افسانہ – عادی (تحریر: تاجدار ہاشمی)

افسانہ – عادی (تحریر: تاجدار ہاشمی)

افسانہ - عادی (تحریر: تاجدار ہاشمی)
افسانہ – عادی (تحریر: تاجدار ہاشمی)

وہ پارک میں بیٹھا ہوا تھا ۔ یہ والا پارک اس کے گھر کے سب سے قریب تھا اور ساتھ میں بہترین بھی ۔ پارک کے درمیان میں جھولے لگے ہوۓ تھے اور فصیل کے پاس گھنے درختوں کے نیچے پتھر کے بنے ہوۓ بینچ پڑے تھے ۔ وہ تقریبا پر دو دن یا کبھی کبھی ہر روز اس پارک میں آتا تھا ۔ سر سبز تازہ گھاس کے اوپر پاؤں رکھنا ایک عجب ہی لطف دیتا ہے ۔ اوہ جب بھی آتا تو بینچ پر بیٹھ جاتا اور آرام سے اپنے جوتے اتار کر پاؤں گھاس کے اوپر رکھ دیتا ۔ سامنے بچے کھیل رہے ہوتے کچھ جھولے جھول رہے ہوتے ۔ بچوں کے والدین بھی ان کے ساتھ ہوتے ۔ پارک میں بینچ تو بہت تھے لیکن جہاں یہ بیٹھتا تھا وہ بینچ کافی الگ تھلگ کر کے تھا ۔ اسلیے بہت کم ہی اسکی کسی اور آدمی سے بات ہو پاتی ذیادہ سے ذیادہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ۔سکرا دیتے اور بس ۔ اس کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھی ۔ بیٹی شادی ہونے کہ بعد بیرون ملک چلی گئی ۔ بیٹا فوج میں بڑے عہدے پر تھا اور بہت کم ہی چھٹی آتا اور اس سے ملتا ۔ اسکو اپنی بیگم سے بہت محبت تھی ۔ اسکی بیوی فوت ہو چکی تھی ۔ جب بیٹا نوکری چلا گیا ۔ بیٹی سسرال چلی گئی تو یہ اکیلا ہو گیا تھا لیکن اسکو اپنی بیوی کا ساتھ حاصل تھا کہ اچانک ایک دن بیوی کی طبیعت خراب ہوئی اور وہ بیہوش ہو گئی یہ بیچارہ بیوی کو اپنی بوڑھی بانہوں میں اٹھاے فورا ہسپتال کے پہنچا ۔ ڈاکٹر نے ٹیسٹ وغیرہ کئیے تو پتا چلا کہ آخری درجے والاکا ہڈیوں کینسر ہے جو کہ چھپا ہوا تھا ۔ شادی سے پہلے اسکی بیوی کو کینسر تھا لیکن علاج کے بعد وہ صحیح ہوگئی تھی لیکن لگتا ہے کہ کینسر کے خلیے پوری طرح ختم نہیں ہوۓ اور آہستہ آہستہ اسکے جسم کو کھوکھلا کرتے رہے ۔ اسکے پیروں تلے زمین نکل گئی خون خشک ہو گیا ٹانگوں میں جان ختم ہوگئی ۔ ہلنے کی کوشش کی لیکن ہل نہیں سکااسکو ایسا لگا جیسے اسکی ٹانگیں کاٹ دی گئی ہوں ۔ ڈاکٹر نے کہا کہ صرف چند ماہ ہی رہ گئیے ہیں ۔ اب اگر علاج کیا بھی تو بہت پیسا خرچ ہوگا اور اگر علاج کروا بھی لیا تو دوائیوں کے برے اثرات سے یہ محفوظ نا رہ پائیں گی اور اسکا بھی امکان بہت کم ہے ۔ بس اب آپ اپنا آخری وقت اچھے سے بتائیے ۔ جب بیوی کو ہوش آیا تو اسنے کہلاتے ہوۓ ساری بات اسکو بتائی ۔ بیوی ایک لمحے کیلیے پریشان ہوئی اور پھر آ تو آرام سے کہنے لگی کہ ہو گا وہی جو خدا کو منظور ہوگا ۔ موت کو تو ہم کسی صورت نہیں ٹال سکتے ۔یہ دونوں گھر آگئے علاج چلتا رہا یہ دونوں شام کو کچھ عرصہ پارک بھی اکھٹے جاتے رہے پھر بیوی کی کمزوری کی وجہ سے وہاں جانا بھی بند ہوگیا ۔ پھر ایک دن بیوی اپنے کمرے میں اسکے سامنے گر گئی اور پھر واپس نا اٹھی ۔ بیٹی اور بیٹا فورا گھر آۓ دو تین دن گھر میں سب روتے رہے۔ اس سے رویا نا گیا یہ بس خاموش ہو گیا اداسی نے اسکے دل کو اپنے پنجوں سے جکڑ لیا ۔ جب سوگ ختم ہوا تو پیٹی نے کہا کہ ابو بس اب چونکہ امی نہیں رہیں آپ بھی میرے ساتھ ہی باہر چلیے وہاں میرے ساتھ رہیے یہاں پر آپکا کون سنبھالے گا ۔ اس نے غصے سے سے جھڑک دیا بولا ۔ پہلے جس طرح تمہاری ماں کو سنبھالا اب اسی طرح خود کو سنبھال لوں گا اس گھر میں اسکی یادیں ہیں میں یہاں سے کہیں نا جاؤں گا ۔ بیٹا بیٹی دونوں کے اسرار کے باوجود وہ اسی گھر میں رکا رہا بیٹی واپس ولائت چلی گئی اور بیٹا کیمپ میں ۔ یہ اکیلا ہو گیا ۔ اور بس اب اس نے پارک جانا شروع کر دیا ۔ کھانا بھی خود ہی بنا تا کپڑے بھی خود ہی دھوتا ۔ حالانکہ کہ یہ نوکرانی رکھ سکتا تھا لیکن اب یہ بلکل اکیلا ہی رہنا چاہتا تھا ۔
ایک دن پارک سے واپس گھر آرہا تھا تو دیکھا کہ ایک کتیا اپنے دو تین بچوں کے ساتھ بیٹی تھی بچے بھی بہت ہی چھوٹے نا تھے لیکن لاغر ضرور تھے ایسا لگتا تھا کہ انکو کھانا کو بہت دنوں سے کچھ نہیں ملا ۔ یہ انکو دیکھ ہی رہا تھا کہ کتیا نے اور اسکے پلوں نے بھی اسکو مدد طلب نگاہوں سے دیکھنا شروع کر دیا ۔ انکی آنکھوں میں مظلومیت تھی امید تھی کمزوری تھی یہ کھیت کے اس حصہ کی طرح تھا جہاں پر کچھ فصل پکنے کے باوجود کٹی نا ہو اور آہستہ آہستہ اپنی ہی موت آپ مر رہی ہو ۔ اسکو بہت ہی ترس آیا یہ فورا گھر آیا روٹیاں بنائیں ۔ ایک کولی میں پانی ڈالا اور کتوں کے پاس پہنچ گیا۔ جیسے ہی اسنے ان کے سامنے پانی اور روٹی رکھی ۔ تو کتے کھانے پر ایسے لپک پڑے جیسے شیر ہرن پر جھپٹتا ہے ۔ پہلے بچوں نے کھایا پیا جب تک بچے کھا پی رہے تھے تب تک مانکی ماں پیچے ہی بیٹھی رہی یہ پھر آگے پیچھے گھوتی رہی جیسے ہی بچے پیچھے ہٹے تو پھر وہ بھی آرام آرام سے روٹی کھانے لگی ۔ یہ سامنے کھڑا سارا منظر دیکھ رہا تھا اور اسکو انتہائی سکون مل رہا تھا وہ منظر تو اسکو بھت پسند آیا جب کتوں کی ما۔ نے پہلے انکو کھانے دیا بعد میں خود کھایا ۔ واقعی ماں کائینات ت کا لازوال حسن ہے ۔کھانے کے بعد پلے اسکے آگے پیچھے کودنے لگے جیسے اسکا شکریہ ادا کر رہے ہوں ۔ یہ بھی بھت خوش ہوا اور پھر واپس گھر آگیا ۔ رات کو سونے وقت اسکے سامنے وہی منظر بار بار آرہا تھا کہ کیسے کتے کھانا کھا رہے تھے اور بعد میں خوشی سے اچھل رہے تھے ایک انسان کو اگر انعام میں ایک کروڑ روپے دے دئیے جائیں تب بھی وہ اتنا خوش نہیں ہوتا جتنا ایک بھوکا کتا روٹی ملنے پر خوش ہوتا ہے ۔ انھیں مناظر کو دیکھتے دیکھتے یہ سو گیا ۔ اگلے دن یہ پھر سے شام کو روٹی اور اس بار دودھ لے کر کتوں کی جگہ پر پہنچا ۔ ذرا کنارے پر درخت کی چھاؤں تلے کتیا اپنے پلوں کے ساتھ بیٹھی تھی جیسے ہی انھوں نے اس کو دیکھا تو وہ خوشی سے الٹی سیدھی چھلانگیں لگاتے اسکے آگے گھومنے لگے ۔ بلکل ایسے ہی جیسے سیاسی لیڈران کے آنے پر ان کے چمچے آگے پیچھے لوٹ پوٹ ہونا شروع ہو جاتے ہیں ۔ اس نے ان کو کھانا دیا انھوں نے مزے سے کھایا اور پھر کھیلنے کودنا لگے ۔ یہ کافی دیر انکو دیکھتا رہا پھر واپس گھر آگیا ۔ اگلے دن اسکو کسی کام سے بینک جانا پڑا جسکی وجہ سے یہ خام کو انھیں کھانا نا دے سکا ۔ رات کو گھر آکر سونے سے پہلے اسکو انکا خیال آیاتو پریشان ہوگیا ۔ سوچنے لگا کہ وہ اسکا انتظار کرتے رہے ہوں گے ۔ پھر یہ سو گیا ۔
اگلے دن یہ شام کو پھر کھانا وغیرہ لے کر کتوں کی جگہ پر پہنچا تو کتے وہاں نا تھے ۔ یہ پریشان ہو گیا ۔ آگے پیچھے گھومنے لگا تو کچھ نظر نا آیا پھر یہ دوسری گلی میں چلا گیا اور سیٹیاں بجانے لگا ۔ اتنے میں اسے ایک خالی پلاٹ سے آواز آئی تو یہ ادھر پہنچ گیا دیکھا تو کتیا اور اسکے بچے وہاں کھیل رہے تھے ۔ اس کو دیکھ کر ہمیشہ کی طرح اچھلنے کودنے لگے ۔ اسنے انکو کھانا ڈالا اور پھر گھر چلا گیا اسی طرح چند دن گزر گئیے ۔ اب یہ روز ہی انکو کھانا ڈالتا تھا اور اسی وجہ سے اسنے پارک جانا بھی چھوڑ دیا تھا ۔ ایک دن یہ کتوں کو کھانا ڈال کر واپس آرہا تھا کہ اسکو چکر آۓ اور یہ ادھر ہی بیٹھ گیا ایک ڈاکٹر صاحب وہاں سے گزر رہے تھے انکا گھر پاس ہی تھا وہ اسے اٹھا کر سہارا دیتے ہوۓ اپنے گھر لے گئیے ۔ وہاں پانی پلایا چیک اپ کیا اور ایک گولی دی ۔ یہ بہت خوش ہوا ان سے ہلکی پھلکی گپ شپ کی ۔ڈاکٹر صاحب کا ایک بیٹا تھا اور بیوی تھی ۔ پھر ڈاکٹر صاحب سے سلام کرکے یہ واپس اپنے گھر آگیا اگلے دن بھی اسکی طبیعت خراب ہی رہی ۔ اسنے کتوں کو کھانا بھی نہیں دیا ۔ بلکہ سیدھا ڈاکٹر صاحب کے گھر پہنچ گیا ۔ ان کے بیٹے نے دروازے کھولا اور پوچھا آپ کون کس سے ملنا ہے اسنے کہا کہ ڈاکٹر صاحب سے ملنا ہے ۔ اتنے میں ڈاکٹر صاحب بھی آگئیے تو وہ اسکو اندر لے گئیے پھر بیٹے سے تعارف کروایا اس نے ڈاکٹر صاحب کو پھر اپنی کمزوری اور بیماری کا بتایا تو انھوں نے کہا ۔ پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں وٹامن کی کمی ہے میں گولی دیتا ہوں یہ روزانہ کھائیے ٹھیک ہو جائیں گے ۔یہ تھوڑی دیر بعد وہاں بیٹھا اور پھر واپس گھر آگیا ۔ اگلے دن یہ کھانا لے کر کتوں والی جگہ پہنچا ۔ کتیا اسکو ایسے دیکھ رہی تھی جیسے اس کو برا لگا ہو کہ یہ کل کیوں نہیں آیا ۔ بچے اب آہستہ آہستہ بڑے ہو رہے تھے اور تگڑے بھی یہ سب اس وجہ سے تھا کہ انکو کھانا اب اچھا مل رہا تھا اور یہ بھوکے نہیں رہتے تھے یہ سب اس بوڑھے آدمی کی وجہ سے تھا ۔ یہ کھانا ڈال کر واپس آگیا ۔ پھر اگلے دن یہ شکریہ ادا کرنے کی انکی دوائی سے اسکو کافی فرق پڑا تھا دوبارہ ڈاکٹر صاحب کے پاس انکے گھر پہنچا تو نوکر نے دروازے کھولااسکو دیکھ کر وہ کہا کہ کس سے ملنا ہے پھر اندر چلا گیا اور پھر واپس آکر اسکو اندر بلا لیا ۔ خیر یہ اندر گیا مہمان خانے میں بیٹھا ڈکٹر صاحب نے کہا کہ آپ بیٹھیں میں آتا ہوں ۔ پھر کوئی دس پندرہ منٹ بعد وہ واپس آئے اور وٹامن کی گولی دیتے ہوۓ کہا کہ مجھے ایک ضروری کام ہے جسکی وجہ سے میں جا رہا ہوں ۔ آپ یہ گولی لیجیے ۔ یہ گولی لیکر گھر آگیا اور انکا صحیح طریقے سے شکریہ بھی ادا نہیں کر پایا ۔ اس نے سوچا کہ ڈاکٹر صاحب آج مصروف تھے کہ پرسوں پھر جاؤں گا انکے پاس ۔ اگلے دن یہ پہلے پارک پہنچا ۔ آج یہ کافی دنوں بعد پارک آیا تھا درخت کی ٹھنڈی چھاؤں تلے اسکو بہت سکون آیا جب سے یہ کتوں کو کھانا دے رہا تھا یہ پارک نہیں آیا تھا ۔ اس کے ذہن میں خیالات آنے لگے ۔ پہلے میں کتنے آرام سے پارک آتا تھا کھیلتے ہوۓ بچوں کو دیکھتا گھاس کے لمس کو اپنے اندر محسوس کرتا ۔لیکن جب سے کتوں کو کھانا دے رہا ہوں تب سے یہ مزہ ہی نہیں ملا ۔ ویسے بھی کتے اب بڑے ہو گئیے ہیں ۔ میں بھی بوڑھا ہوں میری صحت خراب رہتی ہے اگر ان کو اور کھانا ڈالتا رہا تو پھر یہ عادی ہوتے جائیں گے ۔ پھر میں ان کا خیال کیسے رکھوں گا ۔ یہ سوچنے کے بعد اسنے فیصلہ کیا کہ اب یہ انھیں کھانا دینے نہیں جاۓ گا ویسے بھی کتے بڑے ہو گئیے ہیں اسکے کھانا دینےکی وجہ سے اب وہ صحت مند بھی ہیں وہ خود اپنا کھانا پینا کر سکتے ہیں ۔ یہ پارک میں بیٹھا رہا اور پھر سیدھا گھر چلا گیا ۔ اگلے دن یہ ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کرنے انکے گھر گیا اتفاق سے یہ اس گلی سے گزرا جہاں کتے رہتے تھے تو وہاں پر کتوں نے اسے دیکھ لیا وہ اسے دیکھ کر خوشی سے اس کی طرف لپکے اور اس کے اردگرد اچھلنے لگے ۔ اسکے دل میں بھت رحم آیا اسکا دل کیا فوراا گھر جاۓ کھانا لے آۓ اور انکو دے لیکن پھر اس خیال سے کہ یہ بہت ذیادہ فری ہو جائیں گے یہ ادھر سے نکل گیا اور کتے حیران و پریشاں اسکو جاتا دیکھتے رہے ۔ یہ ڈاکٹر صاحب کے گھر پہنچا نوکر نے پھر دروازہ کھولا اسکو دیکھ کر اندر گیا اور ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ وہی بوڑھا آدمی آیا ہے آپ سے ملنے ۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا ۔ اس سے کہو کہ میں گھر پر نہیں ہوں ۔ نوکر باہر آیا اور اس کو کہا کہ ڈاکٹر صاحب گھر پر نہیں ہیں ۔ یہ وہاں سے واپس چلا گیا ۔
ادھر نوکر واپس اندر گیا اور ڈاکٹر سے پوچھا ۔ صاحب آپنے اس سے ملاقات کیوں نہیں کی۔ ڈاکٹر بولا ۔ ارے ایک دن اسکو گھر کیا لے آیا یہ تو عادی ہی ہو گیا نا دوائی کے پیسے دیتا ہے نا بل کا پوچھتا ہے بس فوراا ہی اپنا دوست سمجھ لیا اس نے ۔ اگر اسکو پھر بلا کیا اور اندر بٹھایا تو پھر یہ عادی ہو جاۓ گا اب انسان کو اپنے بھی بہت سے کام ہوتے ہیں ۔ اسی کی خدمتیں کر تا رہوں ۔
کتے بوڑھے کا انتظار کر رہے ہیں۔

(تحریر: تاجدار ہاشمی)

 

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں


اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔

اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔

 

Follow us on

 

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
Ilmu علمو
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x