ٹی ایس ایلیٹ۔ ایک عظیم نقاد

ٹی ایس ایلیٹ۔ ایک عظیم نقاد

            ٹی ایس ایلیٹ  نئے دور کے نقاد ہیں۔ ان کے تنقیدی نظریات جدیدیت اور اس کے بعد کے دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٹی ایس ایلٹ نے جس دوران تنقید شروع کی اس دوران قدیم تصورات پر رفتہ رفتہ جدید تصورات کا غلبہ چھا رہا تھا۔ ٹی ایس ایلیٹ نے ماضی کے تصورات پر نظر ثانی کی اور ان کے متعلق نئی توجیہات اور نظریات لے کر میدان تنقید میں اترے۔ان کے پیچھے رومانوی دور کی تنقیداور اس کے تصورات تھے جن سے ایک قدم آگے رکھے کر انہوں نے تنقید کی نئی راہ متعین کی۔

ٹی ایس ایلیٹ۔ ایک عظیم نقاد
ٹی ایس ایلیٹ۔ ایک عظیم نقاد

            رومانوی تحریک انفرادیت پر بنیاد کرتی تھی، جبکہ ٹی ایس ایلیٹ نے رومانویت کی انفرادیت کو رد کیا۔ انہوں نے فن کارر کی ذات کے بجائے “فن پارے “کو مقدم جانا اوراہمیت دی۔وہ شخصیت کے بجائے ادبی موضوع کو ترجیح دیتے ۔فن پارے میں مصنف کی شخصیت کی تلاش کے بجائے ان کا بنیادی سوال خود شعر یا نظم کے پیکر پر تھا۔

            ٹی ایس ایلیٹ نے فن پارے  کے ساتھ ساتھ ناقد پر بھی سوال اٹھائے اور جواب تلاش کیے۔ ان کے مطابق ایک صدی بعد ایسے ناقد کی ضرورت پڑتی ہے جو ماضی کے ادب کا از سر نو جائزہ لے اور ماضی کےشعراء اور عظیم فن پاروں کو نئی ترتیب کے ساتھ پیش کرے۔کیونکہ کوئی بھی نئی تخلیق پرانی تخلیقی ترتیب کو درہم برہم کر دیتی ہے۔ان کے مطابق ناقد کا کام انقلاب لان نہیں بلکہ ” تنظیم نو ” کرنا ہوتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر نئی نسل اپنے ساتھ نیا شعری مذاق لاتی ہے۔ اور فن سے نئے مطالبات کرتی ہے۔ خالص فن کا تصور محض مثالی تصور ہے۔ ہر نسل اپنے فن کے کھوٹ کو دوسروں کے کھوٹ سے بہتر جانتی ہے۔

            ایلیٹ کا خیال ہے کہ ناقد کا کام فن پارے کی تشریح سے شروع ہو تا ہے اور اس ضمن میں تقابل اور تجزیہ اس کے اوزار ہوتے ہیں۔ایلیٹ زندگی اور ادب میں معیارات کے نفوذ اور غیر شخصی اور غیر ذاتی میلانات

و رجحانات کا قائل ہے۔ اس لیے وہ احساس ماضی اور احساس روایت کو ضروری سمجھتا ہے۔اس کے مطابق روایت کا مطلب یہ نہیں کہ محض چند تعصبات کو برقرار رکھا جائے بلکہ روایت سے مراد فطرت ثانیہ ، عادات و اطوار اور رسوم و رواج سے لے کر تمام وہ چیزیں ہیں جو ایک جگہ رہنے والوں کے دلی تعلقات کو ظاہر کرتی ہیں۔روایات کے ساتھ مکمل آگہی اور شامل شامل ہوتا ہے۔نیز تاریخی شعور کے معانی یہ ہیں کہ ماضی کو حال میں زندہ دیکھا جائے ۔

            جب کوئی فن پارہ تخلیق ہوتا ہے تو اس کے اثرات سابقہ فن پاروں پر بھی پڑتے ہیں۔نیز فن پارے کے لیے ضروری نہیں کہ وہ ماضی سے کلی مطابقت رکھے بلکہ اس کے لیے کچھ نیا ہونا ضروری ہے۔ اگر وہ الف تا ے ماضی سے مطابقت رکھے گا اور اس میں کوئی نیا پن نہ ہو تو وہ ادب کے معیار پر ہی پورا نہیں اترتا۔

            یعنی ایلیٹ کی کل تنقید فن کار سے ہٹ کر “فن پارے” کو اپنا مرکز بناتی ہے اور اسی تصور میں وہ “معروضی تلازمے” کے تصور کو پیش کرتے ہیں۔

(تحریر: ع حسین زیدی)

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں

اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔

اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔

 

Follow us on

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
Ilmu علمو
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x