(افسانہ) “عکس”

عکس

کچھ مصنف کے بارے میں
علی نقی کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان ادیب ہیں۔  اگرچہ ان کا آبائی گاؤں استور گلگت  بلتستان میں ہے، لیکن  علی نقی نے زندگی کا بیشتر حصہ کوئٹہ میں ہی گزارا اور اب بھی وہیں مقیم ہیں۔  کم سنی سے ہی ادب سے شغف رہا۔ اعلی تعلیم کے حصول کے لیے اسلام آباد چلے آئے  اور اردو زبان و ادب  میں ایم فل کیا۔ زمانہ طالب علمی سے ہی مختلف ادبی  اصناف میں طبع آزمائی کرتے رہے۔ کوئٹہ کے ادبی ماحول سے استفادہ کرتے ہوئے ، غزل گوئی کے ساتھ ساتھ افسانہ نگاری میں بھی طبع آزمائی کی ۔

عکس - افسانہ - Aks - Afsana - Urdu Short Story
عکس – افسانہ – Aks – Afsana – Urdu Short Story

۔”وہ آئے گی۔ وہ نہیں آئے گی” ۔  نائلہ کو دیکھنے سے قبل، ساحل کے چہرے پہ مضطرب سوالات  خوف زدہ ٹی وہ چینل کی طرح چل رہے تھے۔ لیکن اسے دیکھتے ہی ایک طرحِ اطمینان ساحل کے چہرے پر آ گیا اور اس کے قریب آتے ہی ساحل کے منہ سے بے اختیار نکلا:۔

“ایک ملاقات کی تمنا ہی تھی تم سے۔ سو وہ آج پوری ہو گئی “

 دوسری طرف خاموشی ان جذبات کا مذاق اڑ رہی تھی۔  اس بات کی پرواہ کیے بغیر ساحل نے اپنی گفتگو جاری رکھی۔

“آئی ہو۔  بس ! میں صرف تم سے آخر میں ایک ہی لفظ چاہتا ہوں۔ ہاں یا نہیں تمہاری شادی ہو چکی ہے اور خدا کی رحمت سے بھی تم اپنا حصہ لے چکی ہو۔”

دوسری طرف تمام آوازوں کے بدلے خاموشی تھی۔ لیکن ساحل بولتا رہا اور اس کی زبان سے لاکھوں ترتیب وار شکوؤں سے چند بے ترتیب شکوے نکل رہے تھے۔

۔” شادی کی زندگی بہت اچھی ہو گی نا۔ لازم ہے کہ  رضا بھی تم سے بہت محبت کرتا ہے اور ویسے بھی چاہنے  سے زیادہ ، چاہے جانے کا احساس خوب صورت ہوتا ہے۔ تم اس لحاظ سے دنیا کی خوب صورت اور خوش قسمت لڑکی ہو۔
خیر تم  اس زندگی سے مایوس تو ہو گی ۔یا نہیں؟
چھوڑو ! میں اب بھی رات رات بھر جاگتا ہوں۔ تمہاری اور صرف تمہاری یادوں کے سہارے جیتا ہوں۔ وہ دن کہ ہر فارغ وقت میں تمہیں   ایس ایم ایس  کرنا اور تمہارا جواب دینا اور ان جوابوں کو  بار بار پڑھنا اور بس پڑھتے رہنا۔ یہاں تک کہ وہ جواب ذہن کے گوشوں سے ہوتے ہوئے دل کی رگوں اور رگوں سے ہوتے ہوئے جسم کی  ہر سانس میں بس جاتے۔ رات گئے چاند دیکھنا جو چاندنی راتوں میں اور بعض دفعہ پہلے چاند کی رات کو ، چاند بالکل تنہا ہوتا ہے، تب اس سے صرف تمہاری باتیں کرنا۔ اور تمہاری یادوں کو بانٹنا۔ ۔۔وہ بھی ۔۔۔خاموش۔۔۔ ماضی۔۔۔”۔

ساحل ایک نظر نائلہ کی طرف دیکھتا ہے ۔ وہ اب اضطراب کی حالت میں ٹہلنے لگتی۔ اس طرف دیکھنے کے بعد ساحل کے چہرے پر پھول کی پتیاں کھلنے لگیں اور وہ اپنی بات  کو جاری رکھتا  ہے۔

۔” تمہاری یہ عادت مجھے مار  ڈالتی ہے۔ تم جب مجھ سے اور فقط مجھ سے محبت کیا کرتی تھی  اور ہم جب کسی جگہ ملتے تو تم یونہی اضطراب و پریشانی میں ٹہلتی  تھی۔ لیکن اِس ڈر اور اُس ڈر میں فرق ہے۔ میں آج بھی راتوں کو بستر پر کروٹیں بدلتے اور کبھی اندھیرے کے پردوں  تلے ان ہی یادوں میں جیتا ہوں ، کہ جن میں صرف تم  اور میں۔۔۔۔۔میں آج بھی وہیں ہوں، لیکن تم دنیا کے ساتھ چل رہی ہو  ۔ تمہارے وعدے ، تمہاری قسمیں ، تمہاری باتیں”ء

ان الفاظ کے ساتھ اس کی آنکھوں سے  آب حیات ٹپکنے لگے اور وہ مڑا، آنکھوں کی ندی کو پونچھا۔ اور پھر بولا:ء

۔”سب جھوٹ تھا۔ تم جو میرے  بغیر جی  نہیں سکتی تھی اب ایک الگ دنیا بسائے ہوئے ہو۔ اور میں الگ۔
میری دنیا  تمہاری دنیا، الگ الگ نہیں ہوتی، اگر تم ۔۔۔۔۔ میری راتیں تمہاری راتوں  سے الگ نہیں ہوتیں اگر تم ۔۔۔۔”ء

ساحل جملے پوری طرح ادا  کرنے سے گھبرا رہا تھا کہ کہیں وہ جواب دیئے بغیر  ہی چلی نہ جائے۔

۔”میں  ادھوری زندگی کے ساتھ اس جنت میں جی رہا ہوں کہ جہاں سے جہنم بہت پیاری لگتی ہے۔ کیا یہی کانٹے اس گلستاں میں کھلتے ہیں، کہ جہاں پھولوں کی توقع ہو ، ہواں صرف کانٹے۔ کیا یہی یادیں؟۔۔۔ کیا وہی باتیں؟۔۔۔ کیا وہی آہٹیں؟۔۔۔ کیا وہی اضطراب؟۔۔۔ کیا وہی بے چینی؟۔۔۔ کیا وہی سکون؟۔۔۔ کیا۔۔۔”ء

ساحل کی آواز بھرنے لگی۔  وہ ایک لمحے کے لیے نائلہ کو دیکھتا ہے۔ وہ اب مضطراب   ٹہلنے  کے بجائے پریشان لگ رہی تھی۔ آنکھوں کے ساحل پر شاید موجوں کی  روانی ابھرنے لگی تھی، جسے ساحل اچھی طرح نہ دیکھ سکا۔ اس کی آنکھوں میں اس وقت سامنے ایک دھندلا عکس تھا۔  جس کے ساتھ  وہ بات جاری رکھتا ہے۔

۔”کہاں گئے وہ رات دن کہ ہم ذرا لڑ کر ایک دوسرے کے بنا تھوڑے دیر بھی نہیں رہ سکتے تھے؟ کہاں؟۔۔۔
تمہاری قدر و قیمت آج بھی میرے نزدیک  وہی ہے، لیکن تم بتاؤ۔۔۔ کیا تم مجھ سے پیار کرتی ہو؟۔۔۔ کیا تمہاری راتیں میری راتوں جیسی نہین ہیں؟۔۔۔ مجھے بتاؤ۔۔۔ خدارا مجھے بتاؤ۔۔۔”ء

ان سوالات کے ساتھ ساحل اور بے باک ہو جاتا ہے اور جذبات کے ہاتھوں مجبور ہو کر  نائلہ کو کندھوں سے تھامتا ہی ہے کہ وہ جلدی سے جھٹک دیتی ہے۔ اور غصے کے آثار جلد ہی نفرت میں بدلنے لگتے ہیں۔ وہ پلٹ کر جانے  ہی لگتی  ہے  کہ   ساحل  اسے روکنے کے لیے کہتا ہے:

” تم نے اپنی ننھی فاطمہ کی قسم کھائی تھی کہ میرے سوالوں کا جواب دو گی۔ اور آج ان سوالوں کے جواب  دیئے  بغیر جاؤ گی تو خدا نخواستہ۔۔۔ “

یہ الفاظ ادھورے رہ گئے۔ وہ پلٹی  اس کے چہرے پر آبشار کی مانند اشک بہہ رہے تھے۔ اور ساحل ان اشکوں کے وجوہ پر پریشان تھا  کہ ایک مانوس آواز اس کے کانوں  کی  کھڑکیوں سے ہوتے ہوئے دماغ کے کونے کونے میں گونجی، جو نائلہ کی جمع کی  ہوئی پوری طاقت تھی۔

“ہاں، ہاں ، ہاں۔۔۔۔۔”

۔۔۔۔۔۔(تمام شد)۔۔۔۔۔۔

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں


اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ Ilmu علموبابا

اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔

 

Follow us on

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
Ilmu علمو
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x