سر سید احمد خان کی علمی و ادبی خدمات

قریب تھا کہ مسلمان بالکل مٹ جاتے لیکن خدائے بزرگ برتر نے سرسید احمد خاں کی صورت میں ایک عظیم رہنما کو مسلمانوں کی بہبود کی ذمہ داری سونپی۔ مشکلات میں گھری ہوئی قوم کو سرسید نے حوصلہ دیا، ان کو مزید تباہ ہونے سے بچایا اور ان کے احیا کی کامیاب کوششیں کیں۔ خوش قسمتی سے بہت سی باصلاحیت اور خوبیوں کی مالک شخصیتیں ان کے احباب میں تھیں۔
سرسید نے علی گڑھ کو تحریک کی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔ سرسید کی قیادت میں تحریک علی گڑھ نے بے پناہ خدمات انجام دیں۔ تحریک کی بدولت مسلمانوں کو سیاسی ، اقتصادی ، سماجی ،ثقافتی اور مذہبی شعبوں میں بہت مدد ملی اور وہ رفتہ رفتہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔سرسید ایک ماہر تعلیم ، وسیع الذہن مذہبی رہنما، عظیم صحافی ،منفرد ادیب اور دوراندیش سیاست دان تھے۔ آپ نے اپنی زندگی میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے، کوئی دوسرا کئی زندگیاں پا کر بھی ایسا نہ کر پاتا۔ انھوں نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور ہر شعبے میں کامیابیوں نے ان کے قدم چومے۔ سرسید نے تعلیمی ، سیاسی، سماجی اور ادبی، غرض زندگی کے ہر شعبے اور میدان میں مسلمانانِ ہند کی رہنمائی کی۔ ذیل میں ان کی خدمات کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔
سرسید نے مسلمانوں کے لیے تعلیم کی ضرورت پر بڑا زور دیا اور تلقین کی کہ جدید مغربی اور سائنسی تعلیم حاصل کر کے وہ جلد از جلد بر صغیر کی دوسری اقوام کے برابر مقام حاصل کریں ، ملازمتوں کے لیے مقابلہ کریں اور سماجی و اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ تعلیم کی اہمیت کو بیان کرنا ہی انھوں نے کافی نہ سمجھا بلکہ عملی اقدام اٹھاے اور مسلمانوں کو تعلیم کے حصول میں سہولتیں مہیا کیں۔
سرسید نے 1859ء میں مراد آباد ، 1862ء میں غازی پور اور 1875ء میں علی گڑھ میں تعلیمی اداروں کا اجرا کیا۔ ان اداروں میں جدید علوم بالخصوص انگریزی ادب اور سائنس کی تعلیم دی جاتی تھی۔اسلامی تدریس کا بھی اعلیٰ بند و بست موجود تھا۔سرسید جدید علوم کومسلمانوں تک جلد از جلد پہنچانا چاہتے تھے۔ سرسید نے سائنٹیفک سوسائٹی کے نام سے ایک ادارہ غازی پور میں 1862ء میں قائم کیا۔ اس ادارے میں انھوں نے مغربی کتابوں کے تراجم کروائے اور اس طرح اردو زبان میں ایک بڑا ذخیرہ منتقل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
سر سید علی گڑھ منتقل ہوئے تو سوسائٹی کا صدر دفتر بھی غازی پور سے علی گڑھ منتقل کر دیا گیا۔ سوسائٹی ایک ہفتہ وار رسالہ بھی شائع کرتی رہی جس میں تحریک علی گڑ ھ کی سرگرمیوں کا احاطہ کیا جا تا تھا۔سرسید نے اپنے تعلیمی اداروں میں جدید ترین مغربی نصاب رائج کیا اور اس کی تخلیق میں انگریز اسا تذہ کی خدمات انھیں حاصل رہیں۔ سائنٹفک سوسائٹی کے زیر اہتمام 1866ء میں ”علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ“ نکالا گیا۔ اس رسالے میں تحریک کی سرگرمیوں کی خبریں بھی شائع ہوتی تھیں اور برصغیر کے عوام کے معاشی ، سماجی اور سیاسی مسائل پر مقالے بھی لکھے جاتے تھے۔ یہ گزٹ انگریزی اردو دونوں زبانوں میں شائع ہوتا تھا۔
1877ء میں علی گڑھ میں مشہور زمانہ علی گڑھ کالج کا قیام عمل میں لایا گیا۔ سرسید کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دلانا چاہتے تھے اور اس ضمن میں انھوں نے ان تھک محنت کی۔ ان کا یہ خواب ان کی زندگی میں تو پورا نہ ہوسکا البتہ 1920ء میں علی گڑھ یونیورسٹی قائم ہوئی تو ان کا یہ خواب مکمل ہوا۔ سر سید احمد خان نے 27 دسمبر 1886ء میں محمڈن ایجو کیشنل کانفرنس کی بنیاد رکھی۔ اس کانفرنس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لیے اقدامات کرنا تھا۔
اسی طرح اگر سرسید کی سیاسی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو آپ نے نہ صرف ہندو مسلم اتحاد قائم کرنے میں کرادر ادا کیا بلکہ مسلم نوجوانوں کو حتی المقدور سیاست سے دور رکھنے کی کوشش بھی کی۔ یہی نہیں 1867ء میں بنارس میں اردو ہندی تنازعہ میں آپ کی خدمات بھی قابل اعتراف ہیں۔یوں تو سر سید کی خدمات کے تمام پہلو ہی قابل ستائش ہیں لیکن اگر ان کی ادبی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو اردو کو بیش قیمت ادبی خزانہ اور ادب میں مقصدیت کو پروان چڑھانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔غرض سرسید نے جو کچھ بھی لکھا اس میں ایک اعلیٰ پاے کے مصنف کی شان اور تحریر کے حسن کا نمایاں وصف ہے۔
سر سید احمد خان کی ادبی خدمات
سرسید کی تحریک میں وقتی و مرکزی حیثیت اعلی مغربی علوم اور انگریزی کی تعلیم کو حاصل تھی۔ خصوصاً مسلمانوں کو ان جدید علوم سے آراستہ کر کے انھیں عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی یہ پہلی کوشش تھی۔ تا ہم اس تحریک کا اہم اور بنیادی جز اس کے زبردست ادبی اثرات نیز اردو ادب کی خدمات ہیں جو بجاطورپر ایک زبردست ادبی تحریک کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سر سید کی ادبی خدمات کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا دور 1840ء سے 1857ء، دوسرا دور1857ء سے 1870ء تک اور تیسرا دور 1870ء سے 1897ء تک کا ہے۔
پہلا دور:
پہلے دور میں 1839ء میں کتاب الاخوین مرتب کی۔جو کہ قانون دیوانی کا خلاصہ تھی۔ یہ عرصہ دراز تک منصفی کے امید واروں کے لئے مفید ثابت ہوئی۔ جلاء القلوب بذكر المحبوب ( مذہبی) 1839ء میں لکھی ہوئی محفل میلاد کے لئے ہے گو کہ یہ با لکل ابتدائی تحریروں میں سے ہے مگران کے جدید رجحانات کی نشان دہی کرتی ہے۔ سرسید نے اس کتاب کی روایتوں کی نقل میں صحت کا خیال رکھا ہے۔ رائج الوقت غیر مستند اور روایتی چیزوں سے گریز کیا ہے جو ان کے اجتہادی رحجانات کی نشان دہی کرتی ہے۔ جام جم ( تاریخی بہ زبان فارسی ) 1840ء میں شائع ہوئی جس میں خاندان تیمور کے تینتالیس (43) بادشاہوں کا ذکرسترہ سترہ خانوں میں جدولوں کی شکل میں لکھا ہے جو تاریخ سے دلچسپی ظاہر کر تی ہے۔
تحفہ حسن (مذہبی) 1844ء میں شاہ عبدالعزیز کی فارسی کتاب کے دسویں اور بارہویں باب کا ترجمہ ہے۔ تسہیل فی جرثقیل (علمی) 1844ء میں شائع ہوئی جو فارسی کی معمارالعقول کا ترجمہ ہے۔ اس میں جرثقیل کے پانچ اصول و قواعد درج ہیں۔ یہ کوئی ادبی کارنامہ نہیں مگر یقیناً سرسید کے علمی و ادبی ذوق کی ایک کڑی ہے۔ فوائد الافکار فی اعمال الفرجار ( علمی مضمون جیومیٹری کے پر کار اور اس کے اعمال واشکال پر ) جو دراصل ان کے نانا ( فرید الدین ) کے فارسی مسودوں کا اردو ترجمہ ہے۔ اس سے ایک طرف تو سرسید کا اس مضمون سے شوق و دلچسپی اور علم دوستی ظا ہر ہوتی ہے دوسری طرف علم کو مفید عام کرنے کی خواہش۔
آثارالصنادید (تحقیقی و تاریخی تصنیف) 1847ء میں پہلا ایڈیشن شائع ہوا۔ یہ سرسید کی وہ پہلی تصنیف ہے جس کی شہرت یورپ تک ہوئی۔ انگریزی و فرانسیسی زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے اسی کتاب کی تصنیف پر رائل ایشیاٹک سوسائٹی کی طرف سے انھیں سوسائٹی کی آنریری فیلو شب ملی تھی۔ اس کتاب میں قدیم دہلی کی تمام ہندو مسلم تاریخی عمارتوں ، باغوں قلعوں اور گلیوں وغیرہ کا تفصیلی ذکر ان کی وجہ تعمیر و تاریخ اور نقشوں کے ساتھ ملتا ہے۔ نیز دہلی کے قدیم مشاہیر، علما و صلحا ، مشائخ ، حکماء، شعرا نویس اور دیگر ماہرین فنون کا تذکرہ ہے۔ یہ سرسید کے اولین دور کی سب سے اہم تصنیف ہے۔ سرسید نے اس کے لئے بہت محنت اور جانفشانی سے کام لیا۔ خود ان کے بیان کے مطابق انھیں کتبوں کے پڑھنے کے لئے گھنٹوں چھلکے پر بیٹھے رہنا ہوتا تھا۔ جو بہت خطر اور درد سری کا کام تھا۔
قول متین در ابطال حرکت زمین (علمی و سائنسی ) 1848ء میں شائع ہوئی۔ یہ رسالہ اس وقت لکھا تھا جب حرکت زمین کے قائل نہ تھے۔ اس میں زمین کے ساکت رہنے کو دلائل کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ترجمہ فیصلہ جات صدر شرقی وصدرغربی (قانونی ) 1849ء میں یہ مقدمات کے متعلق اعلی عدالتوں کے فیصلوں کا ترجمہ ہے گو یہ کوئی ادبی چیز نہیں مگر سرسید کی قانون سے دل چسپی نیز ان کی نظر میں اس کی ضرورت واہمیت کو ظاہر کر تا ہے۔ غیر قانون دانوں اور قانونی طلبہ کے لئے یہ مفید تھا۔
كلمۃ الحق (مذہبی) 1849ء میں شائع ہوئی۔ اس رسالہ میں پیری و مریدی کے مروجہ طریقہ کی مخالفت کی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ سرسید میشم بند تقلید سے ہمیشہ گریز کرتے تھے۔ اوراجتہادی رجحان نمایاں تر تھا۔ راه سنت در بدعت ( مذہبی ) مؤلفہ 1850ء ، اس رسالہ سے بھی اجتہادی رحجانات اور مذہبی آزاد خیالی کا پتہ چلتا ہے اور یہ بھی کہ سرسید حضرت شاہ ولی اللہ کی تحریک اور مذہبی خیالات سے متاثر تھے۔ سلستہ الملوک 1852ء میں دہلی کے راجاؤں اور بادشاہوں کی پانچ ہزار سالہ مختصر تاریخ ہے۔ ترجمہ کیمیائے سعادت (مذہبی ) 1853ء حضرت امام غزالی کی کیمیائے سعادت کی ابتدائی تین فصلوں کا اردو ترجمہ ہے جو تصانیف احمد یہ میں شامل ہے۔تاریخ ضلع بجنور 1855ء میں بمقام بجنور کلکٹر کی ایما سے مرتب کی۔ یہ تاریخ سرسید نے بڑی محنت سے لکھی تھی۔ ان کا بیان ہے گو اس تاریخ میں ضلع کے حالات کے سوا کوئی عام بات نہ تھی مگر اشائے تحقیقات میں بعض قانون گویوں کے پاس اکبر اور عالمگیر کے زمانے کے ایسے کا غذات ملے جن سے نہایت عمدہ نتیجے نکلتے تھے۔ یہ سرکاری دفتر میں ہی غدر میں تلف ہوگئی اور شائع نہ ہو پائی۔ تصحیح آئین اکبری ( تاریخ ) 1856ء کے لگ بھگ شائع ہوئی۔ سرسید نے اس کتاب کے جتنے نسخے دستیاب ہوسکتے تھے حاصل کئے اورسب کو ملا کر بڑی محنت سے تصحیح کی۔ جو غلطیاں اور تاریخی فرق مختلف نسخوں میں مختلف طور سے تھے ان سب کی تصحیح کر دی۔ اس طرح ایک صحیح نسخہ تیار کیا، جو اصطلاحیں اکبر کے زمانے میں مروج تھیں یا ابوالفضل نے اختراع کی تھیں ان کی تشریح کی۔ قدیم اوزان و نقود کی نئے اوزان نفرد سے مطابقت کی۔ فارسی، عربی، ترکی ، ہندی اور سنسکرت کے اکثر غریب الفاظ کی شرح کی ، بڑے اہتمام سے سیکڑوں تصویریں ماہر تصور میں سے کھنچوا کر کتاب میں شامل کیں۔ ان تصویروں میں اکبر کے زمانے کے لباس، ہتھیاروں، شاہی نیل خانوں خیموں ، شکار گاہوں اور محلات کی اکثر تفصیلات او ظروف الات، پھولوں، پھلوں اور دیگر اشیاء تھیں۔ سرکشی ضلع بجنور 1857ء میں شائع ہوئی جس میں ضلع بجنور کے صحیح حالات اور اس کی پوری تفصیل لکھی تھی اور جس کا مسودہ دوران غدر تلف ہوگیا۔
دوسرا دور:
یہ دور 1857ء سے 1870ء تک محیط ہے۔ اس دور میں تاریخ سرکشی بجنور 1857ء میں شائع ہوئی۔اسباب سرکشی ہندوستان (سیاسی) 1858ء میں شائع ہوئی جو عام طور پر اسباب بغاوت ہند کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں غدر کے اسباب سلجھے طور پر نہایت نرم مگر مدلل انداز میں بیان کئے ہیں۔ انگریزوں کے غرور اور ہندوستانیوں سے حقارت پر نکتہ چینی کی ہے۔ لائل محمڈنز آف انڈیا یا وفا دارمسلمانان ہند (سیاسی رسالہ) 1860 اور 1862ء میں جاری کیا جس میں ان مسلمانوں کے حالات درج کئے جاتے تھے جو وفادار گورنمنٹ سے یا جنہوں نے دوران غدر انگریزوں کی مدد کی اور ان کی جانیں بچائیں۔ اس کے صرف تین شمارے نکل سکے دراصل یہ سلسلہ مسلمانوں کی طرف سے انگریزوں کے خصوصی غصہ و نفرت کو کم کرنے کے لئے تھا تا کہ وہ ہر موقع پر بے خطا مغضوب ہوتے رہنے سے بچ سکیں۔
تصحیح تاریخ فیروز شاہی (تاریخی ) جو بنگال ایشیاٹک سوسائٹی نے شائع کی۔ یہ مشہور قدیم مصنف ضیاء الدین برنی کی تصنیف ہے۔ سرسید نے اس کتاب میں جو دیباچہ لکھا تھا وہ سائنٹیفک سوسائٹی اخبار کی پہلی جلد میں شائع ہوا۔ تبیین الکلام (مذہبی) بائبل کی تفسیر 1863ء میں غازی پور سے شایع کی۔ ایک کالم میں عبرانی توریت کی عبارت عربی خط میں اور اس کا انگریزی دار اردو ترجمہ دوسرے کالم میں اسی مضمون کی آیت قرآنی بہ حدیث یا اس کا ترجمہ اردو انگریزی میں لکھا گیا ہے۔ اس کے بعد تفسیر لکھتے ہیں اور دونوں کی تطبیق کرتے ہیں۔ جہاں اختلاف ہوتا قرآنی احکام بیان کرکے ان کی فوقیت ثابت کر تے۔ یہ کتاب دو ضخیم جلدوں میں شائع ہوئی گو یہ مکمل نہ ہوسکی مگرجوحصہ مکمل ہوا وہ اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔
تزک جہانگیری کو سائنٹیفک سوسائٹی نے 1864ء میں شائع کیا۔ یہ کتاب شہنشاہ جہانگیر کی خودنوشت سوانح ہے جو ایک مشہور قدیم کتاب ہے ۔ اس سے جہانگیر بادشاہ کے زمانے کے تاریخی حالات پر روشنی پڑتی ہے۔ احکام طعام اہل کتاب (مذہبی ) جس میں قرآن پاک و حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ عیسائیوں کے ساتھ ان کے برتنوں میں ان کے پکارے ہوئے کھانے جائز ہیں۔ مسلمانوں میں عیسائیوں سے رابطہ بڑھانے اور مغربی تعلیم و معاشرت کی قبولیت پیدا کرنے کے واسطے لکھی تھی کیونکہ مسلمان مذہب کو اس میں مانع سمجھتے تھے۔
مسافران لندن 1869ء میں شائع ہوا جس میں لندن شہر میں چھ ماہ کے سفر کا منفرد حال شائع کیا۔ اس میں سفر کے تجربات نئی نئی اور مفید چیزوں کی تفصیل درج ہے جن چیزوں کو ہندوستان کے لئے مفید سمجھا ان کو خاص طور سے بیان کیا ہے۔ عمارات ، طرز معاشرت، نئی سائنسی ایجادات اور مغربی دنیا کے عجائبات کا تذکرہ مفصل اور دلچسپ ہے۔ اس میں بھی قومی اور حب وطنی نمایاں ہے۔خطبات احمدیہ (مذہبی شکل میں بمقام لندن) یہ ولیم میور کی کتاب لائف آف محمد کا جواب ہے۔ جس میں مصنف کے اعتراضوں کا مدلل جواب دیا ہے۔ یہ وہ مشہور تصنیف ہے جس کا عیسائی محققین نے بھی لوہا مانا ہے۔ یہی سر سید کی وہ تصنیف ہے جس کے لئے انھوں نے اپنا گھر، سامان اور کتب خانہ گروی رکھ کر لندن کے سفر کی تیاری کی۔ لندن میں رہ کر یورپ کی نایاب کتا میں مہیا کیں۔ انڈیا آفس کا کتب خانہ چھان ڈالا اور ان کتابوں کی مدد سے اپنی تصنیف مکمل کی۔ انگریزی، جرمنی، عبرانی اور لاطینی کتابوں سے عیسائیوں اور یہودیوں کی تا ریخی و مذہبی کتابوں سے مواد اور دلائل نکالے۔ اس طرح ایک مدلل جواب تیار کیا جس کے بارے میں خود میور کو کہنا پڑا کہ میں نے سرسید کے اسلام پر اعتراض نہیں کئے بلکہ اس اسلام پر اعتراض کئے ہیں جس کو تمام دنیا کے مسلمان مانتے چلے آتے ہیں۔
سر سید نے 1866ء میں سائنٹفک سوسائٹی اخبار بھی جاری کیا جو بعد میں علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے نام سے موسوم ہوا۔ اس اخبار کے ذریعے سر سید نے نئے ذہنوں کی تشکیل ، نئے علوم کی ترویج ، اور نئے سیاسی فہم کی ابتداء کرنے میں بڑا کام لیا۔ اس پورے دور کی تحریر میں مقصدیت ہر جگہ نمایاں نظر آتی ہے جس سے ادب و زندگی کا تعلق واضح ہونے لگا۔ سرسید نے ادب میں اجتماعی نقطۂ نظر کا آغاز کیا جس میں عقلیت و مادیت کو خاص دخل تھا۔ وہ مذہب کو جذبات کے تحت نہیں بلکہ علم وعقل کی روشنی میں پر کھنے کی راہ کھول دیتے ہیں۔
تیسرا دور
یہ دور 1870ء میں سرسید کی انگلستان سے ہندوستان کی واپسی پر شروع ہوا اور ان کی عمر کے ساتھ 1898ء میں ختم ہوتا ہے۔ یہی وہ دور ہے جس نے سرسید کی ادبی خدمات کو ان کا تصنیفی سرمایہ ہی نہیں بلکہ ان کی مصلحانہ کوششوں کا میدان، خاص طور ملک وقوم کی ترقی کا عنوان عام بھی بنا دیا۔ اسی وجہ سے آج جب ہمیں سرسید کی مصلحانہ کاوشوں کی تلاش ہوتی ہے تو ہم ان کی اس دور کی خدمات ادبی کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اس لئے بھی کہ ان کی ادبی خدمات ان کی تمام مصلحانہ کاوشوں کا آئینہ دار ہیں۔اس دور میں سرسید نے اردو ادب کو وہ آزاد ذہن دیا جس میں زندگی کی وسعتیں، عقل کی گہرائی اور نظر کاعمیق بیک وقت بغل گیر نظر آتے ہیں۔اس دور کی تحریریں مندرجہ ذیل کارناموں پرمشتمل ہیں۔
1870 میں انگلستان سے واپسی پہ تہذیب الاخلاق جاری کیا۔ جو کہ وقفے وقفے سے تقریباً پندرہ سال یعنی 1897ء تک جاری رہا۔ان تمام جلدوں میں بیشتر مضامین سرسید کے ہیں جو مختلف انتخابات کی صورت میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ تہذیب الاخلاق سرسید کے مشن کا زبردست آرگن تھا۔ سرسید کے مخالفین کے لئے اس نے آگ پر تیل کا کام کیا مگر سرسید کے مضامین نے اسی کے ذریعہ پورے دور کے ذہن پر جدید کی مہر ثبت کر دی۔ نظریات کی ٹکر جتنی زبر دست ہوئی اس سے زیادہ اثر ہوا۔
1871ء میں ولیم ہنٹر کی کتاب انڈین مسلم پہ زبردست ریویو لکھا۔1876ء میں تفسیر القران لکھنا شروع کی۔سرسید کے تفسیر کے اصول و قواعد میں عقلیت کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ جو بات عقلیت کی ترازو میں پوری نہیں اترتی تھی یا عام اصول نیچر کے خلاف معلوم ہوتی تھی ، رائج الوقت اعتقاد کی صورت میں اسے نہیں مانتے تھے بلکہ قرآن شریف سے اس کی عقلی تاویل کرتے تھے۔ اس وجہ سے انہیں علماء اور مذہبی خیالات کے لوگوں کے نفرت و غصہ کا شکار ہونا پڑا۔ مگر وہ جس بات کو بھی جانتے اس کے اظہار میں کبھی تامل نہ کرتے۔
اس کے علاوہ مندرجہ ذیل رسالے ہیں جو تقریباً سب مذہبی عنوانات پر لکھے گئے ہیں۔ طریقہ الصلاۃ ، رسالہ ہوالموجود ، اسرار الصلوۃ ، خلق الانسان وغیرہ۔ ان سب رسائل کی نوعیت مذہبی تھی۔سرسید کا ایک اہم کارنامہ جو ادب سے تعلق رکھتا ہے اور اس دور میں ہمہ گیری حاصل کرتا ہے ان کی مضمون نگاری ہے۔ یہ تہذیب الاخلاق کے ذریعہ نہایت کامیابی سے پروان چڑھی۔ تہذیب الاخلاق سرسید کی اصلاحوں کا کارزار اور ادب و تنقید کا میدانِ خاص تھا۔ علمی، مادی لحاظ سے تہذیب کا یہ کارنامہ بھی کم نہیں مگر اس کی قدر و منزلت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ ملک میں ایک خاص علمی و ادبی اور فکری روح پیدا ہوئی جس نے مسلمانان ہند کے انداز فکر و نظر میں نمایاں تبدیلی پیدا کی۔
بلاشبہ سرسید کے یہاں موضوعات کا تنوع حیرت انگیز ہے۔ علم وادب ، تاریخ و تنقید، سیر و سوانح، مذہب و سیاست ، تہذیب ومعاشرت عقل و حکمت ، مادیت و روحانیت ،مغرب و مشرق، تقدیم و جدید ، وہ کون سا موضوع ہے جس کو نہایت کامیابی سے نہ برتا ہو۔ اس طرح وہ تحقیق و تنقید میں ہمارے ادب کا اہم جز بن گئے۔ مقصدیت کو پورے طور سے استعمال کر کے ادب و زندگی کارشتہ اور اس کے نقوش واضح کر دیے۔ غرض سرسید نے جو کچھ بھی لکھا اس میں ایک اعلیٰ پاے کے مصنف کی شان اور تحریر کے حسن کا نمایاں وصف ہے۔

#سر #سید #احمد #خان #کی #علمی #ادبی #خدمات

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
Ilmu علمو
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x