نعت رسول مقبول از امیر مینائی

نعت رسول مقبول از امیر مینائی

مندرجہ ذیل پوسٹ میں ہم ” نعت رسول مقبول از امیر مینائی” کا احاطہ کریں گے۔ امیر  مینائی کا شمار اردو ادب کے بہترین نعت گو شعرا میں ہوتا ہے۔ جہاں ان کی تحریر کردہ نعتوں میں  فن کا کمال نظر آتا ہے وہیں ، یہ مجموعہ ہائے کلام بھرپور عقیدت سے لبریز بھی نظر آتے ہیں۔ اسی قسم کے مزید علمی اور معلوماتی  موضوعات سے فیض یاب ہونے کے لیے “علمو بابا” کی ویب سائٹ “ilmu.pk” کا جائزہ لیتے رہیے۔

نعت رسول مقبول از امیر مینائی
نعت رسول مقبول از امیر مینائی

شعر1

صبا بے شک آتی مدینے سے تو ہے

کہ تجھ میں مدینے  کے پھولوں کی بو ہے

تشریح

 نعت میں رسول اکرم ؐ کی شان کا بیان موجود ہوتا ہے، اسی لیے اس نظم میں بھی شاعر امیر مینائی رسول ؐ کی شان بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔   وہ بادِ صبا سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں  کہ اے صبح کی ٹھنڈی ہوا!، اے بادِ صبا!  تیری یہ تازگی ، یہ ٹھنڈک ، یہ خوشبو بتا رہی ہے کہ تو میرے محبوب ، میرے آقا ، میرے رسول حضور ؐ کی نگری سے گزر کر آ رہی ہے۔ تو مدینہ سے  گزر کر آئی ہے اسی لیے تیرے اندر یہ تازہ مہکتی خوشبو رچ گئی ہے۔  یہ رسول خدا ؐ کا کرم ہے  کہ ہر شے ان کی قربت پاتے ہی بہتر سے بہترین صورت میں آ جاتی ہے۔

نعت رسول مقبول از امیر مینائی

شعر 2

سنی ہم نے طوطی و بلبل کی باتیں

تیرا تذکرہ ہے تیری گفتگو ہے

تشریح

اس کے بعد امیر مینائی رسول ؐ کی شان بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ، یا رسول اللہؐ ! ہم نے جہان کی ہر ہر شے کو دیکھا، ہر جاندار کا مشاہدہ کیا، طوطے، بلبل،  مینا، کوئل ، چڑیا، ہرہر پرندے کو دیکھا۔ سب کے سب جاندار ، نباتات ، جمادات ، حیوانات آپ ہی کی تعریفیں اور آپ ہی کے گیت گاتے ہوئے نظر آئے۔   یہی نہیں جانداروں کے ساتھ بے جانوں کو بھی آپ ہی کا ورد کرتے، آپ کی تسبیح کرتے ، آپ ہی کا کلمہ پڑھتے دیکھا ہے۔ آپ جیسی شان پوری کائنات میں کسی اور کے پاس نہیں۔ آپ افضل ترین ذات ہیں، کہ اللہ تعالی نے آپ ہی کے لیے یہ تمام جہان خلق کیے۔

شعر 3

جیوں تیرے در پر مروں تیرے در پر

یہی مجھ کو حسرت یہی آرزو ہے

تشریح

اس کے بعد نعت رسول مقبول از امیر مینائی میں  شاعر اپنی حسرت کو بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میری خواہش، حسرت،  تمنا اور آرزو یہی ہے کہ میں رسول اللہ ؐ کے کوچے میں ، اُن کے در پر، اُن کے روضے پر اپنی تمام زندگی گزار دوں۔ میں اُن سے دور نہیں رہ سکتے۔ اور یہی نہیں کہ میں اُن کے قدموں میں  اپنی تمام  عمر گزار دوں بلکہ میری یہ بھی خواہش ہے کہ جب مجھے موت آئے ، تو وہ بھی رسول ؐ کے قریب رہتے ہوئے آئے۔ میں نہ صرف ایمان والی، بلکہ عرفان والی، افضل موت چاہتا ہوں جو کہ رسول ؐ کی غلامی میں آنی ہے۔

شعر 4

جمے جس طرف آنکھ جلوہ ہے تیرا

جو یک سو ہو دل تو وہی چار سو ہے

تشریح

یہاں امیر مینائی کا کہنا ہے کہ محبت ایسی یک سوئی اور جذبے کا نام ہے کہ جس میں انسان کو تمام چیزوں نظر انداز کر کے، صرف ایک مقصد کو دل اور دماغ میں رکھنا پڑتا ہے۔ اگر دل کسی کی محبت میں گرفتار ہو جائے، اور یک سوئی مل جائے تو ہر طرف اپنی محبت کا ہی جلوہ نظر آتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم ؐ کا نور اور جلوہ مجھے ہر طرف نظر آنے لگا ہے۔

شعر 5

تیری راہ میں خاک ہو جاؤں مر کر

یہی میری حرمت  یہی آبرو ہے

تشریح

نعت رسول مقبول از امیر مینائی میں شاعر دوبارہ اپنی خواہش اور حسرت کا بیان کر رہا ہے۔ وہ یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ ، مجھے دنیا کی یہ دولت، یہ شہرت، یہ مال و متاع،  کچھ بھی نہیں چاہیے۔ میرے لیے یہ اعزازات کسی اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔ اگر مجھے کوئی چیز قابل عزت،  قابل فخر اور قابل احترام بناتی ہے تو وہ بس یہی ہے کہ میں رسول خدا حضرت محمد مصطفی ؐ  کی راہ ، ان کی محبت میں اپنی زندگی داؤ پر لگا دوں۔ اور صرف جان ہی نہ وار دوں بلکہ اگر مجھے ذرہ ذرہ  بھی ہونا پڑے تو میں اس سے بھی دریغ نہ کروں۔

نعت رسول مقبول از امیر مینائی

شعر 6

یہاں ہے ظہور اور وہاں نور تیرا

مکاں میں بھی تو لا مکاں میں بھی تو ہے

تشریح

اس شعر میں امیر مینائی تصوف کے مسائل سے بحث کرتے ہوئے رسول اکرم ؐ کی حمد و ثنا اور مرتبے کی اونچائی بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ  کے نور نے صرف اسی ظاہری دنیا کوہی روشن نہیں کیا بلکہ  دوسرا جہان بھی ان ہی نور سے روشن اور آباد ہوا ہے۔ اگر یہاں ان کا ظہور ہوا ہے، تو عالم ِ غیبی میں ان کا نور جلوہ گر رہا ہے۔ اُن ہی دم سے اللہ نے یہ دونوں جہاں آباد کیے ہیں۔رسول اللہ اِس ظاہری زمان اور مکان میں بھی رہے ہیں، اور غیبی جہان یا لامکان کے بھی باشندے رہے ہیں۔

شعر7

جو بے داغ لالہ جو بے خار گل ہے

وہ تو ہے وہ تو ہے وہ تو ہے وہ تو ہے

تشریح

نعت رسول مقبول از امیر مینائی کے آخری شعر میں رسول خدا حبیب اللہ حضرت محمد مصطفی ؐ کے  حُسن کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول ؐ اگر گلِ لالہ کی طرح خوب صورت ہیں  ، تو بے داغ ہیں۔ اگرچہ لالہ کا پھول خوبصورت ہونے کے باوجود داغ دار ہوتا ہے، اور گلاب خوشبو دار ہونے کے ساتھ کانٹوں سے بھرا ہوتا ہے۔ لیکن رسول اللہ ؐ اپنے حسن کے معاملے میں بھی کامل اور  مکمل ہیں۔ جیسے ان کی ذات “انسان کامل” کا شاہکار  ہے، ویسے ہی ان کا حسن بھی “حسن کامل” کی اعلی ترین مثال ہے۔

(تحریر: ع حسین زیدی)

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں

اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔

اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔

 

Follow us on

2 2 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
Ilmu علمو
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x