سقوطِ سویت یونین کے اسباب – تحریر وسیم عباس

سقوطِ سویت یونین کے اسباب

سابقہ سویت یونین کو زوال کیوں اور کیسے آیا؟ آیا وہ کون سے محرکات تھے، جس نے اتنی عظیم  تحریک کا کچھ ہی عرصے میں خاتمہ کر دیا۔ سقوطِ سویت یونین کے اسباب آخر اندرونی اسباب کیا کیا تھے؟ سویت یونین کے بارے میں مزید جاننے کے لیے ہماری ویب سائٹ ملاحظہ کرتے رہیے۔ Ilmu علموبابا

سقوطِ سویت یونین کے اسباب - تحریر وسیم عباس Saqoot-e-Soviet Union ky Asbaab (Reasons of Soviet Union's Fall) - Waseem Abbas
سقوطِ سویت یونین کے اسباب – تحریر وسیم عباس Saqoot-e-Soviet Union ky Asbaab (Reasons of Soviet Union’s Fall) – Waseem Abbas

ایک وقت ایسا بھی تھا جب سویت روس ادب، فنون لطیفہ رقص، سائنس کے میدان امریکہ کے مدمقابل تھا اور اس کا شمار امریکہ کے بعد طاقتور ملکوں میں ہوتا تھا۔ سویت یونین جو کہ پندرہ جمہوریتوں پر مشتمل تھی اسکا بننا بیسویں صدی کا بڑا واقع تھا اور اس کا بکھرنا بھی اس سے بڑا حادثہ تھا جس نے اہل فکر ونظر کو ورطہ حیرت میں ڈالا کہ کس طرح اتنی بڑی ریاست راتوں رات ٹوٹ گئی۔ سویت یونین جس کے پاس زمین کا چھٹا حصہ اور اس میں سو قومیتیوں کے لوگ رہتے تھے۔ اس بڑی ریاست کو زوال ، منچانل گوریا چوف کے دور میں آیا۔ جب اس نے اصلاحات کا اعلان کیا۔ ایک ایسی ریاست جس نے فاشٹ ہٹلر کو شکست دی اور دنیا بھر کے انقلابیوں کی مالی معاونت کی ۔ کیوبا اور ویتنام کے انقلاب میں بھی سویت یونین نے اہم کردار ادا کیا تھا۔

ایک وقت تھا کہ پوری دنیا میں سویت روس کا ڈنکا بج رہا تھا اور امریکہ کو سخت خدشہ تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سویت انقلاب کے اثرات امریکہ کے دیواروں پر دستک دینا شروع ہو جائیں۔  اس وجہ سے امریکہ نے پہلے دن سے ہی اس کو بدنام کرنے کے لئے اقدمات  شروع کیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سویت یونین کے زوال میں امریکہ اور یورپ نے کلیدی کردار ادا کیا۔ دنیا بھر کی مذہبی تنظیموں کو اکٹھا کیا گیا،   ان کو امریکہ اور مغربی ممالک نے اسلحہ اور فنڈ فراہم کیے،  جس سے ان مذہبی تنظیموں نے سویت افواج کے خلاف گوریلا جنگ کا آغاز کیا اور بالآخر سویت یونین کے افواج افغانستان سے جانے پر مجبور ہو گئے۔ اس جنگ سے سویت یونین کو بھی بے پناہ نقصان سے دوچار ہونا پڑا،  جس نے معیشت کو بری طرح متاثر کیا۔ ان سب کے علاوہ کچھ اندرونی معاملات بھی سویت یونین کے زوال کی وجہ بنے۔

سویت آمریت

سویت یونین کا قیام1917ء میں  ،  بالشویک انقلاب کے ذریعے ہوا تھا۔ اور زار نکولس دوم کو اقتدار سے ہٹایا اور روس کی سابقہ حیثیت کو ختم کیا گیا۔ 1922ء میں لینن کی قیادت میں دور دراز کی ریاستوں کو سویت روس کا حصہ بنا دیا گیا، جس کے سربراہ کو ولاری میر لینن تھے۔ سویت یونین ایک وسیع و عریض ریاست تھی جس پر قابو رکھنا ایک مشکل کام تھا۔ زار حکومت کو ختم کرنے کے بعد جب کمونسٹ انقلاب آیا تو لینن نے جمہوری ریاست بننے کی کوشش کی لیکن ایسا نہ ہوا اور آمریت ہی قائم ہوئی جس میں اہم آمر نام جوزف سٹالن کا آتا ہے۔ کچھ وقت کے لئے پارلیمان بھی قیام میں لایا گیا جسے سپریمو سویت کہا گیا لیکن سارے فیصلے ایک مختصرٹولہ کرتا تھا۔ سویت یونین نے  ذاتی جائیداد کا تصور ختم کیا اور تیز ترین کامیابیاں حاصل کیں۔  لیکن معیشت  کے مید ان میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پارٹی کا کنٹرول مضبوط ہوتا گیا۔ سٹالن کے وقت سے ہی سیاست، معشیت اور ریاست پر پارٹی کا کنٹرول مضبوط ہوگیا تھا ۔ مخالفین کو سائبریا بھیجا جانے لگا۔ جہاں ان کو اذیتیں دی جانے لگیں،  مختلف دانشواروں پر پابندی لگنے لگی اور دانشواروں کو ملک بدر کیا جانے لگا۔

سخت نوکر شاہی

آمریت اور مرکزی حکومت کی وجہ سے سویت یونین میں ایک بڑی بیوروکریسی بھی وجود میں آئی جس کا کنٹرول معاشرے کے ہر حصہ پر بڑھتا  چلا گیا۔  شہری سخت احتساب اور نگرانی سے تنگ ہو گئے۔ اظہار رائے اور تنقید پر بھی سخت پابندی تھی جس سے ملک میں بے چینی پھیلتی چلی گئی۔

گورباچوف  اور اس کی اصلاحات

سویت یونین کے بکھرنے کے بہت سے وجوہات تھیں لیکن اس کی سب سے اہم وجہ خود گوربا چوف بھی تھے۔ وہ اسی لئے اقتدار میں آیا تھا تاکہ سویت یونین کو تبدیل کر سکے۔80کی دہائی کے دوران سیاسی سطح پر ایسے حالات بنائے گئے جس سے موقع پرستی کو مزید تقویت ملی۔ 1987ء  میں منظور کیے گئے قانون کے ذریعے ردِ انقلاب کی کامیابی کا راستہ صاف کیا گیا۔ اس قانون کے ذریعے سوویت یونین میں ذاتی ملکیت اور سرمایہ دارانہ نظام کی مختلف شکلوں کومعاشی رشتوں کو قانونی طور پر تسلیم کر لیا گیا تھا۔

نوے کی دہائی کی ابتدا میں منڈی کے منصوبے “بند معیشت “کے سوشل ڈیموکرٹیک نقطہ نظریے  کی انتہائی  تیزی کے ساتھ “پابند منڈی معیشت “کے حق میں دستبرداری اختیار کر گئی۔یہاں معاملہ پہنچ کر بھی نہ رکنے والا نہیں تھا۔ چنانچہ اس نام نہاد منڈی کی معیشت سے بھی پیچھے ہٹنا پڑا۔آخر کار ”آزاد منڈی کی معیشت“ نے غلبہ حاصل کیا۔ ان اصلاحات کے نفاذ کے دو عشروں بعد مسائل واضح طور پر شدت اختیار کر گئے تھے۔ سوشلسٹ تعمیر کی پوری تاریخ میں پہلی مرتبہ جمود نے سر اٹھایا۔ صنعتی اداروں اور کارخانوں میں تکنیکی پسماندگی ایک حقیقت بن گئی۔ متعدد اشیائے ضروریہ کی منڈی میں کمی کی شکایات بڑھنے لگیں۔ اس کے ساتھ ساتھ منڈی کو کئی طرح کے دیگر مسائل کا بھی سامنا شروع ہو گیا۔ کیونکہ کارخانے خود ساختہ تیزی لانے کے لیے کبھی کچھ چیزوں سے دکانیں کچھا کھچ بھر دیتے تھے تو کبھی چیزوں کی پیداوارروک دیتے تھے۔

پھر 1985 میں کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری بنے تو معیشت کا حال بہت برا تھا۔ انھیں ایک محرک اور غیر فعال سیاسی ڈھانچہ ملا تھا۔ اس وجہ سے گوربا چوف نے اصلاحات کے نام پپ چند فاش غلطیاں کیں۔ جس میں ایک کم حکومتی کنٹرول کی پالیسی تھی وہ سمجھتے تھے کہ اس سے ریاست کو فائدہ ہو گا اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو گا ۔

ردِ انقلاب کے حمایتی

سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی رد ِانقلاب کے حمایتی کرداروں کو بروقت بے نقاب نہیں کر پائی۔ نوے  کی دہائی میں پارٹی کے اندر سرمایہ دار موقع پرست اور کمیونسٹ بزرگ ہر وقت جمع رہتے۔ یہی وہ وقت تھا کہ جب رد ِانقلاب نے اپنا فیصلہ کن حملہ کیا۔اس دوران کمیونسٹ قوتیں اتنی مضبوط نہیں تھیں کہ رد انقلاب کو روک پاتیں۔ اب کے انہوں نے خود کو روسی محنت کش عوام کے متحدہ مجاز کے گرد جمع کیا۔ انہوں نے روسی صدر اور نائب صدر کے لیے امیدوار کھڑا کر دیا۔ کمیونسٹ تحریک کے اقدامات کے ذریعے انہوں نے سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر میں کام کیا اور کوشش کی کہ گورباچوف کو ان کی کمیونزم مخالف سرگرمیوں کی پاداش میں پارٹی سے نکال کر باہر کردیا جائے۔ لیکن اس مزاحمت کے باوجود انقلابی کمیونسٹوں کا ایسا ہر اول دستہ ، جو نظریاتی و سیاسی طور پر واضح اور مستقل مزاج ہو جو طاقتور ہوتے جارہے تھے۔ رد ِ انقلاب کے خلاف محنت کش طبقے کے نظریاتی ، سیاسی اور تنظیمی سطح پر قیادت کر سکے۔ بروقت تشکیل نہیں پاسکا۔ حتیٰ کہ اگر اس مزاحمتی عمل کو بالخصوص 1980ء  کے عشرے میں روکا نہیں جاتا تو حکمران ان پارٹیوں کے اندر بھی اور عالمی کمیونسٹ انٹرنیشنل بنانے کی جس جدوجہد میں لگے ہیں اس کے لیے حالات قدرے بہتر ہوتے ہیں۔ وہ مزاحمت اس گہرے بحران پر قابو پانے کے لیے کم ازکم مادی لوازمات ہی پورے کر جاتی۔

تنقید کی آزادی

بعض مصنفین جو کمیونزم کے خلاف تھے ، اُن پرسے پابندیاں ہٹائی جانے لگیں ۔  ہر کسی کو کھلی چھوٹ دی گئی کہ حکومت کی پالیسیوں پرآزادانہ تبصرہ و تنقید کر سکے۔رفتہ رفتہ جب حکومتی کنٹرول ہی ختم ہو گئی تو ملک میں خوراک کی قلت پیداہونے لگی۔ کمپنیوں نے من مانیاں شروع کیں اور حکومتی اجازت کے برعکس قیمتوں میں من مانا اضافہ کر دیا۔ اس صورت روز مرہ کی ضروریات کی اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنی لگیں۔ ان حالات میں بالآخر گوریا چوف نے استعفیٰ دے دیا۔ اور اگلے ہی دن ان  دستاویز ات پر دستخط کر دیئے گئے جس کے مطابق سویت یونین کے تمام ریاستیں الگ الگ ہو گئیں۔ گوریا چوف کی ان اصلاحات نے سویت یونین میں ایک سنگین بحران پیدا کیا اور بالآخر سوویت یونین کا اختتام ہو گیا۔

 

تحریر: وسیم عباس

 

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں


اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔

اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔ 

 

Follow us on

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
Ilmu علمو
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x