کہانی مجبور بیٹی از آکاش علی مغل

کہانی مجبور بیٹی از آکاش علی مغل

کہانی مجبور بیٹی از آکاش علی مغل
کہانی مجبور بیٹی از آکاش علی مغل

اس کی بہن ازکا نے اسے پڑھنا لکھنا سکھایا تھا۔انٹر اور بی اے کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کرنے بعد جمیلہ نے “پرستان” یونیورسٹی اسلام آباد میں داخلہ لے لیا تھا۔اس کے ساتھ ساتھ ایک قومی اخبار روزنامہ “ایکسپریس” سے ایک کالم نگار کی حیثیت سے بھی منسلک تھی۔کتابیں پڑھنے کے شغل نے اس کے لیے نہ بجھنے والی ہوس کی کیفیت اختیار کر لی تھی۔اس کی والدہ بچپن میں ہی فوت ہوگئی تھی۔پھوپھی رخسانہ بے محبت کی شادی کی اکلوتی یادگار اس نوجوان لڑکی کے لیے ہمدردی اور محبت ایک پناہ گاہ تھی۔ماں کی موت کے بعد سے اسی نے اِنہیں دو بہنوں اور ایک بھائی کو پالا تھا۔جمیلہ کا اپنی پھوپھی کے ساتھ تعلق ایک بیٹی کے ساتھ ساتھ دوست کا بھی تھا۔اپنی ہر بات ان سے شیئر کرتی اور اپنا رازداں سمجھتی تھی۔جمیلہ کو شاعری سے زیادہ نثر آسان لگتی تھی تبھی اس نے لکھنے کے لیے نثری صنف کو چنا۔شاعری میں اسے بحروں کی سمجھ نہیں آتی تھی اور نہ کسی شعر کی تقطیع  کر سکتی تھی۔  دن میں غزل زبانی یاد کرنے کی کوشش کرتی لیکن اسے یاد نہیں ہو پاتی۔بس شاعری وہ صرف ذاتی تسکین کے لیے پڑھا کرتی تھی اور جو “محبت” سے متعلق شعر ملتا اسے اپنی ڈائری میں لکھ لیتی۔شعر کے لکھنے کے بعد آخر میں اپنے نام کا پہلا انگریزی word اور جس سے محبت کرتی اس کا پہلا انگریزی word لکھتی۔

روزانہ جمیلہ  روزنامہ قومی اخبار”ایکسپریس”میں “رومانوی افسانہ” کے نام سے لکھا کرتی اور  روزانہ کی بنیاد پر اس کے کالم اخبار میں شائع ہوتے تھے۔جمیلہ کو ساتویں کلاس سے ہی رومانوی ناولز اور افسانے پڑھنے کا چسکا پڑھ چکا تھا۔اور یہی سے ہی اس کے کالم کا موضوع بھی ” رومانوی افسانہ” بنا جس نام سے اس کے کالم شائع ہوتے تھے۔علی روزانہ”ایکسپریس” اخبار خرید کر جمیلہ کے کالم پڑھا کرتا تھا اور ایسے اس میں غرق ہوجاتا کہ اسے دنیا جہاں کا ہوش نہ رہتا۔جمیلہ کا کام سخت اور اس کالم نگاری میں تنخواہ نہایت قلیل تھی،پھر بھی وہ اسے بہت اچھی طرح سے کرتی تھی۔جو چیز اس کی برداشت سے باہر تھی وہ سسکیاں،آہیں اور مسہریوں کی چرچراہٹ تھی،جو اس کے لہو کو جذبے اور دکھ سے اس قدر بھر دیتی کہ اسےاپنی اس خواہش پر قابو رکھنا دشوار ہوجاتا کہ صبح ہونے تک باہر نکل کر خود کووہ علی کے سپرد کرے جو کسی تکلیف یا سوال جواب کے بغیر اس کی طلب پوری کر دے۔علی جو نوجوان،ہینڈسم اور کسی لڑکی کے بغیر تھا،اس کے لیے جنت کے ایک تحفے سے کم نہ تھا۔”بخاری ریسٹورنٹ” میں جہاں ان کی پہلی ملاقات ہوئی تھی،اسے پہلی بار دیکھتے ہی اس نے اپنے اور علی کے درمیان ایک قدر مشترک کر لی تھی۔دونوں محبت کے ضرورت مند تھے۔مگر وہ اس کی بے بس کر دینے والی خواہش سے بے خبر تھا۔اس نے اپنا کنواراپن علی کے لیے سنبھال رکھا تھا اور دنیا میں کوئی دلیل یا قوت ایسی نہ تھی جو اسے اس عہد سے ہٹا سکی۔

جب علی نے محسوس کیا کہ اسے جمیلہ سے محبت ہونے لگی ہے تو وہ اپنے شباب کے جوبن پر تھا اور اپنی بائیسویں سالگرہ کے قریب تھا۔اسے اپنی اس جوانی میں بہت ساری چیزوں کا تجربہ ہوچکا تھا۔اسے اس مسرت کا بھی تجربہ ہوچکا تھا جب اس نے ویلفیئر سوسائٹی کے پلیٹ فارم سے مخلوقِ خدا کی خدمت کی۔اپنے کالج میں”میں اگر محبت نہ کرتا تو”کے موضوع پر تقریری مقابلہ جات میں انعام حاصل کیا تھا۔

یہ دنیا دن بدن ان کے لیے جہنم بن گئی تھی۔جب محبت کا ابتدائی جنون کم ہوا تو دونوں اس میں درپیش خطرات کو محسوس کرنے لگے اور اتنے کمزور دل تھے کہ کسی بھی صورت کسی اسکینڈل کا سامنا کرنے کو تیار نہیں تھے۔وہ اپنے عشق کی مدہوشی میں ہر بات کا وعدہ کر لیتے مگر جب یہ کیفیت گزر جاتی تو ہر شے کسی اور وقت کے لیے چھوڑ دی جاتی۔جوں جوں ان میں قرب کی خواہش بڑھتی تو اس کے ساتھ ساتھ انہیں ایک دوسرے کے کھو دینے کا خوف بھی بڑھتا رہتا۔چنانچہ پھر ان کی ملاقاتیں جلد بازی میں ہونے لگیں اور ان کے مسائل بڑھتے گئے۔کسی اور شے کے بارے میں وہ سوچنا بھی گہوارہ نہیں کرتے تھے۔ناقابل برداشت خواہشات کے ساتھ وہ سہ پہروں انتظار کرتے تھے۔اپنی ذمہ داریوں کو فراموش کرتے گئے۔ایک دوسرے کی فکر کرنا،احساس اور خیال رکھنے کے سوا انہیں کچھ بھی یاد نہیں تھا۔ایک طرف دونوں کی شدید قسم کی محبت تو دوسری طرف محبت میں درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے سے ڈرنے والے جمیلہ اور علی نے خدا سے بھی امیدیں وابستہ کر رکھی ہوئی تھی۔دونوں روزانہ گڑگڑا کر اپنے رب سے دعا مانگا کرتے تھے اور انہیں رب پر توکل تھا اور یقین تھا کہ ان کا رب ان کی مدد کرے گا۔

ان کی اتنی لمبی لمبی دعاؤں کا رب کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا بلکہ سب کچھ ان کی دعا کے برعکس ہوا۔جمیلہ جو اپنی پھوپھی کو رازداں سمجھتی رہی۔۔۔ اس  کے سامنے اعتراف محبت کیا۔۔۔۔اعتراف محبت کے سنتے ہوئے کرخت لہجے میں اس کی پھوپھی نے کہا! محبت کی شادی۔۔۔۔تمھاری محبت کی شادی نہیں ہوسکتی۔۔۔تم سے پوچھے بغیر اور تمھارا یونیورسٹی میں داخلہ لینے سے پہلے ہی تمھارے ایک کزن حسیب سے رشتہ طے کر دیا تھا اور تمھارا یونیورسٹی میں ماسٹر مکمل ہونے کے فوراً بعد رخصتی کر دی جائے گی۔جمیلہ یہ سن کر منہ کے بل زمین پر گڑی۔۔۔بے اختیار منہ سے نکل رہا تھا!!!!ہائے ایک مجبور بیٹی!!!!ایک مجبور بیٹی!!!!مجبور بیٹی۔

 

شعر و شاعری، تنقید و تحقیق اور علم و ادب سے متعلق مزید جاننے کے لیے ہماری ویب سائٹIlmu علموبابا ملاحظہ فرمائیں۔

 

تحریر : آکاش علی مغل

 

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں


اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔

اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔

 

Follow us on

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
Ilmu علمو
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x