افسانہ – مکتی (تحریر: تاجدار ہاشمی)

افسانہ – مکتی (تحریر: تاجدار ہاشمی)

افسانہ-مکتی-تحریر-تاجدار-ہاشمی-afsana-mukti-tehreer-tajdar-hashmi
افسانہ-مکتی-تحریر-تاجدار-ہاشمی-afsana-mukti-tehreer-tajdar-hashmi

اس کی زندگی انتہائی پھیکی ہو چکی تھی اس کو کبھی بھی سکون نہیں ملتا تھا اس کے لیے فضائیں بے رنگ ہو چکی تھی اس کی پوری زندگی بے کیف تھی ۔ اس وقت وہ اسلام آباد کے نواح میں پہاڑی کے اوپر ایک بہترین ہوٹل میں بیٹھا ہوا تھا  مختلف انواع و اقسام کے کھانے اس کے سامنے ٹیبل پر چنے ہوئے تھے اس کے سامنے پورے اسلام آباد کا منظر تھا فیصل مسجد سے لے کر شاپنگ مال سب کچھ نظر آرہا تھا جی ایسی زندگی تھی جس کی خواہش بہت سے لوگ کرتے ہیں لیکن چند ہی زندگی حاصل کر پاتے ہیں اور وہ بھی انہی چند لوگوں میں سے ایک تھا جتنی ترقی اس نے کی تھی اتنی بہت ہی کم لوگ کر پاتے ہیں لیکن پھر بھی اس کو سکون نہیں تھا اسی دوران  وہ اپنے ماضی میں جھانکنے لگا ۔

اس نے جب آنکھ کھولی تو خود کو یتیم خانے میں پایا اس کو نہیں پتہ تھا کہ اس کا باپ کون ہے اس کی ماں کون ہے بس جب وہ چھوٹا سا تھا تو کوئی اس کو یتیم خانے کے باہر چھوڑ گیا اور میں بس وہی یتیم خانہ اس کا گھر تھا۔ اس کو نہیں پتا تھا کہ خاندان والی زندگی کیا ہوتی ہے ماں باپ کا پیار کیا ہوتا ہے وقت  گزرتا گیا اور وہ بڑا ہوتا گیا اس نے سکول میں بھی داخلہ لے لیا تھا لیکن وہ بہت کم ہی زیادہ نمبر لے پاتا وہ ہمیشہ درمیان نمبروں سے پاس ہوا تھا اب تھوڑا تھوڑا بڑا ہوا تو اس نے لائبریری جانا شروع کر دیا وہاں وہ مختلف کتابیں پڑھتا۔ کیونکہ وہ باقی بچوں کے ساتھ بہت کم ہی کھلتا ملتا تھا اس لئے وہ اپنا وقت یا تو لائبریری میں بھی تھا یا پھر میدان میں کونے میں بیٹھ کر  اپنے آپ سے کھیلتا رہتا۔ کبھی کبھی جب فلم لگا کرتی تو وہ بہت شوق سے فلم دیکھا کرتا تھا  اسے امیر آدمی بننے کا بہت شوق تھا جب بھی فلم میں کوئی ایسا سین آتا جس میں کوئی بہت ہی امیر آدمی اپنی مہنگی گاڑیوں سے اتر رہا ہوتا تو اس کا دل خوب میں چلتا اس کا دل کرتا کے فوراً امیر ہو جائے اور پھر سب اس کو جاننے لگیں ۔ اور پھر مووی دیکھنے کے بعد رات گئے تک سوچتا رہتا اور خیالی پلاؤ بناتا رہتا کے وہ بہت بہت امیر انسان ہو گیا ہے ۔ وہ سمجھتا تھا کے امیر آدمی بہت آزاد ہوتا ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے کوئی روکنے والا نہیں جب دل چاہے ادھر گیا ادھر گیا گھوما پھرا لڑکے لڑکیاں آگے پیچھے بہترین گاڑیاں جو چاہے کرو ۔ بہترین مہنگے کپڑے پر کشش ہوٹلوں میں بڑے لوگوں کے ساتھ لذی کھانے ۔ ہاے کیا زندگی ہوتی ہے ۔ یہاں یتیم خانے میں تو کچھ بھی نہیں تھا مشکل سے کبھی گوشت پکتا وہ بھی پانی اتنا ڈلا ہوتا کہ محسوس ہوتا پانی میں ذائقے کیلیے تھوڑی سی بوٹیاں ڈال دیں ہیں ۔ بچے ایک دوسرے کو تنگ کرتے جھوٹی شکایتیں لگاتے ہنگامہ برپا کرتے یہ بھی کیا زندگی تھی ۔ اس کے ساتھ کے کئی بچوں کو کچھ گھروں نے گود لے لیا تھا لیکن اپنی سیاہ رنگت اور دبلے جسم کی وجہ سے اس کو کسی نے بھی گود لی۔  سکول میں اساتذہ ہمیشہ کہتے کہ پڑھو گے لکھو گے تو بڑے آدمی بنو گے یہ سوچتا کہ میں تو روزانہ پڑھتا ہوں لکھتا بھی ہوں میں کیوں نہیں بڑا آدمی بن جاتا ایک دن ایک نئے استاد صاحب جماعت میں آۓ ۔ انھوں نے کہا کہ محنت کرو گے تو بڑے آدمی بنو گے دیکھو جو ابھی دنیا کا سب سے امیر آدمی ہے وہ کتنا پڑھا لکھا تھا لیکن اسے نوکری نا ملی پھر اس نے اپنا کاروبار شروع کیا اور آج وہ کھرب پتی ہے ۔ اس نے دن رات محنت کی تھی ۔ جب یہ دسویں میں تھا تو اس کے بہت کم نمبر آۓ عمر بھی اس کی پندرہ سال ہو چکی تھی ۔ انہی استاد صاحب نے پاس بلا کر سمجھایا اور کہا ۔ بیٹا جلد ہی تم 18 سال کے ہو جاؤ گے اور پھر تمھیں یتیم خانے سے بھی باہر جانا پڑے گا ابھی تو تمھیں کھانا پینا اور رات جو بستر مل رہا ہے لیکن تین سال بعد اب کچھ خود ہی کرنا پڑے گا اس لئے بہتر ہے کہ محنت کرو اچھے نمبر لو اور اچھی نوکری کرو تاکہ اپنی بقیہ زندگی عیش کرو ۔ بس اس نے ٹھان لی کے وہ محنت کرے گا اور بہت امیر آدمی بنے گا اور جو چاہے کرے گا۔

کالج   اس نے انتہائی عمدہ نمبروں سے امتحان پاس کیا ۔ اسے اسکالر شپ پر ایک یونیورسٹی سے آفر ہوئی رہائش اور شام کو نوکری بھی۔ ویسے بھی وہ اٹھارہ سال کا ہو چکا تھا ۔ اس نے یتیم خانے کو خیر آباد کہا اور ہاسٹل چلا گیا ۔ صبح یونیورسٹی جاتا پھر شام کو نوکری پر ۔ اور جو تھوڑا بہت وقت ملتا اس میں بڑے مشہور لوگوں کی کتابیں پڑھتا ۔ اسی طرح کرتے کرتے چار سال گزر گئے اور اس نے معاشیات میں ماسٹرز کر لیا انتہائی بہترین نمبروں سے ۔اس کو جاب آفر ہوئی اس نے قبول کر لی اور نوکری شروع کر دی اچھی تنخواہ مل رہی تھی اور واقعی وہ اچھی زندگی گزارنا شروع ہو گیا تھا لیکن  بہت امیر آدمی بننے کا خواب ابھی بھی اس کے ذہن میں اٹکا ہوا تھا ۔ چند سال نوکری کرنے کے بعد اس نے نوکری کو خیر آباد کہا اور اپنا کاروبار شروع کیا اور ذاتی کمپنی کھول لی ۔ شروع کے کچھ عرصہ میں تو کام ملا ہی نہیں اور ساری جمع پونجی آہستہ آہستہ ختم ہونے لگی ۔ مسلسل کام کرنے کی وجہ سے اس کی جوانی تیزی سے ختم ہو رہی تھی اور  یہ خود کو کمزور سمجھنے لگا تھا ۔

 کچھ کام ملتا کبھی نہ ملتا گزارا کر رہا تھا ۔ لیکن ہمت نہ ہاری ۔ آخر کار ایک جگہ اس کا کام چل نکلا ۔ اس کو بہت بڑا آرڈر ملا جو اس نے کمال مہارت سے پورا کیا ۔ بس اس کی قسمت جاگنا شروع ہو گئی ۔ کاروبار بڑھا تو اس نے ملازم رکھنا شروع کر دئیے ۔ کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد یہ کروڑ پتی کو چکا تھا ۔ پھر اس کو ایک دوسری بہت بڑی  کمپنی کے ساتھ کام کرنے کا اتفاق ہوا ۔ وہاں اس کی ملاقات اس کمپنی کی مالکن سے ہوئی وہ اس سے عمر میں کچھ عرصہ بڑی تھی اس کو اس کے باپ کے مرنے کے بعد کمپنی ملی تھی ۔ اس کے ساتھ ملاقات پھر کئی ملاقاتوں میں بدل گئی اور ایک دن اس نے اس نے اس عورت کو شادی کا پیغام بھیج دیا اس نے قبول کیا اور دونوں کی شادی ہو گئی ۔ اب وہ کروڑ پتی سے ارب پتی ہو چکا تھا ۔ اس کی کمپنی اور بیوی کی کمپنی ایک ہو گئیں جس سے ان کے مجموعی اثاثے کئی گنا بڑھ گئے ویسے بھی ملک میں کاروبار انتہائی ترقی کر رہا تھا ۔

 اب وہ بھی بڑے بڑے لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا ۔ مہنگے سے مہنگا کپڑا پہنتا ۔ کئی گاڑیاں اس کے گھر میں کھڑی رہتیں ۔ اس کی خواب والی زندگی حقیقت میں تبدیل ہو چکی تھی ۔

  لیکن کچھ عرصہ بعد سب کچھ بدل گیا وہ اس یکسانیت سے تنگ آگیا ۔ اس نے اپنی زندگی پر غور کیا تو اسے اپنی آزادی ختم ہو تی محسوس ہوئی ۔ وہ ایک مخصوص وقت میں سوتا کیونکہ اس کا وقت بہت قیمتی ہو چکا تھا اور وہ ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کر سکتا تھا ۔ کمپنی کے سارے معاملات خود دیکھنا ۔ اور پھر ساری جانچ پڑتال کرنا بھی اس کی مہ داری تھی اس کی بیوی کے حصے کا کام بھی وہی خود کرتا ۔ کیونکہ اس نے پارٹیز میں جانا اور پارلر جانا ہوتا تھا ۔

  پارٹیز میں یہ بھی اپنی بیوی کے ساتھ جاتا تھا ۔ اسے بیوی کی مرضی کا ہی لباس پہننا پڑتا چست سی پینٹ اور پتلا سا کوٹ ۔ بے شک وہ بہت مہنگا اور نفیس ہوتا لیکن اس کو اس میں گھٹن محسوس ہوتی ۔ پارٹیز میں جا کر مصنوعی پانی ہنسنا اور بھری کانٹے سے کھانا کھانا ۔

  گھنٹوں میٹنگز میں بیٹھنا ملازموں اور بینکرز کی خشک باتیں سننا وہاں بھی اپنا ایک رعب برقرار رکھنا جان بوجھ کر اکڑ کر بیٹھنا ۔ اس کیلیے بہت مشکل ہو گیا تھا وہ سمجھتا تھا کے پیسا اور عہدہ ہونے سے انسان کو سکون ملتا ہے لیکن اس کا تو رہا سہا سکون بھی ختم ہو گیا تھا ۔ جو تھوڑا بہت وقت ملتا وہ گھر میں گزر جاتا یا پھر باہر کھانا کھانے چلا جاتا بیگم کے ساتھ ۔ ہفتے میں اگر کبھی کوئی وقت ملتا تو لانگ ڈرائیو پر چلا جاتا اور گاڑی چلاتا رہتا اور سکون کو ڈھونڈتا رہتا لیکن سکون اور آزادی تو کوسوں دور تھی ۔ پھر ایک دن اس نے دو تین چھٹیاں لیں  بیگم کو منایا اور اسلام آباد سیر تفریح کیلیے نکل گیا ۔

  اس کی بیگم نے اسے زور سے آواز دی تو وہ ماضی کے جھروکوں سے واپس آگیا ۔ کیا ہوا تم اکیلے یہاں بیٹھے کیا کر رہے ہو میں تمھارا نیچے انتظار کر رہی تھی ۔ گھڑ سواری کرنی ہے شاپنگ کر نی ہے اب یہاں لے ہی آۓ ہو تو پھر انجواۓ کر لو ۔ بیگم پاس بیٹھتے ہوۓ بولی ۔

  وہ بڑے گہرے لہجے میں بولا ۔ جان تم سے ایک بات کرنی ہے ۔ اسکی بیگم تیزی سے بولی ، ہاں کہو ۔

  جان مجھے پتا نہیں کیا ہوا ہے کچھ عرصے سے سکون نہیں مل رہا عجیب سی بے چینی ہے ۔ وہ اداس لہجے میں بولا

  کیا مطلب سکون نہیں مل رہا کیا مسئلہ ہے ڈاکٹر سے پوچھا ۔ اسکی بیگم نے حیرت سے پوچھا

  نہیں ڈاکٹر والا مسئلہ نہیں ہے بس سکون نہیں مل رہا زندگی بالکل ایک جیسی ہو گئی ہے اور مزا نہیں آرہا ۔وہ بولا

  میں سمجھتی نہیں ۔ وہ اکتاۓ ہوۓ لہجے میں بولی

  مطلب کہ ہم بہت امیر ہیں مشہور ہیں لیکن اندرونی سکون نہیں مل رہا ایسے لگتا ہے کہ آزادی ختم ہو گئی ہے ہم اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتے اور ہم بس ایک چکر میں گھوم رہے ہیں پتا نہیں کسی خاص چیز کی کمی ہے ۔ مجھے نہیں پتا سے کیا کہتے ہیں کیا کیفیت ہے لیکن کچھ کم ہے ۔ وہ اداس لہجے میں بولا

  کیا کہا تم نے آزادی ختم ہو گئی ہے اور کچھ کم ہے  واہ واہ گاڑیاں ہیں کاروبار ہے بنک بیلنس ہے مہنگا کھاتے ہو مہنگا پہنتے ہو

  بڑے بڑے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا ہے پھر بھی سکوں نہیں بلکہ کمی ہے غلطی تمہاری نہیں ہے تمھیں یہ سب کچھ راس ہی نہیں آرہا کبھی سوچا کرو کہ کیسے تم نے یتیم خانے میں بچپن گزارا ہے لیکن اب تم ارب پتی ہو مشہور ہو ٹی وی پر بھی آتے ہو اور کیا چاہیے تمھیں سکون چاہیے میں آج ہی ماہر نفسیات سے تمھاری اپائنٹمنٹ رکھواتی ہوں ۔ پتا نہیں کیوں بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو ۔ اسکی بیوی نے انتہائی غصے میں اس کی بےعزتی کر ڈالی۔ بیگم پاؤں پٹختی ہوئی وہاں سے چلی گئی اور وہ ہکا بکا رہ گیا ۔

  وہ اپنی ہی نظروں میں گر گیا تھا ۔ اسے ایسا لگا جیسے کسی نے منو ں وزنی پتھر اسکے سینے پر رکھ دیا ہو ۔ اس کا دل بھاری ہو رہا تھا ۔ رات بڑی مشکل سے گزاری اور اگلے دن واپسی ہو گئی اور ساری تفریح دھری کی دھری رہ گئی ۔

  کچھ دنوں بعد وہ پھر دفتر پہنچا ۔ اسسٹنٹ نے بتایا سر ہم ملک کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی والی کمپنی سے بات کر رہے ہیں ہو سکتا ہے کہ ہمیں ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل جاۓ ۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو پھر کمپنی دگنی چگنی ترقی کرے گی بس آپ تیار رہیے آپ نے فائنل میٹنگ میں ہمارے ساتھ جانا ہے اور سب کچھ دیکھ لینا ہے بس پھر آپ کا اپروول اور پھر کام بہترین ہو جاۓ گا ۔

  اس نے بس سر ہلا دیا اور گھر چلا گیا۔

آج بہت ہی اہم دن تھا فائنل میٹنگ کیلیے اس کو بلایا گیا تھا ۔ وہ ابھی تک گزشتہ واقعے کے صدمے میں تھا اور اسکی بے چینی مزید بڑھ گئی تھی لیکن کیا کرتا پھر ہمیشہ کی طرح لش پش سوٹ پہنا اور بوجھل دل کے ساتھ دفتر  پہنچ گیا دوسری کمپنی کے تمام عہدے داران اور کئی مزید مشہور اور امیر ترین لوگ بھی آۓ ہوۓ تھے ایک لمبا طویل سا ٹیبل تھا اور اس کے اردگرد بہترین کرسیاں لگی ہوئی تھیں ۔ بالکل شروع میں یہ اور دوسری کمپنی کا مالک بیٹھا ہوا تھا ساتھ میں باقی عہدیداران ۔ بات چیت شروع ہوئی ساری باتیں ایکسپرٹس اور ماہرین نے کرنی تھیں اس نے بس دیکھنا تھا ۔ گھنٹہ پورا بات چیت ہوتی رہی لیکن اس کے دل میں پتہ نہیں کیا کچھ چل رہا تھا ۔ یہ ذرا بھی توجہ نہیں دے رہا تھا ایک دو بار اسسٹنٹ نے کان میں آکر کہا لیکن اس نے سنی ان سنی کر دی یہ کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔ اچانک اس نے سر اٹھایا اور اپنے ساتھ بیٹھے دوسری کمپنی کے آدمی کو سر پر بہت لگائی اور کہا پانی پلا یار ۔ وہ حیرت سے ادھر ادھر دیکھنے لگا لیکن کسی کی توجہ نا گئی ۔ اتنے میں اس نے دوسری طرف بیٹھے کمپنی کے مالک کو گردن سے پکڑا اور ہنستے ہوۓ کہا ۔ یار دیکھ نا یہ کتنی بکواس کر رہے ہیں ۔ اب سب کی توجہ اس کی طرف ہو گئی۔ کمپنی کا مالک حیران و پریشاں بیٹھا ہوا تھا ۔ اور سب اسکو حیرت سے دیکھ رہے تھے  اس نے کہا ۔ کیا میں ننگا بیٹھا ہوں یا پھر میرے سر پر سینگ ہیں جو سارے مجھے دیکھ رہے ہو پھر اس نے سٹیج پر موجود ماہر جو کہ اپنی پریزنٹیشن پیش کر رہا تھالیکن اب اسکو دیکھ رہا تھا  کو کہا ۔ اوۓ چو$@$ تو کیوں خاموش ہو گیا ہے کچھ تو بول سارے مجھے دیکھ رہے ہیں بول کچھ  تاکہ سارے تجھے دیکھیں ۔ سب حیران و پریشاں بیٹھے رہے ۔ کہ اسسٹنٹ جلدی سے پاس آیا اور اس کے کان میں کہا۔ سر یہ آپ کیا کر رہے ہیں کیا ہوا سر ۔ اس نے اسسٹنٹ کو کہا ۔ تو میری بیوی ہے جو بار بار میرے کان میں آکر کھسر پھسر کر رہا ہے ۔ پھر اس نے ساتھ بیٹھے کمپنی کے مالک کو کہا اوۓ تو کیا مجھے دیکھ رہا ہے کبھی خوبصورت آدمی نہیں دیکھا ۔ وہ غصے سے بولا ۔ یہ کیا بدتمیزی ہے ۔ اس نے کہا ۔ میں نے بڑا تیری بہن کو چھیڑا ہے کون سی بدتمیزی کی ہے ذرا بتا ۔ اب معاملات بگڑنے لگے اور سب اٹھ کر جانے لگے لیکن یہ ان سب سے پہلے ہی اٹھ کر دیوانوں کی طرح بھانے لگا اور عمارت سے باہر نکل گیا اپنی شرٹ پھاڑ دی اور آوازیں نکالنے لگا ۔ ہے ہے ہے ہوۓ ہوۓ لوگو مجھے دیکھو ہاہاہاہاہاہا۔ سب لوگ اس کی طرف متوجہ ہو گئے اور حیرانی سے دیکھنے لگے اتنے میں پیچھے سے ملازمین بھاگتے ہوۓ آۓ اور اس کو پکڑنے کی کوشش کی تو یہ ایک ملازم کو گھونسا رسید کر کے بھاگ نکلا ۔ کسی نے ٹی وی چینل والوں کو فون کر دیا اور کیمرہ مین بھی ادھر پہنچ گئے اور اس کے پیچھے پیچھے بھاگنے لگے ۔ یہ دیوانہ وار بھاگ رہا تھا اور اول فول بک رہا تھا۔ ٹی وی پر خبر چل رہی تھی ۔ معروف بزنس مین اور مشہور شخصیت پر پاگل پن کا دورہ سڑکوں پر بھاگنے لگے اور عجیب حرکتیں کر رہے ہیں ۔ کسی نے اس کی بیوی کو فون کیا تو اس نے جلدی سے ٹی وی کھولا تو سامنے اس کے خاوند کی  ویڈیو چل رہی تھی ۔ وہ سب سے معروف شاہراہ پر کھڑا تھا لوگ اس کے گرد جمع تھے اور گاڑیاں رکی ہوئی تھیں اس کے کپڑے پھٹ چکے تھے میڈیا والے بھی آ چکے تھے ویڈیوز بن رہی تھیں ہر کسی نے موبائل نکالا ہوا تھا اور وہ اونچی آواز میں مسخروں جیسی شکلیں بناتے ہوۓ کہ رہا تھا ۔ میں آزاد ہوں میں جو چاہو کر سکتا ہو ں ہے ہے مجھے مل گئی آخر مل گئی مجھے مکتی مل گئی ہاہاہاہا ہے ہے ہے۔

(تحریر: تاجدار ہاشمی)

 

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں


اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔

اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔

 

Follow us on

 

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
Ilmu علمو
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x