ناول “جاگے ہیں خواب میں” کے مرکزی کردار “زمان “کا نفسیاتی مطالعہ

ناول “جاگے ہیں خواب میں” کے مرکزی کردار “زمان “کا نفسیاتی مطالعہ

ناول “جاگے ہیں خواب میں”  کا عنوان ہی ایک رومان  بھری دنیا  اور داستانوی اثر کی حامل کہانی کی عکاسی کرتا ہے۔ زیر نظر مقالہ ناول “جاگے ہیں خواب میں” کے مرکزی کردار “زمان “کا نفسیاتی مطالعہ ، میں  مرکزی کردار کے خیالات، ذہنی افکار ، میلانات، رجحانات اور حرکات کو علمِ نفسیات کے ذیل میں سمجھنے کی کوشش کی جائے گی۔  مزید معلومات کے لیے ملاحظہ فرمائیے ہماری ویب سائیٹIlmu علموبابا

ناول "جاگے ہیں خواب میں" کے مرکزی کردار "زمان "کا نفسیاتی مطالعہ
ناول “جاگے ہیں خواب میں” کے مرکزی کردار “زمان “کا نفسیاتی مطالعہ

تعارف

            ناول “جاگے ہیں خواب میں” کا مرکزی کردار “زمان” ہے جس کے گرد تمام قصہ گردش کرتا ہے۔ قصے کے مطابق زمان  ہزارہ ڈویژن کے ایک نواحی گاؤں نور آباد سے تعلق رکھنے والا نوجوان ہے۔  یہ گاؤں اس کے جد نور خان  نے آباد کیا تھا۔ کہانی کا بیشتر قصے  نور آباد کے مقام   پر ہی پیش آتا ہے۔ البتہ چند دیگر مقامات بھی قصے میں نظر آتے ہیں۔ یہ  ناول ایک طرح سے ہندوستانی دیو مالا میں موجود آواگون کے نظریے کی نمائندگی کرتا ہے جبکہ اس کے ساتھ فرائیڈ اور ژنگ کی  نفسیات کو بھی شامل کرتا ہے۔ اس کے ساتھ دیگر مابعد الطبیعیاتی نظریات  اور فلسفے کے ذریعے بھی قصے کو سہارا دیا گیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس ناول کا قصہ اور قصے کا انداز بیان اسے “نفسیاتی ناول” کی شاخ کی طرف لے جاتا ہے۔

            “جاگے ہیں خواب میں ” کا عنوان ہی اس کے نفسیات سے تعلق کو وضع کر دیتا ہے۔  جدید نفسیات میں خواب کو ایک الگ مقام حاصل ہوا ہے۔ انیسویں صدی میں ویانا (آسٹریا) کے ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ نے خوابوں کے متعلق ایک نیا تصور پیش کیا جس نے دنیا کے مروجہ نظریات کوخاصامتاثر کیا وار آج بھی اس کے نظریات کو مسلّم مانا جاتا ہے۔فرائڈنے شعور ، تحت الشعور اور لا شعور کے تصورات پیش کرنے کے ساتھ خوابوں کے روایتی تصور کو نظر انداز کیا ۔اس نے ان خوابوں کوانسانی لا شعورکے گودام میں پڑے خیالات ، احساسات اور تجربات کی روپ بدل کر ظاہر ہونے کی کوشش قرار دیا۔ایسی شکل جس میں انسان خود پر کیے گئے جبر کی تسکین کر لیتا ہے۔ ساتھ ساتھ اس نے مذہبی حوالوں میں موجود خوابوں کی پیشین گوئی کے تصور اور مستقبل کی تعبیرات کے تصور کو بھی رد کیا (۱) ۔یہاں پر بھی نہ صرف ناول کا عنوان بلکہ اس میں موجود قصے بھی انہی تصورات کے تسلسل کو آگے لے کر چلتا دکھائی دیتا ہے اور ساتھ اس کے متعلق ایک نیا فلسفہ بھی تخلیق کرتا ہے۔ ڈاکٹر صلاح الدین درویش اپنے مضمون ، “اختر رضا سلیمی کا ناول’ جاگے ہیں خواب میں’ چند لغوی جہتیں” میں یوں رقم طراز ہیں:
“اختر رضا سلیمی کا ناول “جاگے ہیں خواب میں” دراصل فطرت اور نفسِ انسانی میں موجود حیرتوں کو معنوی اعتبار سے مربوط بنانے کی ایک کوشش ہے۔ حیرت، ذہن انسانی کا ایک ایسا طویل وقفہ ہوتا ہے کہ جس کی موزوں تجسیم خواہ وہ شعوری ہو یا تخیلاتی، نہیں ہو پاتی۔”

اختر رضا سلیمی  کی  ناول میں کی گئی کوشش اور کہانی بننے کے ساتھ اس کو نفسیات اور دیگر علوم سے جوڑنے کے متعلق  ڈاکٹر اقبال آفاقی بھی لکھتے ہیں کہ:
“وہ پر اسر ار حقائق جن کا تعلق نہ صرف کہانی کے ہیرو کی بے انت موضوعی زندگی سے ہے بلکہ زیر بحث موضوع کی ایپیسٹیم سے بھی ہے۔ اس نے مائیکل فوکو کے آرکیالوجیکل طریق کار کو برت کر ہیرو کے لاشعور کی گہرائی میں اترنے کی کوشش کی ہے۔”

            جہاں تک “زمان” کی بات ہے تو قصے میں زمان   کی نفسیات کو ہی بنیادی مرکز  بنا کر باقی تمام قصے اور اس میں شامل واقعات کو اس کے گرد چلایا گیا ہے۔  ناول کا آغاز بھی زمان کی سوچ سے ہوتا ہے اور اختتام بھی اس کی فکر پر ہی ہوتا ہے۔ اس کے سوچنے کا مختلف زاویے، سوچ کے مختلف انداز اور اس کی مجموعی سوچ اور فکر ہی قصے کو چلا رہی ہے۔ نیز اس کی یاداشت، یاداشت سے متعلق مسائل، ماضی کی یاد، مستقبل کی فکر، اشیا کو دیکھنے، پرکھنے کا منفرد انداز، ذہنی مسائل  اور امراض ، سب اس کی نفسیات  سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ گویا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ قصے کا ایک ایک پہلو ، اس نفسیات کا مظہر بن کر ہمارے سامنے آتا ہے۔

زمان کا نفسیاتی مطالعہ

            زمان کی نفسیات اور ذہنی حالت ناول کے آغاز ہی سے غیر معمولی  دکھائی گئی ہے۔ وہ سوالات اٹھاتا ہے، سوچ بچار کرتا ہے، ماضی میں رہتا ہے، تنہائی پسند نظر آتا ہے،  مناظر فطرت میں کھو جاتا ہے،   حال اور بیرونی دنیا سے دلچسپی نہیں رکھتا، لیکن ان سب کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے، جو وقتاً فوقتاً ہمارے سامنے آتی رہتی ہے۔
نفسیات  کے مطابق کسی کی شخص کی شخصیت کو پانچ بڑی خصوصیات کے ذیل میں دیکھ کر اس کے متعلق اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس میں عموماً خیالات ، ان کی سطح اور ان کا اظہار،  سوچ  پر قابو، سماجی رابطے، اعتماد، اور جذبات کا اظہار شامل کیا جاتا ہے۔ نفسیات کے علم کی رو سے ، ہر انسان کی حرکات  و سکنات و  خیالات و جذبات ، کسی نہ کسی بات کا شاخسانہ ہوتی ہے۔ یہ بلاوجہ یا خود بخود پیدا نہیں ہو جاتے  بلکہ انسانی شعور، تحت الشعور اور لا شعور   انہیں چلا رہے ہوتے ہیں۔ اور انسان کی پسند سے لے کر اس کے اس کی ناپسند، ڈر، خوف، خوشی، غمی، تذبذب، اداسی، پریشانی، اضطراب ہر ہر جذبے کو کنٹرول کرتے ہیں۔
زمان کی نفسیات کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ کہ اس کی سوچ، اس کے افعال ،اس کی حرکات مسلسل تبدیل ہو رہی ہیں۔   قصے کے آغاز میں وہ جیسا کرتا اور سوچتا ہے، حالات کے تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ وہ سب ارتقا پاتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
اگر جدید نفسیات کے بنیادی اصول و قوانین ہم اس قصے اور بالخصوص زمان کے کردار  پر لاگو کریں تو ہمیں نظر آئے گا کہ  اس کی ہر حرکت کے پس پشت کوئی نہ کوئی وجہ موجود ضرور ہے۔ اس کی شخصیت، اس کا برتاؤ، اس کا رویہ، اس کی سوچ سب اس پر بیتے جانے والی اشیا اور واقعات ہی کا نتیجہ ہے۔ اس کا اپنی ہتھیلیوں کو گھورنا، ہونٹ پر موجود تل والی لڑکی کو چاہنا،  غار پر بیٹھ جانا، مناظر فطرت میں کھو جانا، شہر میں دل نہ لگنا، آسمان پر موجود ستاروں میں کھوئے رہنا، دریا کی روانی کو غور سے دیکھنا، ان تمام واقعات کے پیچھے کو نہ کوئی وجہ ضرور نظر آئی۔
ناول کے آغاز سے ہی زمان  تنہائی پسند، نظر آتا ہے۔ وہ پہاڑ پر موجود غار  پر اپنا بیشتر وقت گزارتا ہے، اور وہاں موجود چھوٹی چھوٹی مختلف چیزوں پر غور و فکر کرتا ہے ۔  ان کی توجیہ جاننا چاہتا ہے۔ دنیا اور دنیا والوں سے بے زار اور بے نیاز رہتا ہے۔ لیکن قصے  میں آگے چل کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہمیشہ سے اس کی شخصیت کا پہلو نہیں تھا۔
اس کی شخصیت اور رویے پر دو لوگوں کا اثر ہوا۔ ایک عرفان جس سے وہ منفرد نوعیت کے علمی موضوعات پر بحث کرتا تھا، جنہیں سن کر کوئی بھی عام انسان  انہیں پاگل سمجھ سکتا تھا۔ اور دوسرا کردار ماہ نور کا۔ جس کی محبت نے اس کو اپنے سحر میں جکڑ لیاتھا۔ ماہ نور ہی کا اثر تھا کہ زمان کے اندر پہلے زندگی کی ایک نئی ترنگ جاگی اور بعد میں اسی کی دوری نے زمان کے اندر سے زندگی کا مقصد ہی ختم کر دیا۔  یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ماہ نور کی جدائی کے بعد زمان کے پاس زندہ رہنے اور زندگی گزارنے کا کوئی مقصد باقی نہ بچا۔ اور وہ ہماری روایت میں موجود  نا کام عاشق کے روایتی تصور کے مطابق  روگی بن گیا۔

            قصہ آگے بڑھتا ہے تو زمان ایک شدید زلزلے میں زخمی ہو جاتا ہے۔ اور اس کے سر پر گہری چوٹ لگتی ہے جس کی وجہ سے وہ “کومہ” میں چلا جاتا ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق اس کے دماغ پر چوٹ سوزش کا باعث بنتی ہے اور اس کی صحت یابی کے متعلق کچھ بھی حتمی طور پر کہنا ممکن نہیں۔ دلچسپ مقام اس کے بعد آتا ہے جہاں زمان ، کومہ کے دوران خواب دیکھتا ہے۔ لیکن یہ خواب اس کی اپنی زندگی سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ اس کے آبا و اجداد کے شعور کے وہ سطح ہوتی ہے، جو نسل در نسل سفر کرتے ہوئے، زمان کے لا شعور میں جگہ بنا لیتی ہے۔ یہاں مصنف نے ژنگ کے اجتماعی لا شعور کا نظریہ ایک نئے انداز میں برتا ہے۔ جہاں اجتماعی لا شعور کے مطابق ، لا شعور میں موجود خیالات اگلی نسل میں منتقل ہوتے ہیں، قصے کے مطابق سابقہ نسلوں کے شعور میں موجود خیالات، زمان کے لا شعور میں منتقل ہوئے۔  یہ اپنی نوعیت میں ایک جدت بھی ہے اور ایک باریک نکتہ بھی۔
یہاں موجود یہ دلچسپ نکتہ نفسیات کے علم سے زیادہ ، ہندی اساطیر کی طرف نکل آتا ہے، جسے آواگون کا نام دیا جاتا ہے۔ آواگون کے اس  تصور کے مطابق انسان ایک نہیں کئی بار پیدا ہوتا ہے، لیکن اس کو اپنی سابقہ گزاری گئی زندگی کے حالات و واقعات یاد رہتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مصنف نے اس نظریے کی تائید نہیں کی، البتہ ژنگ اور فرائیڈ کا ذکر ناول میں بار بار چھیڑا گیا ہے۔ جس سے ان وابستہ نظریات کی  تصدیق کی جا سکتی ہے۔  حتی کہ زمان خود بھی فرائیڈ اور ژنگ کے نظریات سے آگاہ نظر آتا ہے اور ان کے متعلق سوچ بچار کرتا ہے۔ تو کیا ایسا کہا جا سکتا ہے کہ زمان کے ساتھ جو بھی ہوا، وہ اس کے خیال کی طاقت تھی۔

ناول کے آخر میں موجود زمان کے  جملے کو اسی بات سے جوڑا بھی جا سکتا ہے۔اور اسے دلیل کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
“ہم ہر بات فرض ہی تو کرتے ہیں۔ جیسے کہ میں نے یہ فرض کیا کہ میں پیدا ہوا، پڑھا لکھا ، عشق کیا، شادی کی، یہاں بیٹھا خلاوں میں گھور ا کیا۔ اور اپنے عزیزوں کی موت کا سبب بنا۔”
چونکہ زمان کا خیال تھا کہ وہ سوچتا اور دیکھتا ہے اسی لیے، ایسا ہوتا ہے، اگر وہ و لوگوں کی موت کے بارے میں نہ سوچے اور نہ دیکھے ، تو لوگوں کی موت واقع نہیں ہو گی۔ یا یہ کہہ لیں ایک انسان پہلے سے فیصلہ کر لے ، تو نتیجہ بھی ویسا ہی نکلتا  ہے۔
قصے میں آگے چلیں تو اگرچہ زمان کومہ  سے جاگ جاتا ہے، لیکن وہ زمان نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ اپنے  آبا و اجداد  میں موجود کسی شخصیت کی پرچھائی ہوتا ہے۔ یا یوں کہہ لیجے کہ پرچھائی کے بجائے جیتی جاگتی شخصیت ہی ہوتا ہے۔ دراصل خواب میں دیکھے جانے والے واقعات میں ، وہ اپنے آبا ء پر بیتے گئے چند مختلف واقعات دیکھ پاتا ہے۔  زمان کو خود بھی اس سے قبل اپنے خوابوں پر حیرت ہوتی تھی۔ اور  جب وہ جاگتا ہے، تو وہ زمان کے شعور میں موجود تمام باتیں محو ہو جاتی ہیں۔ اور ایک کردار ماہر نفسیات  ڈاکٹر فاروقی کے مطابق اس کا لا شعور جاگ جاتا ہے۔ شعور کے پس پشت جانے اور لا شعور کے جاگ جانے سکا نتیجہ یہ نکلتا ہے ،  وہ شعوری طور پر کچھ نہیں جانتا،  لیکن لا شعور  میں موجود معلومات اس کو یاد رہتی ہیں۔ صلاح الدین درویش لکھتے ہیں کہ :
“اختر رضا سلیمی کی ناولائی دانست میں اجتماعی لا شعور کے حوالے سے یہ امکان موجود ہے کہ انسان نے حد و شمار ازل اور ابد کی تنہائی میں جو زندگی بسر کرتا رہا  ہے   بطور ایک نوع یا  حیاتیاتی جاندار کے اس کا سارا تجربہ اپنی شعوری اور لا شعوری دنیاؤں میں ساتھ ساتھ لیے پھرتا ہے۔”

اشوک اعظم کے زمانے میں چٹانوں پر فرمان کندہ کرنا، سید احمد شہید کے ساتھ میدان جنگ میں شرکت، لارڈ ایبٹ کے ساتھ کیا گیا معاہدہ، اپنی آبائی حویلی کی تعمیر جیسے واقعات اس کے ذہن میں نقش ہو جاتے ہیں، جو اسے کسی نے بتائے بھی نہیں ہوتے۔

اس کے بعد علاج کے نتیجے میں اس کی یاداشت تو بحال ہو جاتی ہے، لیکن کومہ سے جاگنے کے واقعات اسے یاد نہیں ہوتے اور وہ دوبارہ زمان بن جاتا ہے۔  یہ مرحلہ بائی پولر ڈس آرڈر  کی ذیل میں شمار کیا جا سکتا ہے، جہاں کوئی بھی شخص اپنی اصل شناخت بھول کر کسی دوسری شخصیت کی شناخت کو اپنا لیتا ہے۔ لیکن اس کے بعد جو تبدیلی زمان کی زندگی میں آتی ہے، وہ حیران کن ہے، جس کا پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے۔ زمان جہاں پہلے بیتا ہوا ماضی  خواب میں دیکھا کرتا  تھا وہیں اب آنے والا مستقبل اس کی نظروں میں طواف کرنے لگتا ہے۔  زمان کہتا ہے کہ:
“خواب ماضی میں لا شعوری طور پر دبائی گئی خواہشات کا اظہار ہیں، یا مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کا اشارہ۔ میں نے نیم خوابیدگی کی حالت میں  جس انار کو تڑختا ہوا دیکھا ، یہ میری کسی دبائی ہوئی خواہش کا اظہار ہے یا مستقبل کا کوئی منظر”

یہاں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ مصنف خواب کے معاملے میں فرائیڈ کے نظریات سے نکل کر ، مذہب  کی طرف آ جاتے ہیں کہ جس کے مطابق، خواب آنے والے کل کا پتا دیتے ہیں۔
(مآخذ : سہ ماہی ارمغان ادب ، شمارہ 13، جولائی تا ستمبر 2019ء)

(تحریر : ع حسین زیدی)

 

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں


اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ Ilmu علموبابا

اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔

 

Follow us on

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
Ilmu علمو
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x