خطبات اقبال کا تعارف اور منہاج

خطبات اقبال کا تعارف اور منہاج

خطبات اقبال کا تعارف

            خطبات اقبال دراصل علامہ اقبال کے وہ لیکچرز(خطبے) ہیں جو انہوں نے 1934ء  میں انگلستان و ہندوستان کے مختلف مقامات پر دیئے۔ ان میں سے بہت سے خطبات ترامیم کے ساتھ شائع بھی ہوئے ۔ اور بہت سے انہوں نے پیش کیے ۔
Ilmu علموبابا

خطبات اقبال کا تعارف اور منہاج ۔ Khutbat e Iqbal ka Ta'aruf aur Minhaj
خطبات اقبال کا تعارف اور منہاج ۔ Khutbat e Iqbal ka Ta’aruf aur Minhaj

            پہلے نسخے میں صرف چھے خطبے شامل تھے جبکہ چار سال (۱۹۳۴ء)بعد پیش کیے گئے نسخے میں ساتواں خطبہ بھی شامل کر دیا تھا۔
Reconstruction of Religious Thoughts in Islam علامہ اقبال کے یہ خطبات  دیئے گئے انگریزی عنوان سے شائع ہوئے۔
ان خطبات کے ترجمے کا جو نسخہ علامہ اقبال کی زندگی میں ہی ان کے سامنے پیش کیا گیا وہ سید نذیر نیازی نے ”تشکیلِ جدید الہیات اسلامیہ“ کے عنوان سے پیش کیے تھے۔

            خطبات اقبال کے خطبوں کی کل تعداد سات ہے۔پہلا خطبہ ” علم اور مذہبی مشاہدات“ سے متعلق ہے۔ دوسرا خطبہ ”مذہبی مشاہدات کا فلسفیانہ معیار“، تیسرا خطبہ ”ذات الہیہ کا تصور اور حقیقت دعا“، چوتھا خطبہ ”خودی، جبر و قدر ، حیات بعد الموت“، پانچواں خطبہ” اسلامی ثقافت کی روح“ ، چھٹا خطبہ” الاجتہاد فی الاسلام“ اور ساتواں خطبہ ”کیا مذہب کا امکان ہے“ کے عنوان سے موجود ہیں۔

            خطبات اقبال دراصل مغرب و مشرق کا فرق ختم کرنے، مذہب اور سائنس کے مشترکات کو دیکھنے، انتہا پسندی و تنگ نظری کے بجائے وسعت نظری کا مظاہرہ کرنے اور مذہب کی روایتی و حقیقی حیثیت کی تلاش کرنے کی طرف ایک کوشش تھی۔علامہ اقبال کے تمام خطبے مغربی دنیا کے چیلنج اور مشرقی دنیا کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہیں نیز مشرقی دنیا کو ایک نئی راہ دکھانے کا مظہر بن گئے۔

            خطبات اقبال کیونکہ خالصتاً علمی و فلسفیانہ موضوع رکھتے ہیں اس لیے ان کی تفہیم ہمیشہ سے مشکل رہی ہے۔خطبات میں علمی و فلسفیانہ اصطلاحات کی موجودگی اس تفہیم کی مشکل میں مزید اضافہ کرتی ہے۔البتہ یہ تمام خطبات الگ موضوع رکھنے کے باوجودایک ہی پیغام، ایک ہی نکتے کی طرف آتے ہیں۔

پہلا خطبہ ۔ علم اور مذہبی مشاہدات

            اس خطبے کا انگریزی عنوان Knowledge and Religious Experienceہے۔ اس خطبے میں علامہ اقبال نے علم، مذہب اور مشاہدے کی وضاحت کی ہے۔علامہ اقبال نے علم ، مشاہدے اور مذہب کی کڑیوں کو اس خطبے میں آپس میں جوڑ دیا ہے۔ علم اور مشاہدے کو ایک دوسرے کے لیے لازم قرار دیا، یعنی علم کے بغیر مشاہدہ نہیں اور مشاہدے کے بغیر علم کا حصول ممکن نہیں ۔نیز مشاہدات کے لیے حقیقی چیز کا ہونا لازم قرار دیا یعنی وہی چیز مشاہدے میں آئے گی جو حقیقت میں ہو۔اگر مذہب کی طرف سے بھی مشاہدے کا دعوی کیا جا رہا ہے تو نتیجتاً مذہب بھی ایک حقیقت ہے۔

            یہاں مشاہدے کے حوالے سے بھی بحث نکل آتی ہے کہ مشاہدہ کس چیز کا ہے۔لوگ خود مشاہدہ کر رہے ہیں، یا پھر جس چیز کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے وہ خودکو اس قابل بنا چکی ہے کہ اس کا مشاہدہ کیا جا سکے یا پھر حقیقت خود مشہود ہو رہی ہے۔پھر اس کا دوسرا پہلو داخلی اور خارجی محسوسات سے بھی نکل آتا ہے۔

            اگلی بحث علم بالحواس اور علم بالوحی کی طرف آتی ہے۔علم بالحواس میں چونکہ تمام محسوسات اور حسیات آجا تی ہیں اور مشاہدات کے ذریعے اپنی سند بھی پیش کرتی ہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ چونکہ علم بالحواس کے دائرہ کار میں علم بالوحی کاکلی مشاہدہ کرنا ممکن نہیں اس لیے حواس کے علم کے ماننے والے وحی کے علم کا انکار کرتے ہیں۔لیکن اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ علم بالوحی کی حقیقت نہیں، بس اس کا مشاہدہ ہر کسی کو نہیں ہو پاتا۔

            اس خطبے کا اگلا حصے عقلیت کی طرف آتا ہے۔عقلیت مشاہدے کو نہیں بلکہ عقلی غور و فکر کو علم کا سر چشمہ مانتی ہے۔مذہب عقلیت کے دائرے میں نہیں آتا کیونکہ عقلیت میں ادراک صرف معقول تک محدود رہتا ہے اور معقول ہی اصل حقیقت بن جاتی ہے۔زمان و مکان کا اقرار تو ہو گا پر لامکان و لازمان کا نہیں۔ یہاں عقلیت پھر مذہب کی مخالفت میں نکل آئے گی۔

            اگلا حصہ وحی سے متعلق ہے جس کے لیے علامہ اقبال نے انگریزی میں “انسپریشن” کا لفظ استعمال کیا ہے۔اس کے ساتھ یونانیت، عینیت،زمان متسلسل اور پیغمبرانہ شان کو بھی بحث کیا گیا ہے۔مذہب اور فلسفہ کاے مشترکہ مسائل بھی اس خطبے میں خاصے اہم ہیں۔ان میں جہاں طریقہ کار کا فرق، اصولوں کا فرق وغیرہ ہے وہاں ان میں شب سے بڑی مشترکہ خصوصیت جس کا ذکر ہوا ہے وہ انسان کی حقیقت کی تلاشی اور اسکی آرزو ہے۔دونوں میں حیات انسان ،حالات، احوال اور مسائل ایک سے ہی ہیں۔

دوسرا خطبہ ۔ مذہبی مشاہدات کا فلسفیانہ معیار

            اس خطبے کے بڑے موضوعات میں فلسفہٴ کلام، افلاطونی تصورات، ہیگل کے تصورات، روح کا مسئلہ اہم ہیں۔ اس خطبے میں خدا کی صفات کی بحث بھی خاصی اہم ہے۔اور ان صفات کو فلسفیوں کے نظریات کی رو سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

تیسرا خطبہ ۔ ذات الہیہ کا تصور اورحقیقت دعا

            دراصل خطبات کا اصل مسئلہ’ فرد ‘کا تصور ہے۔فرد سے مراد انسان بھی ہے لیکن ساتھ ہی اس کا دائرہ کار ذات خداوندی کی طرف(انفراد) بھی چلا جاتا ہے کہ آخر اس کی ذات کا تصور ہے کیا۔ذات الہی کا تصور کرتے وقت اس کی لامتناہیت کو مکانی لامتناہیت میں نہیں پرکھنا چاہیے۔وہ زمان و مکان کے وجود کو بھی بنائے ہوئے ہے اس لیے اسے زمان و مکان سے بالکل ہی ماوراء قرار دینا بھی صحیح نہیں۔زات الہی متناہی ہے تو ان معنوں میں کہ اس کی تخلیقی فعالیت کے ممکنات جو اس کے اندر موجود ہیں ، لامحدود ہیں اور کائنات بھی اس کا صرف ایک جزوی مظہر ہے۔

            یہ دنیا نقاط و لمحات کی دنیا ہے، نقطے یعنی مقام کے چھوٹے اجزاء اور لمحات وقت کے۔ ہم اس قید سے آزاد نہیں۔لیکن ذات الہی کے لیے یہ قید نہیں وہ ان لمحات و نقاط کی قید سے خالصتاً آزاد ہے ۔زمان و مکان کا الیہاتی تصور اور ذات الہی کی زمان و مکان سے ماورائی صرف خطبات ہی میں نہیں بلکہ شاعری میں بھی نظر آتی ہے۔

سلسلہ روز و شب نقش گر حادثات
سلسلہ روز و شب اصل حیات و ممات
سلسلہ روز و شب تار حریر دو رنگ
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات
سلسلہ روز و شب ساز ازل کی فغاں
جس سے دکھاتی ہے ذات زیر و بم ممکنات
تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا
ایک زمانے کی رو جس میں نہ دن ہے نہ رات

            دعا کا تصور انسان کی قدر و جبر اور تقدیر ومقدرسے متعلق ہے۔جہاں علامہ اقبال اس تصور کو اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار میں پرکھتے ہوئے بحث کرتے ہیں۔دعا کی انفرادی اور اجتماعی شکلوں پر بھی بحث کرتے ہیں۔ان کے مطابق اگر عبادات میں خلوص اور صداقت کا رنگ موجود ہے تو اس کی روحاور اس کا اثر اجتماعی ہو گا۔دعا کو وہ ضمیر انسانی کی اس نہایت درجہ پوشی دہ آرزو کی ترجمانی کا نام دیتے ہیں جو کائنات کی ہولناک سکوت میں ایک پکار ہے اور ایسی پکار جس کو اس کا جواب ملنا ہے۔

چوتھا خطبہ ۔ خودی ، جبر و قدر ، حیات بعد الموت

            اس خطبے میں تین اہم ترین موضوعات کو علامہ اقبال نے بیان کیا ہے۔جہاں تک خودی کی بات ہے تو علامہ اقبال کی شاعری اور دیگر فکری رجحانات کا مرکز تصور خودی ہی رہا ہے۔خودی دراصل انفراد کی ایک حالت ہے۔اجتماع جتنا مرضی مضبوط ہو جائے انفراد کی اہمیت اپنی جگہ ہے ۔ اسی انفراد کو اقبال نے خودی کا نام دیا ہے۔پھر خودی کو دو بڑی صورتوں میں تقسیم کیا، ایک خودی محدود اور دوری خودی لا محدود ۔ خودی محدود زمان و مکان کی قید میں رہ کر، فطرت کے اصولوں کے تحت اپنی شناخت کرواتی اور اپنے آپ کو مضبوط بناتی ہے جبکہ خودی لا محدود تمام قسم کی پابندیوں اور قیدوں سے آزاد ہے۔

            جبر و قدر کے موضوع کے حوالے سے اقبال دوبارہ اسلام کی تاریخ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور تمام فکری زاویوں کے تحت اس کو بیان کرتے ہین۔درا صل وہ اختیار کے دائرہ کار کی وضاحت اور حد کو تلاش کرتے ہیں۔خودی لامحدود کے لیے اختیار کی کوئی حد نہیں البتہ خودی محدود کا دائرہ اختیار ایک حد تک ہی ہے۔

پانچواں خطبہ ۔ اسلامی ثقافت کی روح

            اسلامی تہذیب و ثقافت کے ضمن میں علامہ اقبال خطبات میں بیان کرتے ہیں کہ اسلامی ثقافت کے پہلو و عناصر خالصتاً یونانی علم و حکمت کا نتیجہ نہیں تھے۔علامہ اسلامی ثقافت کی روح کا رخ علم اور علم کے حصول کی طرف موڑ دیتے ہیں۔البتہ وہ اسلامی ثقافت کی روح میں یونانی علم و حکمت کی نفی کرتے ہیں۔علم کی تمام حالتوں اور صورتوں کو وہ اس ثقافت کا لازمی جزو سمجھتے ہیں۔وہ علم کو تغیر کے بل پر بہتا ہوا اور حرکی مانتے ہیں جو ساکن نہیں اور نہ ہی ساکن ہو سکتاہے۔

            علامہ اقبال یہاں عالمی تاریخ کا رخ کرتے ہیں اور مختلف تصورات کو زیر بحث لاتے ہوئے اسلامی تہذیب و ثقافت کا دیگر تہذیبوں اور مذہبیات سے مشترک اور متفرق ہونے کا مشاہدہ پیش کرتے ہیں لیکن اسلامی ثقافت کو نہ یہی یونانی اور نہ ہی مجوسی ثقافت کے طابع مانتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق علم کے ساتھ ایک اور چیز بھی اسلامی ثقافت کی جان ہے اور وہ اس کے عقید ہیں۔

چھٹا باب ۔ الاجتہاد فی الاسلام

            اسلام میں اجتہاد علامہ اقبال کے خطبات کا سب سے اہم حصہ ہے۔ اقبال دنیا کی موجودہ صورت حال میں مسلمانوں کو اجتہاد کی مشورہ دیتے ہیں۔ اس کے تحت وہ روایت کے پرانے خود ساختہ اصولوں کے بجائے جہاں گنجائش اور ضرورت ہو نئے اصولوں کے امکان کا اظہار کرتے ہیں۔

            اس کی وجہ اس وقت کے مسلمانوں کے ذہن میں موجود قدامت پرستی تھی کو کسی بھی صورت متحرک ہو نے کو تیار نہ تھے حالانکہ دنیا تغیر کے اصول کی پاسداری کرتی ہے۔لیکن یہاں یہ امر بھی موضوع بحث ہے کہ اقبال کن بنیادوں پر تبدیلی اور تغیر کے حامی تھے تو ایک بات واضح ہے اور وہ یہ کہ وہ مذہب اوراسلام کے بنیادی و کلیدی تصورات کے سودے پر اجتہاد کی قائل نہ تھے بلکہ اپنی بنیادوں اور جڑون کو مضبوطی سے تھامنے کے بعد ثانوی امور میں اجتہاد کی گنجائش کا رستہ اپنانے کے قائل تھے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کی بنیاد میں وحی ہے اوراس کی قیمت پر جدید دور کے ساتھ چلنا اپنی شناخت کھو دینے کے برابر ہے۔

ساتواں خطبہ ۔ کیا مذہب کا امکان ہے؟

            علامہ اقبال کے تمام خطبوں کا نچوڑ یہ خطبہ ہے۔سابقہ تمام خطبوں میں آخر جو چیز دوام کی شکل میں ظاہر ہوئی وہ مذہب کا عنصر تھا۔اقبال جدید دور اور مذہب کے ساتھ ساتھ چلنے سے اس خدشے کا اظہار کر چکے ہیں کہ اس سے مذہب کی نفی ہو سکتی ہے لیکن وہ اس بات کے بھی قائل نظر آئے کہ مذہب کو ساتھ لے کر جدید دور کا سامنا کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے مذہن کی بنیاد اور اس کی جڑیں تھامنا ضروری ہو گا۔

 

(تحریر: ع حسین زیدی)

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں


اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔

اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔ Ilmu علموبابا

 

Follow us on

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
Ilmu علمو
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x