اردو افسانے کا آغاز و ارتقا

اردو افسانے کا آغاز و ارتقا

صنعتی ترقی نے جب انسان کے فرصت کے لمحات میں کمی لائی تو اس کے بعد ایک نئی صنف وجود میں آئی جسے مختصر افسانے کا نام دیا گیا ہے۔ اردو کا پہلا افسانہ راشد الخیری کا “طاہرہ اور خدیجہ” کو تسلیم کیا گیا ہے جو کہ 1903ء میں “مخزن” میں شائع ہوا تھا۔ مشینی دور میں انسانوں کو طویل کہانیوں کی بجائے چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھ کر پیش کیا گیا۔ افسانہ نگار خام مواد زندگی کے مسائل اور موضوعات سے لیتا ہے۔ افسانہ کوئی تخیلاتی چیز نہیں بلکہ یہ انسان کے زندگی کے مسائل بیان کرتا ہے۔ افسانہ نگار کا مشاہدہ جس قدر تیز ہو گا اس کے نقطہ نظر میں اتنی وسعت ہو گی۔ مزید معلومات کے لیے وابستہ رہیے ہماری ویب سائٹ سے۔Ilmu علموبابا

اردو افسانے کا آغاز و ارتقا  Urdu Afsanay ka Aghaz o Irteqa (History and Evolution of Urdu Short Stories)
اردو افسانے کا آغاز و ارتقا Urdu Afsanay ka Aghaz o Irteqa (History and Evolution of Urdu Short Stories)


اردو افسانے کے آغاز میں دو رجحانات ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں۔
ایک رومانی رجحان جو کہ سجاد حیدر یلدرم اور ان کے ساتھ افسانہ نگاروں کے ساتھ چل رہا تھا۔
دوسراحقیقت پسندی کا رجحان جو کہ منشی پریم چند اور ان کے زیر اثر لکھنے والے دیگر افسانہ نگار تھے ان کے ساتھ چل رہا تھا۔

سجاد حیدر یلدرم کا پہلا افسانوی مجموعہ “خیالستان” جو کہ 1911ء میں شائع ہوا۔ اس میں خیال کی رعنائیوں، زبان کا چٹخارہ، زبان کی رنگینی اور خیال میں ندرت، زبان اور صنعتوں کے بیان میں جو طرز اختیار کیا گیا ہے وہ اس کے افسانوں کو سرا سر رومانی بنا دیتا ہے۔ ان کے ہر افسانے میں تسلسل اور ربط ہے۔ مصنف کا مشاہدہ اور تجربہ کہانی کے پیچھے معلوم ہوتا ہے۔ یلدرم کے ہاں رومانویت ترکی سے آئی اور ترکی پر یہ اثرات فرانس سے آئے۔ ترکی کا ادب خود پرستی کی طرف مائل تھا۔ یلدرم کے ہاں عشقیہ افسانے ہیں اور اس عشق کا موضوع موہوم خیالات ہیں۔ ان کے افسانوں میں جذبہ محبت پایا جاتا ہے۔انہوں نے محبت کے بارے میں لکھا ہے کہ

زندگی میں موسیقی،شعر،پھول اور روشنی،پھر ان سب کا ماحصل عورت کو نکال ڈالو پھر دیکھیں کیوں کر دنیا میں زندہ رہنے کی قوت اپنے میں پاتے ہو۔(سجاد حیدر یلدرم)

حکایات لیلی مجنوں اور خیالستان کے افسانوی مجموعوں میں رومانوی طرزِ فکر کی نمائندگی ملتی ہے۔ مجنوں گورکھپوری بھی ایک بے حد اہم رومانوی افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانوں کو بنیادی موضوع عشق ہے۔ ان کے زیادہ تر افسانوں کی فضا حزنیہ ہے۔ ان کے خیال میں محبت انسان کا بنیادی موضوع سہی لیکن اس میں ناکامی کا عنصر زیادہ ہے۔ شکست ،صدا، خواب و خیال، تم میرے ہو وغیرہ ان کے اہم افسانے ہیں۔

اردو افسانے کے اس ابتدائی دور میں رومانوی رجحان کے ساتھ حقیقت پسندی کا بھی رجحان چل رہا تھا۔ اس رجحان کے علم بردار منشی پریم چند تھے۔ پریم چند نے تخیل اور رومان کی دنیا میں سیر کرنے کی بجائے سماج اور معاشرے میں زمینی حقیقتوں سے واقف کرانے کی کوشش کی وہ نہایت اہم ہے۔ انہوں نے کسان اور مزدور کو ادب کا کردار بنایا۔ اگرچہ ان کے ابتدائی افسانوں پر مقصدیت حاوی ہے اور اخلاقی اور اصلاحی نقطہ نظر سے کام لیتے ہوئے انہوں نے اپنے زیادہ تر کرداروں کی تشکیل میں ایک شعوری موڑ لانے کی کوشش کی ہے لیکن آہستہ آہستہ ان کا نقطہ نظر میں تبدیلی آئی اور آخر دور تک آتے آتے حقیقت نگاری کی عمدہ مثال انہوں نے پیش کی ۔کفن اور پوس کی رات میں ان کا فن کافی عروج پر ہے اور ان کی حقیقت نگاری بھی کافی بلندی پر نظر آتی ہے۔ پریم چند نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ دیہات میں گزارا تھا۔ گاؤں کے لوگوں کے مسائل ،دکھ درد اور پریشانیوں سے واقف تھے۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ ملک میں چلتی جدوجہد آزادی سے بھی پوری طرح متاثر تھے اور عملی طور پر اس میں شریک بھی تھے۔

پریم چند  کی تصنیفی زندگی کی ابتدا 1902ءمیں ہوئی ،جب انہوں نے بنارس کے ہفتہ وار “خلق” میں “اسرار معاہد” کے نام سے قسط وار ناول لکھنا شروع کیا۔ اس کے بعد انہوں نے “ہم خرما وہم ثواب” اور “کشن” دو ناول لکھے۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ “سوز وطن” 1907ء /1908ء میں منظر عام پر آیا۔ جس میں ان کی تحریر کردہ پہلی کہانی “دنیا کا سب سے انمول رتن” شامل  تھی۔ جو کہ حب الوطنی کے جذبات سے سرشار تھا۔ سوز وطن میں شامل پریم چند کا پہلا افسانہ دنیا کا “سب سے انمول رتن” ہے۔ جس میں انہوں نے اس کا اظہار کیا ہے کہ وطن کی آزادی میں بہنے والا خون” سب سے انمول رتن” ہے۔ مشہور ترقی پسند دانشور سجاد ظہیر نے پریم چند کے فن پر اظہار کرتے ہوئے کہا تھا

پریم چند ایک محنتی ،محب وطن اور بے لاگ ادیب تھے جو اپنے فن کو بہتر بنانے اور تجربے اور علم میں اضافہ کرنے کی کوشش میں ہمیشہ لگے رہتے تھے۔ پریم چند ہی کا کام تھا کہ جنہوں نے محنت کش عوام کو اپنے افسانوں اور ناولوں کا ہیرو بنا دیا اور اس زندگی کی سچی تصویر  کھینچی جو سب سے زیادہ حقیقی اور سب سے زیادہ انسان دوستی کا مظہر تھی

پریم چند کے افسانے کسی ایک طبقے ،نسل، ذات یا تہذیب تک محدود نہیں۔ وہ پورے ہندوستانی سماج کی مکمل تصویر ہیں جس میں دیہات اور شہر بھی دکھائی دیتا ہے۔ اور میں رہنے والے مختلف طبقوں کے مسائل بھی نظر آتے ہیں۔ پریم چند کے موضوع اور مواد کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اپنی افسانہ نگاری کے بارے میں خود فرماتے ہیں

میرے قصے اکثر کسی نہ کسی مشاہدے یا تجربے پر پر مبنی ہوتے ہیں۔ میں اس میں ڈرامائی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہوں، مگر محض واقعے کے اظہار کرنا چاہتا ہوں جب تک اس قسم کی کوئی بنیاد نہیں ملتی۔ میرا قلم ہی نہیں اٹھتا۔ زمین تیار ہونے پر میں کریکٹروں کی تخلیق کرتا ہوں۔ بعض اوقات تاریخ کے مطالعہ سے بھی پلاٹ مل جاتے ہیں۔ لیکن کوئی واقعہ افسانہ نہیں ہوتا۔ تاوقتیکہ وہ کسی نفسیاتی حقیقت کا اظہار نہ کرے

بڑے گھر کی بیٹی، نمک کا داروغہ، عید گاہ، پنچایت، حج اکبر، نئی بیوی، نجات، شطرنج کی بازی، پوس کی رات اور کفن وغیرہ سماج کے مسائل پر لکھے گئے افسانے ہیں۔ پریم چند نے ان مسائل کی پیشکش اس قدر فطری اور حقیقی انداز میں کی ہے کہ ہمیں ان کے گہرے سماجی شعور کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ پریم چند کے پیرؤں میں پنڈت سدرشن کا نام لیا جاتا ہے۔ انہوں نے ہندوستانی معاشرے خاص طور سے متوسط طبقے کے ہندوؤں گھرانوں میں در آئی برائیوں کو موضوع بنایا۔ انہوں نے شہر اور دیہات دونوں کی عکاسی کی ہے۔ شاعر، مصور ، ایک مکمل کہانی اور گرومنتر وغیرہ ان کے مشہور افسانے ہیں۔
اس دور کے ایک اور اہم افسانہ نگار علی عباس حسینی ہیں۔ علی عباس حسینی نے سماجی حقیقت نگاری کی روایت کو آگے بڑھایا اور انسانی نفسیات کی سچی تصویر کشی کی۔ انہوں نے پہلا افسانہ “پژمردہ کلیاں” لکھا۔ ان کے افسانوی مجموعوں  میں رفیق تنہائی، باسی پھول، میلہ گھومنی، آئی سی ایس، ہمارا گاؤں ،ایک حمام میں، کچھ ہنسی نہیں ہے، سیلاب کی راتیں اور ندیا کنارے قابل ذکر ہیں۔ پروفیسر سید محمد عقیل رضوی، علی عباس حسینی کے افسانوں پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

حسینی صاحب کے افسانوں کا مرکز عام طور پر دیہات ہے۔گاؤں کے مناظر، اس کی سادگی، حسن اور زندگی، اس کا کھردرا پن، زمیندراوں کی زبردستیاں، کسانوں کی جہالت، یہی سب باتیں ان کے افسانوں میں عام ہیں۔ وہ گاؤں کی گلیوں، وہاں کی چھوٹی موٹی سیاست، سماجی اتار چڑھاؤ سب سے بخوبی واقف معلوم ہوتے ہیں۔ طبقاتی جنگ، کینہ پروری کون کون سی شکلیں اختیار کرتی ہے۔ یہ “ہمارا گاؤں” شیوخ اور “گاؤں کی راج” کے کرداروں میں بخوبی دیکھی جا سکتی ہے” (اردو افسانے کی نئی تنقید ص:212)

علی عباس حسینی کو زبان و بیان پر قدرت حاصل تھی۔ وہ انتہائی سادہ ،عام فہم، اور با محاورہ زبان میں اپنی بات کہنے کا ہنر جانتے تھے۔ ہندی الفاظ کا خوبصورت استعمال بھی ملتا ہے۔ انہوں نے دیہات کے خوبصورت مناظر کی بڑی دلکش انداز میں تصویر کشی کی ہے۔ ان کے افسانوں کی فضا میں مقامی رنگ بھرے ہوئے ہیں۔ علی عباس حسینی کو پلاٹ سازی، کردارنگاری، مکالمہ نویسی، اور منظر بیانی پر مہارت حاصل تھی۔ ان کے افسانوں کے پلاٹ سادہ اور غیر پیچیدہ ہیں۔ ان کے افسانوں میں شامل طنزو مزاح کے عناصر نے بھی انھیں معاصرین سے کچھ مختلف کر دیا ہے۔

اردو افسانے کا ابتدائی دور 1930ء تک جاری رہا۔ اس میں حقیقت پسندی اور رومانوی دونوں رجحانات متوازی طور پر چلتے رہے۔ 1930ء کے بعد اردو افسانہ انقلابی تبدیلیوں سے ہمکنار ہوا، پوری دنیا ایک دوسری عالمی جنگ کے دھانے پر تھی، ہندوستان میں انگارے کی اشاعت وجود میں آئی۔ جو اردو افسانے کے سفر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ پروفیسر قمر رئیس کے مطابق

ایک طرف اردو افسانے کی پرسکون دنیا میں دھماکہ تھی دوسری طرف ان حلقوں اور ان طبقوں میں غیض و غضب کی آگ دہک اٹھی جن کے مفاد اور روایتی وقار کو اس سے ضرب پہنچی تھی۔ اس کی کہانیوں میں جو گستاخانہ بے باکی، برہمی، تلخی، اور سر کشی تھی وہ ایک نئی نسل، نئے طرزِ فکر اور نئے تصور فن کی آمد کا اعلان تھی

انگارے فنی اور فکری اعتبار سے معاصر عالمی ادبی تحریکوں، سیاسی، سماجی، اور معاشی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں اور برصغیر کی اجتماعی صورتحال کا منطقی نتیجہ ہے۔ انگارے کی اشاعت کے بعد اردو افسانے کی تاریخ میں ایک اہم موڑ 1936ء میں ترقی پسند تحریک کا آغاز تھا۔ یہ تحریک ملک میں قومی بیداری، سیاسی اور معاشی حالات اور برطانوی سامراج کی سختیوں کے رد عمل کے طور پر شروع ہوئی۔ اس تحریک کا مقصد ہندوستانی عوام کو ظالموں اور استحصال کرنے والوں کے خلاف متحد کرنا، دبے  کچلے اور کمزور عوام کو ان کا حق دلانا، عورتوں کو سماج میں ان کا جائز مقام دلانا اور فرسودہ رسوم ورواج اور اقدار کا خاتمہ تھا۔ ترقی پسند افسانہ نگاروں میں کرشن چندر، منٹو، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی، احمد علی، احمد ندیم قاسمی، حیات اللہ انصاری، شوکت صدیقی، غیایث احمد گدی، جیلانی بانو اور بلونت سنگھ شامل ہیں۔

کرشن چندر
انہوں نے ابتدا میں رومانوی افسانے لکھے۔ لیکن ان کی رومانیت میں تصنع نہیں تھا۔ لیکن بعد میں انہوں نے حقیقت نگاری کو اپنا شعار بنایا۔ انہوں نے طبقاتی کشمکش، عوام کی معاشی بدحالی، سرمایہ داروں کے مظالم، فرقہ پرستی، وغیرہ موضوعات پر افسانے تحریر کیے۔ عوام سے ان کی سچی محبت انسانیت اور اس کے مستقبل پر اعتماد اور نا انصافی کے خلاف اظہارِ نفرت ان کے افسانوں کے اہم موضوعات ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعے مندرجہ ذیل ہیں۔ نظارے، زندگی کے موڑ پر، ٹوٹے ہوئے تارے، ان داتا، تین غنڈے، سمندر دور ہے، اجتنا سے آگے، ہم وحشی ہیں، میں انتظار کروں گا، دل کسی کا دوست نہیں، کتاب کا کفن، ایک روپیہ اور ایک پھول قابل ذکر ہیں۔

سعادت حسن منٹو
ان کی کہانیاں فنی اعتبار سے بڑی مکمل اور پختہ ہیں۔ منٹو نے اپنے افسانوں کے لیے ان موضوعات کا انتخاب کیا ہے جن سے عام طور پر دوسرے لوگوں نے دامن بچایا ہے۔ طوائفوں، چوروں، گھریلو نوکروں اور پاگلوں کی زندگی پر منٹو نے بہترین افسانے تحریر کیے۔ منٹو اس نظریے کے حامل ہیں کہ برائی سے نفرت کرنی چاہیے، برے سے نہیں۔ ہر  برے آدمی کے اندر اچھائی بھی چھپی رہتی ہے۔ یہ حالات پر منحصر ہے کہ وہ انسان کو کیا بناتا ہے۔ فرقہ وارانہ  فسادات، جنسی اور نفسیاتی مسائل، تقسیم ہند کا المیہ اور زندگی کے گھناؤنے پہلوؤں کو منٹو نے اپنے افسانوں کا بڑی خوبی سے موضوع بنایا ہے۔ پلاٹ کی تشکیل، کردارنگاری، اور اسلوب کے اعتبار سے بھی منٹو کے افسانے بڑے اہم ہیں۔ مختصر افسانے کی تاریخ میں سب سے اچھے افسانے لکھنے کا سہرا بھی منٹو کے سر ہے۔ منٹو کی انفرادیت یہ ہے کہ سب سے زیادہ معتوب اور مطعون افسانہ نگار سمجھا جاتا ہے۔ منٹو کے اوپر فحش نگاری کا الزام لگایا گیا۔ اس لیے اس کے پیشتر افسانوں میں طوائفوں کی زندگی اور ان کے مسائل کو پیش کیا گیا ہے۔ اپنے موضوع کی حمایت کرتے ہوئے منٹو خود کہتا ہے

اگر ویشیاء ذکر فحش ہے تو اس کا وجود بھی فحش ہے۔ اگر اس کا ذکر ممنوع ہے تو اس کا پیشہ بھی ممنوع ہونا چاہیے، ویشیاء کو مٹائیے، اس کا ذکر خود بخود مٹ جائے گا۔ ویشیاء کا وجود خود ایک جنازہ ہے جو سماج اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں۔ جب تک اسے کہیں دفن نہیں کریں گے اس کے متعلق باتیں ہوتی رہیں گی۔

ٹوبہ ٹیک سنگھ، کالی دشلوار، نیا قانون، ہتک، جی آیا صاحب، موذیل، حمد بھائی، بابو گوپی ناتھ، لائسنس، ٹیٹوال کا کتا وغیرہ ان کے اہم افسانے ہیں۔

عصمت چغتائی
انہوں نے اپنے افسانوں میں متوسط طبقے کو مسلم معاشرے کی زندگی کو موضوع بنایا ہے۔ عورت کی زندگی اور اس کے جنسی مسائل پر پہلے بھی کہانیاں لکھی گئی تھی۔ چونکہ عصمت چغتائی خود ایک عورت تھی اس لیے انہوں نے عورتوں کے مسائل کو ایک Insider کی حثیت سے دیکھا اور محسوس کیا۔ انہوں نے عورت کی نفسیات اور دکھتی ہوئی رگوں پر جس طرح انگلی رکھنے کی جرات کی ہے وہ صرف اور صرف انہی کا حصہ ہے۔ عصمت کے افسانوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہیں۔وہ افسانے جس میں انہوں نے گھریلو الجھنوں خاص طور پر جوان لڑکیوں کی جنسی گھٹن اور زیادہ بچوں والی عورتوں کے المیہ کو دکھایا ہے۔ گیندا، جوانی، چوتھی کا جوڑا، اف یہ بچے، لحاف، ڈائن، ساس، نفرت، چھوٹی آپا وغیرہ اس ذیل میں آتے ہیں۔ دوسرے حصے کا تعین تقسیم ملک کے دو تین سال بعد لکھے جانے والے افسانوں سے کیا جا سکتا ہے۔ جڑیں، نوالا، لال چونٹے، پیشہ، بچھو پھوپھی، کنواری، دو ہاتھ وغیرہ اہم ہیں۔ دراصل عصمت چغتائی نے متوسط طبقے کی عورتوں اور لڑکیوں کے چہرے سے نقاب ہٹا کر اس حقیقت کو واضح کیا جس سے ہمارا معاشرہ آنکھیں چار کرنا نہیں چاہتا تھا۔ عصمت چغتائی کے فن کے بارے میں ممتاز شیریں لکھتی ہیں

عورت کے جنسی جذبے، جنسی اٹھان اور ارتقا اور نفسیات کو تو عصمت سے بہتر کوئی ترجمان شاذ ہی مل سکے۔ عصمت نے بے باکانہ جرآت سے عورت کو پہلی دفعہ اصل روپ میں پیش کیا اور اس لیے عصمت کو ہمارے ادب میں خاص مقام حاصل ہے

غلام عباس
اس عہد کے مشہور افسانہ نگار ہیں۔ غلام عباس نے کم لکھا لیکن بہت اچھا لکھا۔ اوور کوٹ، تنکے کا سہارا، فینسی ہئیر کٹنگ سیلون، بھنور، آنندی، اس کی بیوی وغیرہ ان کے اہم افسانے ہیں۔ غلام عباس نے تقسیم ملک، ہجرت وغیرہ موضوعات پر زیادہ تر افسانے تحریر کیے ہیں۔ طوائف بھی ان کا اہم موضوع ہے جس پر انہوں نے اپنا یادگار افسانہ “آنندی” لکھا ۔یہ افسانہ تکنیک کے اعتبار سے بھی قابلِ قدر ہے اور موضوع کے اعتبار سے بھی۔ اس میں پورا شہر ایک کردار کی صورت میں قاری کے سامنے آتا ہے۔ یہ افسانہ پڑھتے ہوئے ہمیں طوائف سے نفرت نہیں ہوتی ہے بلکہ پورا سماج ایک ویلن کی صورت میں نظر آتا ہے۔

احمد ندیم قاسمی
دیہاتی زندگی کے مسائل، دکھ درد، افلاس، فاقہ کشی، قحط سیلاب وغیرہ موضوعات پر اپنے افسانے لکھے۔ دوسری جنگ عظیم پر ان کا افسانہ “ہیروشیما سے پہلے ہیرو شیما کے بعد “اور تقسیم ہند پر” پلوشہ  سنگھ” شاہکار ہیں۔

ممتاز مفتی
انہوں نے نفسیاتی حقیقت نگاری کو اپنے افسانوں کے ذریعے فروغ دیا۔ انہوں نے کردار کے مخفی پہلوؤں کی بھر پور عکاسی کی اور زندگی کی بہت سی الجھنوں کو سامنے لانے کی کوشش کی۔ دودھیا سویرا، آپا، چپ، ہماری گلی وغیرہ ان کے اہم افسانے ہیں۔

حیات اللّٰہ انصاری
ان کے افسانوں کی سب سے بڑی خصوصیت توازن اور تناسب ہے۔ فن پر انھیں قدرت حاصل تھی۔ انہوں نے اردو افسانے کو موضوع کا تنوع بھی دیا۔ چچا جان، جھوٹی زنجیر، موذوں کا کارخانہ، شکستہ کنگورے، آخری کوشش ان کے نمائندہ افسانے ہیں۔

جیلانی بانو
انہوں نے حیدرآباد  تہذیب، معاشرت، یہاں کی بولی ٹھولی (ٹولی) اور نجی زندگی کی عکاسی اپنے افسانوں میں بڑی خوبصورت انداز میں کی ہیں۔ موم کی مریم، پیاسی چڑیا، جب بادل آئے وغیرہ ان کے قابل قدر افسانے ہیں۔

شوکت صدیقی
انہوں نے شہری زندگی کے اسرار و رموز پر اپنے افسانوں میں بڑی خوبی سے نگاہ ڈالی ہے۔ شہروں کی بھیڑ، جرائم، کھلی سڑکیں، آباد فٹ پاتھ ان کے افسانوں کے اہم موضوعات ہیں۔

بلونت سنگھ
انہوں نے اپنے افسانوں میں پنجاب کی دیہاتی زندگی کی بھر پور عکاسی/تصویر کشی کی ہے۔پہلا پتھر ان کا بہترین افسانہ ہے۔ اس تحریک کا رد عمل جدیدیت ہے۔ اردو افسانے کی ارتقا کی تاریخ میں ایک اور اہم موڑ جدیدیت ہے۔

جدیدیت میں ایک اہم وجہ وجودیت کی تحریک کا ہے۔ وجودیت کو یورپ میں کافی ترقی حاصل ہو چکی تھی۔ اور اس زمانے میں پھر ہندوستان میں اس کے اثرات آئے اور ان اثرات کے تحت اجتماعیت کی بجائے انفرادیت سماج کی بجائے فرد پر اور خاص طور پر فرد کی داخلہ زندگی پر توجہ مرکوز کی جانے لگی۔ اور اب فرد کی داخلی احساسات، داخلی کیفیات اور تاثرات کو افسانوں کا موضوع بنایا جانے لگا۔ جدیدیت کے زیر اثر جن افسانہ نگاروں نے اپنے افسانہ نگاری کا آغاز کیا اس میں انتظار حسین خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

انتظار حسین اپنے داستانی اسلوب سے جانے جاتے ہیں۔ ہجرت کا المیہ ان کے افسانوں کا غالب موضوع ہے۔ تہذیبوں جڑوں کی تلاش، ماضی کی شاندار روایات کی بازیافت کے ساتھ انہوں نے داستان، جتھا  کتھائوں، بدھ مت، تصوف، اساطیر اور برصغیر کی پانچ ہزار سالہ تہذیب کو بھی بے حد خوبصورت انداز میں تخلیقی بصیرت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ آخری آدمی، زرد کتا، ایک بن لکھی رزمیہ، خالی پنجرہ، کھیوے، شہر افسوس، ایک خط ہندوستان سے وغیرہ ان کے اہم افسانے ہیں۔

قراۃ العین حیدر
ہجرت اور تقسیم ملک کی صورت میں ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کا بکھراؤ قرات العین حیدر کے افسانوں کا بھی موضوع بنا ہے۔ انہوں نے فرد کی تنہائی اور کرب کو اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے۔  اسلوب کے اعتبار سے بھی ان کے افسانے بے حد اہم ہیں۔ حسب نسب، آینہ  فروش، فوٹو گرافر، روشنی کی رفتار، بہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے، ڈالن والا اور جلا وطن ان کے اہم افسانے ہیں۔

جدیدیت کے زیر اثر لکھے جانے والے افسانوں سے کہانی غائب ہو گئی۔ علامت، تجرید، اشاریت حاوی ہو گئی۔ لیکن یہ رجحان زیادہ عرصہ تک قائم نہیں رہ سکا۔ اردو افسانہ پھر کہانی پن کی طرف لوٹ آیا۔1970ء کے بعد افسانہ نگاروں کی ایک ایسی نسل ابھر کر سامنے آئی جس نے گزشتہ سات دہائیوں کے تجربات سے استفادہ کر کے افسانہ کو ایک نئی سمت عطا کی۔ افسانہ میں کہانی پن بھی باقی رہا اور علامت بھی مبہم نہیں ہوئی۔ ان افسانہ نگاروں میں سلام بن رزاق، عبدالصمد، انور خان، حسین الحق، مرزا حامد بیگ، سائرہ ہاشمی، زاہدہ حنا، اختر جمال، انور قمر، امراءو طارق، شفق، آصف فرخی، علی امام نقوی، سید محمد اشرف، احمد داؤد، غضنفر، پیغام آفاقی، ابن کنول، طارق  چھتاری، انجم عثمانی، مشرف عالم ذوقی، شیموئل احمد، معین الدین جینا بڑے، عرش صدیقی، آغا سہیل، رخسانہ  صولت، نجیبہ عارف، کامران حسین کاظمی وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ ہندوستان اور پاکستان میں اور بھی بہت سے افسانے لکھ رہے ہیں۔ موجودہ عہد میں نئے افسانہ نگاروں کی زبان و بیان میں الجھاؤ نہیں ہے۔ وہ بے جا فضا سازی، مبہم علامتوں اور غیر ضروری جزئیات سے دامن بچا کر افسانے لکھتے ہیں۔ ترقی پسند افسانہ نگاروں کے یہاں موضوع اور مقصد حاوی رہتا تھا جس کی وجہ سے بعض اوقات افسانہ کا فن متاثر ہوتا تھا۔ اس کے برعکس جدید رجحان کے زیر اثر لکھے گئے افسانوں میں نہ موضوع تھا نہ مقصد۔ نا مانوس  علامتوں، تجرید اور ابہام پسندی کے سبب افسانہ محض ایک تحریری کھیل بن کر رہ گیا تھا۔ آٹھویں دھائی کے افسانہ نگاروں نے اپنے لیے ایک نئی راہ متعین کی جو دونوں رجحانات کے درمیان سے گزرتی تھی۔ انھوں نے عصری مسائل کو اس طرح افسانہ کا حصہ بنایا کہ وہ نہ پروپیگنڈہ معلوم ہوا اور قاری کے لیے چیستا بنا۔

اردو افسانہ اب اکیسویں صدی میں داخل ہو کر اپنی عمر کے سو  سال پورے کر چکا ہے۔ آج بھی اردو افسانے کا یہ سفر ختم نہیں ہوا ہے بلکہ نئے لکھنے والے  اپنے لیے نئے راستے بنا رہے ہیں۔افسانہ بھی بلاشبہ غزل کی طرح مقبول و معروف صنف ادب ہے۔

تحریر : آکاش علی مغل

 

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں


اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔

اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔

 

Follow us on

4.5 2 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
2 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
ali khan
ali khan
2 years ago

sir asalam o alikum sir mujhy afsani k ye mawad drkar hy ap mehrobani kry mujhy ye as email pr bejh dy please
[email protected]

Hirra
Hirra
1 year ago
Reply to  ali khan

Asalamalikum sir kaya yeh mawad aap mujhse share karskty haain apki nawazish hogi aur sir ju hawaly ap ney diye hain unki detail mel jti tu
[email protected]

Ilmu علمو
2
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x