Insha Aur Talaffuz Examples | انشا اور تلفظ کا بیان

Advertisements

انشا اور تلفظ کا بیان

جب لکھنا شروع کیا، تو ہر اچھا لکھنے والے سے پوچھتا پھرتا کہ کیا لکھیں، کیسے لکھیں؟
سب اپنے اپنے علم کے مطابق مفید مشورے دیتے، کوئی کہتا کہ مضمون میں مواد ہونا چاہئے۔ کوئی کہتا کہ فلاں فلاں ادیب کو پڑھو اور ان کا انداز اپنانے کی کوشش کرو اور جو بھی لکھتا، حوصلہ بڑھاتے، نکمی سی تحریر میں کمیوں کے ساتھ خوبیاں گنواتے۔
اور چند لوگ ہمیشہ حوصلہ شکنی بھی کرتے، اچھا نہ لکھ سکنے کا طعنہ مارتے۔

خیر سے ہمیشہ اچھا لکھنے کی کوشش رہی۔ جس نے جو کہا برتا، ادب و صحافت اور لکھنے کے اسلوب کے سلسلے میں جتنی کتابیں ملیں، پڑھ ڈالیں۔
مگر چند باتیں ہمیشہ پریشان کرتی کہ لفظوں کے انتخاب کا طریقۂ کار کیا ہو؟ الفاظ کے رکھ رکھاؤ میں جملوں کے استعمال میں کیا پیش نظر رکھیں؟ اچھی تحریر کی خوبی کیا ہے، اور کیا چیز تحریر کو بھدی بناتی ہے؟

اسی سلسلے میں مفتی ڈاکٹر اشتیاق دربھنگوی (استاد دارالعلوم دیوبند) نے رشید حسن خان کا کتابچہ “انشاء اور تلفظ” کا مشورہ دیا، اور اس کی تعریف کی۔ ستر صفحے کا یہ رسالہ اتنا عمدہ ہے کہ ہر مبتدی بلکہ ہر لکھنے پڑھنے والے کے پیش نظر یہ ہونا چاہئے۔ اخیر کے بیس صفحوں میں “الفاظ کا املا” لکھا ہے۔

عام طور ہم زائد الفاظ سے مضمون کو بھردیتے ہیں، یا آسان جملوں کے بجائے عربی فارسی کے مشکل الفاظ کا انتخاب کرلیتے ہیں، یا پھر لفظ “صاحب” کا من مانا استعمال کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں اسی کتاب سے یہ انتخاب پڑھیے کہ “جب نام سے پہلے “ڈاکٹر” یا “پروفیسر” لکھ دیا، تو پھر نام کے بعد “صاحب” لکھنے کی ضرورت نہیں۔ جناب اڈیٹر صاحب، جناب ڈاکٹر صاحب، لکھنے کی ضرورت نہیں۔

اگر نام کے بعد “صاحب” لکھا ہے، تو پھر نام سے پہلے “جناب” لکھنا ضروری نہیں۔ ضروری کیا، مناسب بھی نہیں۔
بہت سے ناموں کے ساتھ اسم نسبت بھی شامل ہوتے ہیں، جیسے: فراق گورکھپوری، جگر مرادآبادی، ظہیر احمد صدیقی، شمس الرحمٰن فاروقی، صدیق الرحمن قدوائی، ایسے ناموں سے پہلے جناب لکھنا مناسب ہوگا۔ جیسے جناب شمس الرحمن فاروقی۔ اگر کسی وجہ سے آخر میں “صاحب” لکھنا پڑے، تو پھر اسے آخر میں لکھنا چاہیے۔ جیسے ظہیر احمد صدیقی صاحب، مخمور سعیدی صاحب۔ “صاحب” کو بیچ میں نہیں آنا چاہیے، یعنی “ظہیر احمد صاحب صدیقی” لکھنا مناسب نہیں۔

یہ بات اس سے پہلے مجھے پتہ نہیں تھی، بلکہ جب جیسا من کرتا وہیں “صاحب” کو پٹخ دیتا۔ “جناب” کو لے آتا۔
اسی طرح زائد الفاظ جملے میں آجاتے ہیں، یا کبھی اردو کے غیر معروف لفظ کے مقابلے انگلش کا مشہور لفظ مستعمل ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں کتاب کا تراشہ پڑھئے کہ “انگریزی کے بہت سے لفظ ہماری زبان میں شامل ہوچکے ہیں، اور وہ زبان کا حصہ بن گئے ہیں۔ یہ ایسے لفظ ہیں، جن کا بدل ہمارے پاس موجود نہیں،

جیسے:
اسٹیشن، اسکول، میزائل، تھرمامیٹر، اڈیٹر، آکسیجن، ہائڈروجن، ناول، فلم، اسپیکر، پینسل، ایٹم۔ غرض کہ ایسے بہت سے الفاظ ہیں۔ اب یہ سب لفظ اردو کے اپنے الفاظ ہیں۔ اگر کوئی شخص مثلاً لاؤڈ اسپیکر کی جگہ “آلۂ مکبر الصوت” استعمال کرے، یا جیسے تھرمامیٹر کی جگہ “مقیاس الحرارت” کہے، تو سمجھا جائے گا کہ یہ شخص زبان کو مشکل اور بوجھل بنانا چاہتا ہے۔ اس کو اچھا نہیں سمجھا جائے گا۔

اسی طرح جن لفظوں کے بدل ہمارے پاس پہلے سے موجود ہیں، ان کی جگہ انگریزی لفظ لانا بےتکے پن کی بات ہے۔ اس سے گفتگو اور تحریر دونوں کا رنگ بگڑ جائے گا۔

نئے لکھنے والے چھوٹی سی بات کہنے کے لئے لفظوں کی بھیڑ لگا دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں رشید احمد خان صاحب کا یہ اقتباس اہم ہے کہ؛
“عبارت کی خرابی میں زائد لفظوں کا حصہ بھی کچھ کم نہیں ہوتا۔ زائد لفظوں سے مراد ہیں، ایسے لفظ جن کو اگر نکال دیا جائے، تو مفہوم پر اثر نہ پڑے، اور عبارت پہلے سے بہتر ہوجائے۔ پنڈت ہری چند اختر اپنے زمانے کے مشہور شاعر اور ادیب تھے۔ انہوں نے ایک بار ایک نئے لکھنے والے سے کہا تھا: یہ تو بہتوں کو معلوم ہوتا ہے کہ کیا لکھنا ہے؛ لیکن یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہوتی ہے کہ کیا نہیں لکھنا ہے”۔

اچھی عبارت وہ ہے، جس میں لفظی کفایت شعاری سے کام لیا گیا ہو۔ زائد لفظ نہ ہوں، غیر ضروری طور پر لفظوں کی تکرار نہ ہو، اور ممکن حد تک ایسے لفظ نہ ہوں، جنہیں عربی، فارسی کے بھاری بھرکم لفظ کہا جاسکے۔ نیز غیر ضروری انگریزی لفظوں کے بےجوڑ پیوند نہ لگائے گئے ہوں”۔

مختصر طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ بے عیب تحریر وہ ہے، جس میں روز مرہ اور محاورے کی غلطی نہ ہو۔ قواعد کی غلطی نہ ہو، اور املا کی بھی غلطی نہ ہو۔

ٹھیک ہے کہ بے عیب عبارت لکھنا اچھی بات ہے، لیکن یہی سب کچھ نہیں ہے۔
اچھی عبارت وہ ہے، جو بے عیب بھی ہو، اور اس میں بیان کا حسن بھی ہو۔ ایک ہی بات کو کئی طرح کہا جا سکتا ہے۔ ذہین طالب علم اس بات کو جلد سمجھ لیتے ہیں۔ وہ کوشش کرتے ہیں کہ اچھے سے اچھے انداز بیان کو اپنائیں۔ اس طرف توجہ کرنے سے اور مشق سے اچھی نثر لکھنے کا سلیقہ آتا ہے۔ مولانا حالی کا یہ مصرع ہمیشہ نظر کے سامنے رہنا چاہیے:

ہے جستجو کہ خوب سے خوب تر کہاں

اچھی نثر لکھنے کا کوئی مقررہ قاعدہ نہیں
سوچنے سمجھنے سے یہ بات اپنے آپ ذہن پر روشن ہونے لگتی ہے۔ کبھی ایسا کیجیئے کہ ایک ہی جملے کو دو تین طرح لکھ کر دیکھیے، ایک دو بار لفظوں کی ترتیب بدل دیجیۓ۔ ایک دو لفظوں کو نکال دیجیے، یا ایک دو لفظوں کو بدل کر دیکھیے، آپ کو محسوس ہونے لگے گا، کہ ایک ہی جملے کی ان کئی شکلوں میں سے کوئی ایک صورت ایسی بھی ہے، جو دوسری صورتوں سے بہتر معلوم ہوتی ہے۔

جملے میں جو لفظ لائے جائیں، تو سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ مطلب کو اچھی طرح ادا کررہے ہیں؟
ایسا تو نہیں کہ ایک یا دو لفظ بدل دیے جائیں، تو پہلے کے مقابلے میں مفہوم بہتر طور پر ادا ہوسکے گا، گویا اچھا جملہ لکھنے کے لیے مناسب لفظوں کو منتخب کیا جائے۔ جملے میں ان کی ترتیب بھی مناسب طور پر ہونا چاہیے۔

یہ دیکھا گیا ہے کہ بعض دفعہ کسی جملے میں کسی ایک لفظ کو ادھر ادھر کردینے سے بیان کا حسن بڑھ جاتا ہے، اور کبھی مفہوم کو ادا کرنے کی بہتر صورت سامنے آجاتی ہے۔
یہ بات بھی دیکھنے میں آتی ہے، کہ وہ جملہ جب زبان سے ادا ہوگا، تو اس میں روانی کتنی ہوگی۔ کوئی ایسا لفظ تو نہیں آگیا ہے، جس کو ادا کرنے میں زبان رکنے لگے۔ اچھی نثر کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ اس میں روانی ہوتی ہے، رکاوٹ نہیں ہوتی۔ محض مثال کے طور پر اس جملے کو دیکھیے:
“تم یہاں سے کل کیا چلے گئے کہ رونق کی چلی گئی؟”

اس جملے کا مطلب تو روشن ہے، مگر بیان کا حسن نہیں آپایا۔ جملے کے پہلے ٹکڑے “کل کیا گئے کہ”کو زبان سے ادا کرتے وقت روانی کی سانس ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس جملے میں جتنے بھی الفاظ آئے ہیں، ان سب کی بھی ضرورت نہیں تھی، ان میں سے ایک دو لفظوں کو کم کیا جاسکتا ہے، مثلآ اس طرح “گھر کی رونق تمہارے ساتھ ہی چلی گئی تھی”۔ مطلب پورا کا پورا ادا ہوگیا، اور اب اچھی طرح ادا ہوا کہ بیان کا حسن بھی شامل ہوگیا۔
ہاں اس جملے کو یوں بھی لکھا جاسکتا تھا: “گھر کی رونق تو تمہارے ساتھ ہی چلی گئی تھی” مگر یہ بہتر صورت نہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ “تو تمہارے” میں “ت” کے دوبار ایک ساتھ تلفظ میں آنے سے روانی کم ہو جاتی ہے۔ اس جملے کو ایک بار پڑھ کر دیکھئے ،آپ خود محسوس کریں گے کہ “تو تمہارے”کو ادا کرتے وقت زبان میں لکنت سی آجاتی ہے۔ یہ خوبی نہیں، خامی ہے۔ “کل کیا گئے کہ “میں بھی یہی خامی تھی۔
رشید حسن خان صاحب کو خدائے تدوین بھی کہا جاتا ہے۔ آپ ماہرِ لسانیات اور زبردست محقق و نقاد تھے۔ آپ کی اسی سلسلے میں اور کئی کتابیں
جیسے “اردو املا”، “ادبی تحقیق –مسائل و تجزیہ”، “اردو کیسے لکھیں”، “املاے غالب” وغیرہ پڑھنے کے لائق ہیں۔

14جنوری۔2023—21جمادی الثانی ۔ بروز ہفتہ

✍️: غالب شمس

Leave a Reply

Ilmu علمو