وکٹر میری ہیوگو(Victor Marie Hugo)

وکٹر میری ہیوگو(Victor Marie Hugo)

یہ آرٹیکل فرانس کے عظیم دانشور،  ادیب، شاعر اور سیاست دان  “وکٹر میری ہیوگو”  کے تعارف ، کار ہائے نمایاں اور حالات زندگی کے متعلق چند مفید معلومات پہنچانے کے لیے لکھا گیا ہے۔ وکٹر ہیوگو کو عالمی ادب میں کلاسیک کا درجہ درجہ حاصل ہے،  جو کہ بہت ہی کم ادیبوں کو حاصل ہوتا ہے۔

وکٹر میری ہیوگو(Victor Marie Hugo)
وکٹر میری ہیوگو(Victor Marie Hugo)

وکٹر میری ہیوگو  26 فروری1802 ء کو پیدا ہوا۔  اس کا  ناول  “نوٹرے ڈیم دے پیرس” 13 مارچ 1831 ء کو فرانسیسی زبان میں شائع ہوا۔1833 ء  میں فریڈریک شوبرل نےاس کا انگریزی ترجمہ “”دی ہنچ بیک آف نوٹرے  ڈیم” کے عنوان سے کیا ۔ انگریزی ترجمے کی وساطت سے 1997ء  فکشن ہاؤس لاہور نے  “کبڑا عاشق” کے عنوان سے اردو ترجمہ کیا۔ اس فرانسیسی ناول نے موسیقی جیسی قدیم صنف کے علاوہ ڈرامے ،فلم اور کارٹون کے ذریعے  بھی اپنی آفاقیت کا  لوہا   منوایا ۔

پیرس  کے چرچ   نوٹرے  ڈیم میں آج بھی  ہر سال  اس ناول کے کرداروں کے ذریعے  موسیقی اور ڈرامے کے نمونے پیش کئے  جاتے ہیں ۔ اس ناول کو دنیا کی بے شمار زبانوں میں ترجمہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ پیرس  کی سیاحت کو فروغ دینے میں وکٹر ہیوگو کے اس ناول اور ناول    ” لے مزریبل” کا اہم کردار ہے ۔یہ دونوں شہرہ آفاق ناول شہکار فن پارے ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخی اہمیت کے بھی حامل ہیں ۔

 وکٹر  میری ہیوگو کا شعری مجموعہOdes et) poésies diverses)بیس سال کی عمر میں1822 ءمیں شائع ہوا۔ اس کی بدولت لوئس  یاز ہشتم کی طرف سے وظیفہ  حاصل ہوا ۔

 وکٹر ہیوگو کا پہلا ناول Han d`Islande))1823ء اور  دوسرا ناول Jargal)  (Bug- 1826ء میں  شائع ہوا۔ 1829ء  سے  1840 ء تک وکٹر ہیوگو کے پانچ شعری مجموعے شائع ہوئے ۔ وکٹر ہیو گو   رومانوی تحریک کے اہم مصنفین میں سے  ہے ۔ کروم  ویل اور  ہِرنانی رومانویت کا منہ بولتا ثبوت ڈرامے ہیں۔

ہیوگو رومانوی تحریک کے اہم  شاعر فرینکوئس  رینے سے متاثر تھا ۔ وکٹر  ہیوگو نے  البرٹ  کامس ،چارلس ڈیکن  اور  فیودر  دوستویفسکی جیسے اہم مصنفین پر بھی اپنے اثرات چھوڑے ۔وکٹر ہیوگو  کو ایک کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔

اس رومانوی تحریک کے مصنف نے مصوری کے نمونے ،شاعری ، ناول اور ڈرامے یادگار چھوڑے ۔ صحافت اور سیاست کے ذریعے  بھی انسانی علوم کی خدمات سر انجام دیں ۔ وکٹر  ہیوگو کا باپ جوزف  لیوپولڈ آزاد خیال جمہوریت پسند  تھا اور  نپولین کی فوج میں تب تک بڑے عہدے پر فائز رہا جب تک وہ اسپین کے محاذ پر  ناکام نہ ہوا تھا ۔

اس کی ماں صوفیہ ایک شاہی  نژاد کیتھولک تھی اور جنرل  وکٹر  لاہوری سے محبت کرتی تھی جسے  نپولین کے خلاف معرکہ  آرائی کی وجہ سے جیل پہنچا دیا گیا اور 1812  ء میں قتل کر دیا گیا تھا ۔وکٹر  ہیوگو نے باپ کی ملازمت کے دوران  اس کے ساتھ سفر بھی کیا اور اس کی ماں نے لیو  پولڈ  سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد اکیلے بھی اس کی تربیت  کی ۔ اس تربیت کا رنگ وکٹر ہیوگو   کی زندگی پر چڑھا ہوا دکھائی  دیتا ہے۔

ہیوگو  جوانی کے دنوں میں باشاہت کا پرستار تھا لیکن رفتہ رفتہ اس کے خیالات بدلے اور وہ ایک آدھ  دہائی میں  منجھا ہوا جمہوریت پسند  بن کر ابھرا ۔ وکٹر ہیوگو نے 1822 ء میں اپنی بچپن کی سہیلی  ایڈیل  فئوچر سے شادی کی ۔ اس کا پہلا بیٹا ایک سال کی عمر میں فوت ہو گیا ۔ دوسری بیٹی  لیو پورڈین شادی کے ایک سال بعد  ڈوب کر مر گئی ۔ اس کے دو بیٹے اور ایک بیٹی  آڈیل اور بھی تھے۔

وکٹر ہیوگو 1841 ء میں ممبر آف  اکیڈمی فرانس  کے عہدے پر فائز ہوا۔1845 ء  میں اسے لوئس  فلپ کی  کابینہ کا سینیٹر چنا گیا ۔ اس نے جمہوریت کی  بالادستی  اور چھاپہ خانوں کی حمایت کی ۔سماجی  نا  انصافیوں اور پھانسی  کے قانون  کی زبردست مخالفت کا اظہار کیا۔1847 ء کی  دوسری  جمہوریت میں بطور کنزرویٹو   ایم این اے ، پیرس کی سیاست کا حصہ بنا لیکن ایک سال بعد ہی اسے الگ ہونا پڑا ۔اس کا قصور یہ تھا کہ اس نے  مفلسی اور ظلم کا  سدِباب چاہا تھا اور بچوں کے لیے مفت تعلیم پر تقریریں کی تھیں۔

1851ء میں نپولین نے جمہوریت کو ختم کیا  تو اس نے بر ملا  نپولین سوم کی مخالفت کی جس کی وجہ سے اسے 1855 ء میں جلا وطن کر دیا  گیا ۔ جلا وطنی کے دوران پہلے بروسلز اور پھر جرسی کے علاقے میں رہا  ۔ وہا ں  اس نے ملکہ وکٹوریہ  پر تنقید کرنے میں ایک جرسی اخبار کی مدد کی جس کی وجہ سے یہ جگہ بھی  چھوڑنی  پڑی۔

اس کے بعد 1870 ء تک  گؤرنسی کے سینٹ پیٹر پورٹ پر اپنے خاندان کے ساتھ رہا ۔ وہیں رہ کر ہیوگو  نے اپنی کتاب ”لے میزرایبل“ بھی مکمل کی ۔یہ اس  کا بہترین ناول سمجھا جاتا ہے جس میں سماجی نا انصافیوں سیاست اور سماجی حالات کو موضوع بنایا گیا ہے ۔ جہاں یہ دنیا کی دیگر کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا “مضراب” کے عنوان سے اس کا اردو ترجمہ بھی ہوا۔ 1871  ء تا1885ء  ہیوگو پیرس میں رہا اور سینٹر آف  سئین کے عہدے پر فائز رہا ۔

پیرس کمیون کے وقت ہیوگو پیرس میں ہی موجود تھا ۔ وکٹر  ہیوگو ہی وہ مصنف تھا جس نے کہا کہ ”یورپی اقوام کے درمیان جنگ ایک سول وار ہے۔  1849ء  میں ہونے والی انٹرنیشنل کانگرس میں ہیوگو نے یورپی یونین کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔14 جولائی 1870 ء  کو اس نے یورپی یونین کی متحدہ ریاستوں کے نام اوک  کا درخت اْس گھرکے باغ میں لگایا جہاں وہ جلا وطنی کے دور میں رہا ۔

وکٹر میری ہیوگو کی تصویر کو اعزازی طور پر فرانسیسی کرنسی کے نوٹ پر آویزاں کیا گیا اور اس کے گھر کو میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا ۔ وکٹر ہیوگو  نمونیہ کی وجہ سے 22 مئی 1885 ء  کو پیرس میں فوت ہوا ۔ پنتھن کا قبرستان اس کی آخری آرام گاہ ہے۔

(تحریر : عدنان ریاض)

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں


اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔

اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔

 

Follow us on

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
Ilmu علمو
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x