ہے تیرے گلستاں میں بھی فصل خزاں کا دور

ہے تیرے گلستاں میں بھی فصل خزاں کا دور

علامہ اقبال کی نظم “پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ” کی شرح و تفہیم

ہے تیرے گلستاں میں بھی فصل خزاں کا دور
ہے تیرے گلستاں میں بھی فصل خزاں کا دور

شعر

ہے تیرے گلستاں میں بھی فصلِ خزاں کا دور

خالی ہے جیبِ گُل زرِ کامل عیار سے

تشریح

            اِس کے بعد علامہ محمد اقبال مسلم نوجوان سے مخاطب ہوتے ہیں، اور اُسے حالاتِ  حاضرہ سے مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے نوجوانِ مسلم! تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ تیرے وطن میں کبھی سب کچھ اچھا اچھا ہوا کرتا تھا۔ یہاں سر سبزی تھی، ہریالی تھی، شادابی تھی۔ خوبصورتی کا دور دورا تھا۔ ہر نفس خوش اور ہر گھرانہ خوشحال تھا۔ تیرا تمام چمن ترقی اور بلند معیارِ زندگی کی جانب سفر کر رہا تھا، اور ساتھ ہی ساتھ اپنی خوبصورتی کو چار چاند لگائے جا رہا تھا۔لیکن اب حالات ویسے نہیں رہے۔

تیرے  باغ جیسے ملک میں ، تیرے کوچے میں ، تیرے گھر میں اِس وقت خزاں کا دور چل رہا ہے۔ اس وقت تیرا ملک آفات اور مشکلات میں گھِرا ہوا ہے۔ تیرے وطن کو مشکلوں نے  اپنا ٹھکانہ بنایا ہوا ہے۔ یہاں بے تحاشا بحران سر اٹھا رہے ہیں۔  جہاں کبھی ترقی کا دور چلا کرتا تھا وہاں اب اداسی، تنزلی اور بحران غالب آتے جا رہے ہیں۔ پہلے اس باغ میں رونق ہوا کرتی تھی،  پرندے چہچہاتے تھے، رنگ و نور کی بارش ہوا کرتی تھی، وہاں اب قبرستان جیسی خاموشی طاری ہے۔ رنگ اپنی آب و تاب چھوڑ چکے ہیں اور ہر طرف خشکی کی اجارہ داری قائم ہو گئی ہے۔

تیرے باغ میں ، تیرے ملک میں اب ایسا کوئی ذہن باقی نہیں بچا، جو اِن  بحرانوں کا مقابلہ کر سکے، اور یہاں کی مشکلات کا حل نکال سکیں۔ اب تیرا چمن عقل، خِرد اور شعور کے اس معیار سے خالی ہو چکا ہے، جس  کی تجھے اور تیرے ملک والوں کو ضرورت ہے۔ عقل کا وہ معیار جس نے تیرے وطن کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے، ناپید ہو گیا ہے۔

شعر

جو نغمہ زن تھے  خلوتِ اوراق میں طیور

رخصت ہوئے تیرے شجرِ سایہ دا رسے

تشریح

            یہاں  اقبال ؔ، مسلم نوجوان کے ملک کے زوال کو بیان کرنے کے لیے پرندوں اور اُن کے نغموں کا استعارہ استعمال کرتے ہین۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں کبھی خوشحالی ہوا کرتی تھی، ترقی تھی، شادابی تھی اور ملک ہر فن  ، مہارت اور شعبے میں  بامِ عروج کو پہنچ رہا تھا۔ لیکن اب ایسا نہیں۔ جیسے جیسے یہاں کے حالات بگڑتے گئے، علم و ہنر کی سرپرستی سے منہ پھیرا گیا، اخلاقی اقدار پست ہوتی گئیں، تہذیب و ثقافت  اور روایات کو رد کیا جانے لگا، تو وہ پرندے جو نعمت اور رحمتِ خداوندی کے روپ میں  یہاں مقیم تھے، منہ پھیر کر یہاں سے کوچ کرنے لگے۔ اب یہاں کا ماحول اُن کے لیے ساز گار نہیں رہا۔  اب تو یہاں کی ایک ایک چیز، ایک ایک بات زوال ، پستی اور تباہی کو چیخ چیخ کر بلا رہی ہے، اور خود کو تباہ کرنے کی دعوت دیئے  جا رہی ہے۔

            وہ پرندے جو کبھی اس ارضِ پاک کی ترقی کے گُن گایا کرتے تھے، اب وہ یہاں کی تباہیوں اور بحرانوں سے تنگ آ کر ، کہیں اور ہجرت کر گئے ہیں ۔

(تحریر: ع حسین زیدی)

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں

اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔

اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔

 

Follow us on

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
2 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
m jan
m jan
3 years ago

سبزہ و برگ و لالہ و سرو و سمن کو کیا ہوا
سارا چمن اداس ہے ہائے چمن کو
کیا ہویہ پہلے شعر میں لکھ سکتے ہے کیا as reference

Sameer
Sameer
3 years ago

Sir is me to sirf 2 ashaar ki tashreeh ki hwui hai.
Baqi nahi krni kia..

Ilmu علمو
2
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x