواس کا باری باری نشانہ بناتے ہیں ۔ وہ خون میں لت پت لاچارگی کے عالم میں ایک ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں منتقل کر دی جاتی ہے۔ وہاں وہ مدہوشی کے عالم میں ایک اسٹریچر پر پڑی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر نرس کو انگلی کے اشارے سے کہتا ہے ۔”کھول دو” جوں ہی لڑکی کے کانوں میں یہ آواز پڑتی ہے۔ وہ ازار  بند کھول کر شلوار لُڑھکا دیتی ہے۔ بھائی کتنا شدید طمانچہ ہے ۔ اس بے رحم کی کھوکھلی شرافت پر “کھول دو”تم بھی ذرا مشینوں سے فرصت یا سکرین پر ہی اس افسانے کو کھول دو۔ خط طویل ہوتا جا رہا ہے۔ لہٰذا پہلی فرصت میں اس افسانے کو پڑھ ڈالو۔    یقینی طور پرتمہارے ہوش و حواس کو بھی یہ افسانہ جھنجھوڑے گا، جیسے ہر باضمیر کو جھنجھوڑتا ہے۔

                                                                                                                                                                                                والسلام

نصیب اللہ خٹک

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں


اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ Ilmu علموبابا

اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔

 

Follow us on

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
Ilmu علمو
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x