ساحر لدھیانوی کی نظم “طلوع اشتراکیت” کا مارکسی مطالعہ

ساحر لدھیانوی کی نظم “طلوع اشتراکیت” کا مارکسی مطالعہ

اکتوبر 1917ء  میں برپا ہونے والے روس کے سوشلسٹ انقلاب نے جہاں دنیا کے ہر شعبۂ زندگی کو متاثر کیا ، وہیں اس انقلاب نے ادب پر بھی اَن مٹ اثرات مرتب کیے۔ دنیا کی تمام زبانوں کے ادب میں سوشلسٹ حقیقت نگاری نے دیگر ادبی نظریات کی نسبت خوب مقبولیت حاصل کی ۔Ilmu علموبابا

ساحر-لدھیانوی-کی-نظم-طلوع-اشتراکیت-کا Sahir Ludhyanvi ki nazm "Tulu-e-Istarakiyat" ka marxi mutalea (Marxist Studies of Sahir Ludhyanvi's poem "Tulu-e-Ishterakiyat")
ساحر-لدھیانوی-کی-نظم-طلوع-اشتراکیت-کا Sahir Ludhyanvi ki nazm “Tulu-e-Istarakiyat” ka marxi mutalea (Marxist Studies of Sahir Ludhyanvi’s poem “Tulu-e-Ishterakiyat”)

یہ پہلی مرتبہ تھا کہ سرمایہ پرست انفرادیت پسندی کے بجائے کُل انسانی اجتماع کو موضوع سخن بنایا گیا ۔ انسانی احتیاجات کو ادب میں موضوع بنایا گیا ۔ اکتوبر انقلاب نے نام نہاد رومانیت پسند بیمار ادب کی جڑیں ہلا کر رکھ دیں ۔ ادب کے ذریعے یہ سوال شدید نوعیت سے پوچھا گیا کہ انسان کیوں بھوکا ہے؟ یہ ننگ ، وحشت ، بربریت،  جہالت،  افلاس اور غربت کیوں پیدا ہو رہی ؟  انسانوں کے درمیان یہ خلیج کیوں کہ ایک طرف سماج کا کثیر طبقہ بھوکا اور ننگا ہے مگر اسی سماج میں صرف چند لوگ عیاشی کی زندگی کیوں گزاریں ؟  ” سوشلسٹ رئیل ازم ”   کا یہ رجحان مارکسزم کے بطن سے پھوٹا اور بیسویں صدی میں ساری دنیا میں پھیل گیا ۔ سوشلسٹ حقیقت نگاری کے اس  رجحان نے اردو ادب پر بھی اثرات مرتب کیے۔  اردو ادب میں اس کی نمائندہ ترقی پسند تحریک تھی۔ اس تحریک کے زیر اثر منشی پریم چند، کرشن چندر، فیض، ساحر، مجاز، کیفی اور دیگر ادیبوں نے مارکسیت کا اطلاق اردو ادب میں کیا۔

ساحر لدھیانوی نے اردو ادب میں سوشلسٹ حقیقت نگاری کو اپنا اوڑھنا بچھوڑنا بنایا۔  ان کی شاعری میں مارکسیت کا عنصر نمایاں ہے۔ بھوک ، ننگ، غربت، جرائم، استحصال، بیماری، عدم مساوات، سامراجیت، سرمایہ داریت اور ظلم و بربریت کے خلاف غم و غصہ ان کی شاعری کے اہم موضوعات ہیں۔

  ساحر لدھیانوی نے بالعموم اپنی شاعری میں اور بالخصوص اردو نظم میں اشتراکیت پر مبنی بہترین نظمیں کہیں۔ ان کی شہرہ آفاق نظموں میں تاج محل، صبح نوروز ، چکلے، بنگال، نور جہاں کے مزار پر، مادام، آواز ِ آدم ، یہ کس کا لہو ہے، شکستِ زندان، بہت گھٹن ہے، اے نئی نسل، ورثہ اور طلوع اشتراکیت جیسی سینکڑوں نظمیں شامل ہیں. ذیل میں ساحر لدھیانوی کی نظم طلوعِ اشتراکیت کا مارکسی مطالعہ کیا گیا ہے۔

مارکسزم کی اصطلاح دراصل انیسویں صدی کے مشہور جرمن فلاسفر کارل مارکس اور ان کے دوست فریڈرک اینجلز  جو کہ برطانوی شہری تھے، کے نظریات پر مبنی ہے. مارکسزم تاریخ کو مادی جدلیات کے تناظر میں دیکھتی ہے۔  مارکسزم کے بہ قول ذرائع پیداوار کے اصل حق دار محنت کش طبقہ ہوتا ہے۔ سید سبط حسن سوشلزم کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ

سائنسی سوشلزم سے مراد وہ سماجی نظام ہے جن میں پیداوار کے تمام زرائع… زمین، معدنیات، کارخانے، فیکٹری، بنک، تجارت وغیرہ…. معاشرے کی مشترکہ ملکیت ہوتے ہیں

مارکسزم کا موضوع محنت کش طبقہ اورچاس سے جڑے مسائل ہیں۔ بھوک، غربت، بے روزگاری، بیماری اس طبقے کے مسائل ہیں۔ ساحر لدھیانوی نے اپنی نظم طلوعِ اشتراکیت میں دراصل بیسویں صدی میں سرمایہ دارانہ نظام کی تاریک رات کت خاتمے اور اشتراکیت کے سورج کے طلوع ہونے کی پیش گوئی کی. یہاں کے ادیب اور شاعر روس میں بڑے پیمانے پر ہونے والے سوشلسٹ انقلاب کے طرز پر انقلاب کے متمنی تھے. اپنی نظم کے آغاز میں وہ صدیوں سے مسلط جاگیرداریت کی منظر نگاری کچھ اس طرح کرتے ہیں


جشن بپا ہے کٹیاؤں میں، اونچے ایوان کانپ رہے ہیں
مزدوروں کے بگڑے تیور، دیکھ کے سلطان کانپ رہے ہیں

 

نظام سرمایہ داریت میں غریب مزدور طبقے کے لوگ کولہو کے بیل کی طرح پس رہے ہوتے ہیں۔ ساحر لدھیانوی کے مطابق جب یہ محنت کش مزدور طبقہ اپنہ محنت کے استحصال کو پہچان لیتا ہے تو ان کے سینوں میں سرمایہ داریت کے خلاف غم و غصہ بھرا دکھائی دیتا ہے اور یہ جس طرح طوفان تباہی پھیر دیتا ہے ویسے ہی یہ مزدور اس نطام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتے ہیں۔ جس طرح زار روس کے تخت کو مزدوروں نے کچل ڈالا تھا۔

 

جاگے ہیں افلاس کے مارے، اٹھے ہیں بے بس دکھیارے
سینوں میں طوفاں کا تلاطم، آنکھوں میں بجلی کے شرارے

 

ساحر لدھیانوی کی یہ نظم دراصل روس کے انقلاب کی عمدہ منظر نگاری ہے۔ سرمایہ داریت کا جبر و استحصال مزدور طبقے کو بغاوت پر مجبور کر دیتا ہے کہ وہ اس طاغوتی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینک کر اک نیا سماج قائم لیا جس میں عدل انصاف مساوات، جمہوریت ہو اور بھوک افلاس اور دہشت گردی نہ ہو1917ء  میں روس کے مزدور طبقے نے اشتراکیت وہ سرخ صبح طلوع ہوتے دیکھی جس کے حوالے سے ساحر لدھیانوی اس نظم میں ذکر کر رہے ہیں۔

 

شور مچا ہے زندانوں میں، ٹوٹ گئے در زندانوں کے
واپس مانگ رہی ہے دنیا غضب شدہ حق انسانوں کے

 

ساحر لدھیانوی کی اس نظم میں زیادہ تر مارکسی الفاظ اور تراکیب استعمال ہوئی جو عمومی طور پر مارکسی شاعری اور ادب میں نظر آتی ہیں۔ مثال کے طور پر سرخ پھریرے، غضب شدہ حق انسانوں کے، روندی کچلی آوازیں، بھوک، کدالیں، دہقان، سرکش طوفان، قفل زندان، نیا سورج، ظالم سلطان، جمہور کی سالاری وغیرہ وغیرہ۔

مجموعی طور پر ساحر لدھیانوی کی نظم “طلوعِ اشتراکیت” مارکسزم کی نظمیہ تعریف ہے جس میں ساحر اشتراکیت کے طلوع ہونے کی منظر نگاری کرتے نظر آرہے ہیں۔ یہ نظم روس کے مارکس کے انقلاب سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے جس میں مزدوروں کی بغاوت، آزادی کی گونج اور سوشلسٹ انقلاب کا ترانہ گایا گیا ہے۔  ساحر کی زیادہ تر شاعری انہیں موضوعات کے گرد گھومتی ہیں۔

(تحریر: رضا علی عابدی)

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں


اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔

اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔

 

Follow us on

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
1 Comment
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
ابدال احمد میرزا
ابدال احمد میرزا
2 years ago

کمال لکھا ہے جناب آپ نے

Ilmu علمو
1
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x