ترقی پسندی کیا ہے؟ اور ترقی پسند ادب سے کیا مراد ہے؟

ترقی پسندی کیا ہے؟ اور ترقی پسند ادب سے کیا مراد ہے؟

ترقی پسندی کیا ہے؟ اور ترقی پسند ادب سے کیا مراد ہے؟ ان سوالوں کے جواب حاصل کرنا کوئی بہت پیچیدہ اور مشکل کام نہیں، بلکہ اسے سمجھنا ایک نہایت ہی سادہ اور آسان  مرحلہ ہے۔

ترقی پسندی کیا ہے؟ اور ترقی پسند ادب سے کیا مراد ہے؟
ترقی پسندی کیا ہے؟ اور ترقی پسند ادب سے کیا مراد ہے؟

ترقی پسندی کا اگرچہ لغوی معنی “موجودہ حالات میں اضافہ کرنا یا ترقی دینا “ہے، لیکن اردو ادب میں “ترقی پسندی” کی اصطلاح ایک باقاعدہ تحریک کے معنوں میں استعمال کی جاتی ہے۔

مختصراً یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ترقی پسند تحریک اردو ادب کی ایک منظم تحریک تھی جو با ضابطہ طور پر 1936ء میں شروع ہوئی۔ اگرچہ اس کے آثار اور نقوش  ایک عدد مضمون ، 1932ء میں شائع ہونے والے افسانوی مجموعے “انگارے”  اور منشی پریم چند کی حقیقت نگاری میں ملتے ہیں لیکن اس تحریک کو با ضابطہ اور باقاعدہ طور پر 1936ء میں ہی چلایا گیا۔

ایسا بھی کہا جاتا ہے یہ تحریک ادب میں سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے شروع کی گئی تھی۔ اس تحریک کا بنیادی مقصد معاشرے میں موجود غریب عوام پر ہونے والے مظالم ، ان کے استحصال، اور حالتِ زار کو پیش کرنا تھا تا کہ لوگ مارکسی نظریے کی اقتصادیات کو عمل درآمد  کرنے کے قائل ہو جائیں۔ یعنی یہ تحریک اشتراکی نظامِ معیشت  کے زیرِ اثر ایک پروپیگنڈے کے طور پر استعمال ہو رہی تھی۔ اور اس تحریک کا بنیادی مقصد “مارکسیت” کے فکری رجحان کی ترویج اور تبلیغ تھا۔

ترقی پسند ادیب مارکسی نظریات کو اس طرح عام کرنا چاہتے تھے کہ مارکسی انقلاب کو برپا کرنے میں مزید کوئی رکاوٹ حائل  نہ رہے۔ اور اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے غریب عوام  اور معاشرے کے استحصال زدہ  طبقے کے مسائل کو ادب میں پیش کرنا شروع کیا۔ اس مشق اور سرگرمی کا مقصد یہی تھا کہ لوگ جان سکیں کہ کون کون سے افراد، معاشرہ اور طبقے، کس کس طرح سے غریب غربا کا استحصال کرتے ہیں  اور ان سے چھٹکارا کیسے پایا جا سکتا ہے۔

ترقی پسندوں کا اہم نعرہ “ادب برائے زندگی” پر منحصر تھا۔ انہوں نے “کیسے کہنا ہے”  کی نسبت ” کیا کہنا ہے” کو ضروری سمجھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ترقی پسند تحریک ایک ایسی نظریاتی تحریک کی صورت میں ابھر کر سامنے آئی، جس نے ادب کے فنی ، اسلوبی و اسلوبیاتی پہلو کی مخالفت کی  ، اس سے منہ پھیرا اور اس کی جگہ “ادب کے فکری پہلو” کو زیادہ اہم جانا۔

بہر حال اس تحریک کے ادیبوں نے تمام اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی اور اپنے نظریہ ادب و نظریہ معاشیات کو عام کیا۔ ترقی پسند ادیبوں نے اصنافِ نظم و نثر جن میں نظم، غزل، افسانہ، ڈراما، ناول تنقید غرض پر صنفِ ادب کو “مارکسی” نظریے کا ترجمان بنانے کی کوشش کی۔

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں


اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔

اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔

 

Follow us on

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
Ilmu علمو
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x