Table of Contents
محمدی نہاری ہاوس آئی 10 مرکز
اونچی دکان پھیک پکوان۔ مقولہ مشہور ہے لیکن کس حد تک ، اس کا اندازہ بھی نہ تھا۔ بڑی چاہت تھی “محمدی نہاری” آئی 10 جانے کی ۔لیکن کیا معلوم تھا کہ یہ تجربہ اپنی نوعیت کے پہلے یعنی برے تجربے میں شمار ہو گا۔ برے تجربوں کا ہونا اس لیے بھی ضروری ہے، کیونکہ اس ضد سے آدمی کو زندگی کے اچھے تجربوں کا بھی احساس ہو جاتا ہے۔دوستوں کے ساتھ کھانے کا منصوبہ بنا ، لیکن جاناکہاں تھا ، ہمیں معلوم نہیں تھا۔ مشاورت سے فیصلہ ہوا، محمدی نہاری ہاوس قریب ہے، سو ادھر ہی چل دیے۔
محمدی نہاری ہاوس کا بیرونی منظر تو کچھ دلکش تھا۔ دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے ہاں واقعی کوئی معیاری ہوٹل ہے۔ نام سے بھی مشہور ہے۔ لوگ جانتے بھی ہین اس ہوٹل کو ۔ اوپر نیچے دو ہال موجود ہیں، جہاں فیملی کے لیے بیٹھک کا الگ انتطام بھی موجود ہے۔ اور صفائی بھی مناسب ہی لگ رہی ہے۔ کیا ضرف خوبصورت ٹائلز لگانے سے ہوٹل چل جاتا ہے؟ ہر گز نہیں۔
کسی بھی ہوٹل کی طرف لوگوں کی دوڑ تب لگتی ہے، جب ہوٹل ذائقے کا حامل ہو۔ دیگر امور تو بعد کی بات ہیں۔ یہاں مسئلہ یہ بھی تھا کہ مناسب ذائقہ ان کے پاس موجود نہیں تھا۔ باقی پکوان تو رہنے دیجیئے، اگر ان کی شناخت یعنی “نہاری” کو ہی دیکھ لیا جائے، تو اس کے مصالھے حد درجہ تیز تھے۔ مصالحے کا تیز ہوا معیوب نہیں، لیکن اگر وہ کچے ہوں اور گلے میں چبھیں ، تو کھانے والا انہیں کھانے سے زیادہ پھینکنا پسند کرے گا۔ اب نہاری کے لیے پلیٹ میں اترتے ہی جم جانا کوئی انہونی نہیں بلکہ یہ ایک عام سی بات ہے۔ سو اس پر بات کرنا ااضافی ہو گا۔ ہاں اگر وہاں کی چکن کڑاھی کی بات کی جائے تو وہ نسبتا بہتر تھی، لیکن افسوس اس بات کہ ہے کہ آپ کی پہچان نہاری ہو، سو وہ بہترین ہونی چاہیے۔
اگر کسی ہوٹل میں مینو کارڈ موجود ہے، اور آنے والے مہمانوں نے مینو کارڈ دیکھ کر ہی اپنا کھانا آرڈر کرنا ہو تو، ضروری ہے کہ مینو کارڈ میں موجود پکوان آپ کے پاس موجود ہوں، لیکن یہاں ایسا معاملہ نہیں۔ مینو کارڈ میں موجود تقریبا نصف اشیا ہوٹل میں پکائی ہی نہین جا رہی تھیں۔ میز کی بات کی جائے، تو میز اتنی مختصر تھی کہ اس پر آرڈر کیے گئے دو پکوان بھی اپنی جگہ نہین بنا پا رہے تھے۔ اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ ہوٹل کے بیرے/ ویٹرز جگہ نہیں بنائیں گے، بلکہ آپ کو کہیں گے کہ فلاں فلاں چیز میز سے اٹھا کر ادھر ادھر رکھ دیں۔ اور اس دوران آپ کو یوں محسوس ہو گا کہ ویٹر وہ نہیں بلکہ آپ ہیں۔
ایک مسئلہ اور، یہ کہ جو جو چیز آپ نے آرڈر نہین کی، یا لانے سے منع بھی کر دی ہے،، تو وہ بھی بل میں شامل کرنے کے لیے ، آپ کو لا کر دے دی جائے گی۔ اگر آپ سلاد نہیں کھانا چاہتے، تو بھی آُ کو لا کر دی جائے گی۔ اگر آپ کو رائتہ پسند نہیں ، تو بھی فکر کی کوئی بات نہیں ، ، آپ کے سامنے حاضر ہے۔ اور ہاں بل تو آپ کو دینا ہی پڑے گا۔
اب ہم اپنے دوست بیروں/ ویٹرز کی بات کرتے ہیں، جن کا کام مہمانوں کو کھانا پہنچانا بالکل بھی نہیں ہے، بلکہ آپ کو تمام ہوٹل کے ویٹر ایک کونے میں کھڑے گپیں ہانکتے ہوئے ملیں گے۔ آپ کو انہیں بلانے کے لیے ،بارہا آواز دینا پڑے گی۔ اور فکر کی کوئی بات نہیں ،، حسب روایت، ایسا ممکن ہے کہ آپ کے بار بار بلانے پر بھی وہ آپ کی آواز نہ سنیں۔ ایسی صورت میں آپ تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے، ان کا انتظار کریں، اور کچھ دیر کے بعد جب انہیں اپنے کام کا احساس ہو گا تو وہ آپ کے پاس ضرور آئے گا۔ اور پوچھے گا “کسی چیز کی ضرورت تو نہیں سر”۔
آخر باری ہو گی بل کی اور ان کے پرچے پر اپنے تاثرات لکھنے کے مرحلے کی۔ بل دیکرھول جائیے کہ آپکے بقایا پیسے واپس بھی آنے ہیں کیونکہ ویٹرز اپنی دنیا میں مگن ہو جائیں گے۔ اور ہاں ان کا تاثراتی پرچہ لینا مت بھولیے گا۔ اس پر اپنا نام اور فون نمبر ضرور لکھئے گا، ہاں باقی تاثرات لکھنے کی ضرورت نہیں۔ وہ ہوٹل کا عملہ خود ہی کچھ اچھا اچھا لکھ کر اپنے مالکان کے حوالے کر دے گا۔
یہ ہے محمدی نہاری ہاوس آئی 10 کی کہانی
(تحریر: ع حسین زیدی)
We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)
اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں
اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔ تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔
اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔