خشک پتے ۔ افسانچہ

خشک پتے ۔ افسانچہ

خشک پتے، علی حسین زیدی کا تحریر کیا کرد ہ افسانچہ ہے، جو سماج میں موجود انسانوں کے کرب، اور خارج سے ان کے داخل میں موجود دنیا میں اترنے کی کوشش کی عکاسی کرتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے خشک پتے ۔ افسانچہ ، نیز مزید افسانچوں کے لیے Ilmu علموبابا ہماری ویب سایٹ ملاحظہ کیجیے۔

خشک پتے ۔ افسانچہ
خشک پتے ۔ افسانچہ

چیخنے چلانے کی آواز نے کانوں میں اتر کر روح کو جھنجھوڑا۔ گاڑی کی اگلی نشست پر بیٹھے ہوئے میرا دھیان موبائل سکرین سے ہٹ کر بے ساختہ سامنے آتے شخص کی طرف چلا گیا۔ جسم کو پالا کرتی جنوری کی ٹھنڈ اور برستی بوندوں میں اس کے منہ سے نکلتا ہوا ہر ایک لفظ کثیف بھاپ کے پیرہن اوڑھے نکل رہا تھا۔ اجلا کرتا، میلی شلوار، پیلے کوٹ اور بھاری وجود کے ساتھ وہ ڈگ بھرتا ہوا میری طرف بڑھ رہا تھا۔ گلے میں سیاہ موٹی مالا، ایک ہاتھ میں چھے فٹ لمبی موٹی بینت، تو دوسرے ہاتھ میں کسی پودے سے چند تازے توڑے ہوئےلمبے لمبے  پتے اور زبان پر فحش گالیوں کا وظیفہ ،  یہ تمام اجزا مل کر مجھے یہی احساس دلا رہے تھے کہ یہ کوئی دیوانہ “پاگل” ہے۔ صرف پاگل نہیں بلکہ ایک “با ضابطہ اور باقاعدہ پاگل”۔ آسمان پر بادل، اور زمین پر یہ بادل پوری طاقت سے گھنگھنا رہے تھے۔ اپنے اردگرد موجود ہر شخص پر گرجتے ہوئے، گالیاں بکتے ہوئے وہ ابھی بھی میری ہی طرف آ رہا تھا۔ راستے میں موجود ہر چیز پر اپنا قہر برسا رہا تھا۔ کسی گاڑی کو مکا مار دیتا تو کسی گملے کو ٹھوکر۔  میں آنکھیں پھاڑے حیرت سے اس کو دیکھے جا رہا تھا۔ آنکھوں میں قہر، ہاتھ میں ڈنڈا اور اسکا میری طرف آنا مجھے پریشان کیے جا رہا تھا۔ میں بے یقینی کی سی کیفیت میں اس کے چہرے کو تاک رہا تھا۔وہ بڑبڑاتا دڑبڑاتا میرے پاس سے گزرا اور ہماری نظریں چار ہوئیں۔ میرا گمان تھا کہ اب اس کا غصہ ٹھنڈا ہو ہی جائے گا لیکن اس کی آنکھوں میں اترا ہوا خونی سیلاب، اتر نہ سکا۔ مجھے لگا کہ اس کی بینت گاڑی کے شیشے کو توڑتی ہوئی مجھ تک آنے والی ہے۔ نہ اس کی زبان رکی اور نہ اس کا ہاتھ۔ قریب سے گزرتے اس کا ہاتھ بڑھا، اور سارے پتے میرے منہ کی طرف اچھل گئے۔ اور وہ آگے بڑھ گیا۔ وہ اپنی دنیا میں مگن، نادیدہ سامعین کو عشق کے قصے سناتا رہا۔اپنی منزل کی طرف بڑھتے مجھ سے دور جاتا رہا۔اور میں قطب بنے بے یقینی کے عالم میں گاڑی کا دروازہ کھول کر کافی دیر تک اسے صلواتیں پڑھتے سناتے دور جاتے دیکھتا رہا۔

وہ “پاگل” کبھی میرا ہم پیالہ و ہم نوالہ ہوا کرتا تھا۔میں نے اسے ایسا تو نہیں چھوڑا تھا جیسا وہ مجھے اب ملا۔ملا بھی کیا۔ نظریں ملاتا جگر تک اترتا کسی اور دنیا کو چلتا چلا گیا۔ اور میں بس اسے جاتا دیکھتا رہا۔

وہ آج بھی میرا دوست ہی تھا۔ آج بھی پتے اچھال کر مجھے ایک سبق سکھا گیا۔ ہم ہنستی بستی تر و تازہ بہاروں کے بیچ ایسے مرجھائے پتے بھی موجود ہوتے ہیں جن پر وقت سے بہت پہلے خزاں طاری ہو جاتی ہے۔ اپنی شادابی میں گم ہم ان کے کرب سے غافل رہ جاتے ہیں۔ وہ بھی   سر سبز ٹہنی  پر  موجود ایک مرجھایا ہوا خشک پتا تھا، جس کی طرف کبھی ہم نے توجہ ہی نہیں کی تھی۔

۔۔۔۔۔۔(تمام شد)۔۔۔۔۔۔

(تحریر : ع حسین زیدی)

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں


اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ Ilmu علموبابا

اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔

 

Follow us on

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
Ilmu علمو
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x