صوبہ خیبر پختونخواہ میں افسانہ کی روایت

صوبہ خیبر پختونخواہ میں افسانہ کی روایت

افسانہ اردو کی وہ ادبی صنف ہے جس کی عمر بیشتر ادبی اصناف کے مقابلے میں کہنے کو تو کم ہے مگر اس مختصر سفر کا بنظرِغائرجائزہ لیا جائے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس نے روزِ اول ہی سے سماج سے اپنا رشتہ اتنی مضبوطی سے استوار رکھا ہے  کہ پل پل کروٹ لیتے ہوئے حالات سے نہ صرف یہ کہ باخبر رہا بلکہ ہر دور میں رونما ہونے والے واقعات کی بھر پور ترجمانی بھی کی ۔دیکھا جائے تو حیات ِ انسانی سے متعلق یہ کردار اردو افسانے نے مختلف انداز میں ادا کیا ہے۔ کبھی سادہ بیانیہ لے کے سامنے آیا، تو کبھی تلخ حقیقتوں کو علامتوں کے پیرائے میں بیان کیا ۔ تاہم یہ طے شدہ صداقت ہے کہ اردو افسانہ انسانی زندگی کا ایسا مفسر اور تفسیر ہے جس سے ہم بے شمار حقیقتوں کا ادراک پا سکتے ہیں۔بحیثیت صنف اردو افسانے کی یہ اہمیت بھی مسلمہ ہے کہ تقریباًگزشتہ ایک سو اٹھارہ سالہ سفر میں قومی، بین الاقوامی ، دیہی ا ور شہری سطح پر ہر علاقے میں ایسے ایسے افسانہ نگاروں نے جنم لیا جنہوں نے نہ صرف اس کی رفتار کو تیز سے تیز تر بنایا بلکہ اس کے وجود کو قائم رکھنے میں بھر پور کردار بھی ادا کیا۔اگر ہم پاکستان کے افسانوی منظر نامے کا جائزہ لیں تو محض صوبائی سطح پر کئی بڑے بڑے نام سامنے آتے ہیں۔

صوبہ خیبر پختونخواہ میں افسانہ کی روایت
صوبہ خیبر پختونخواہ میں افسانہ کی روایت

موضوعِ بحث کے تناظر میں اگر صوبہ خیبر پختونخوا ہ میں اردو افسانہ نگاروں کے منظر نامے پر  ڈالی جائے تو ہمیں  نصیر الدین نصیر ،کلیم افغانی،رضا ہمدانی، فارغ بخاری، اور مظہر گیلانی جیسے نابغہ روزگار ہستیاں نظر آتی ہیں، جنہوں نے اس خطے میں اردو  افسانےکی مضبوط  بنیاد رکھی۔پھر ا س روایت کو خاطر غزنوی ،نصیحہ شہناز، احمد پراچہ، فہمیدہ اختر،طاہر آفریدی،،منور رؤف اور حامد سروش جیسے بڑے قلم کاروں نے زندہ رکھا۔اوراسروایت کو اگلی نسل تک پہنچانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔اسی طرح اگر ہم آج کے موجودہ تناظر کا جائزہ لیں تو یوسف عزیززاہد، ناصر علی سید،مشتاق شباب، خالد سہیل ملک،اویس قرنی اور سید زبیر شاہ اردو افسانے کے میدان میں قدم جمائے ہوئے نظر آتے ہیں۔

براعظم پاک و ہند کے دیگر خطوں کی نسبت صوبہ خیبر پختونخواہ میں اردو زبان و ادب کی نمو دیر سے ہوئی ہے۔ اِس کی دو بڑی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پہلی وجہ اِس خطے کی پسماندگی رہی ہے۔ جس کے باعث یہاں کی عوام  ایک  طویل عرصے تک تعلیم سے ناآشنا رہے ہیں ۔ دوسری وجہ یہاں مقامی زبانوں کا اثرورسوخ ہے۔ اسی لیے ملک بھر کے دیگر خطوں کے مقابلے اُردو زبان و ادب کو یہاں پذیرائی نہ ملی ۔ بہر حال جب اس سر زمین پر تعلیم کی پرچھائیاں پڑیں تو ارودو زبان و ادب کو بھی پھولنے پھلنے اور نشوونما کا موقع ہاتھ آیا۔ ۱۹۰۳ء  میں بزمِ سخن کی بنیاد رکھی گئی۔ ۱۹۱۳ ء میں اسلامیہ کالج پشاور کا قیام عمل میں آیا۔ چند ایک علمی و ادبی رسائل بھی چھپنے لگے۔ اِن اقدامات کی بدولت خصوصاً پشاور میں علمی ، ادبی اور صحافتی سر گرمیوں کو فروغ ملا۔ رفتہ رفتہ یہاں کے ادیب اردو زبان و ادب کی جانب راغب  ہونے لگے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اردو کی ادبی نثر کا آغاز ۱۹۰۰ ء  کے بعد ہی ہوا۔ اس سے پہلے اردو کی ادبی نثر کا سراغ نہیں ملتا۔ البتہ اردو نثر کے کچھ آثار ملتے ضرور ہیں۔ اس حوالے سے بایزید انصاری کی  “سحرالبیان” ، تاریخِڈیرہ اسماعیل خان ، کابل کی ڈائری اور تاریخِہزارہ کے علاوہ چند ایک اخبارات اولین نثرینمونوں میں شمار کیے جاسکتے ہیں۔ تاہم ان سب میں ادبی چاشنی مفقود ہے۔ لہذا یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ بیسویں صدی کی ابتداء سے  پہلے  صوبہ خیبر پختونخواہمیں اردو کی ادبی نثر کا وجود نہیں تھا۔ اردو کی ادبی نثر کے ساتھ جو معاملہ رہا ، وہی معاملہ تقریباً اردو افسانے کے ساتھ بھی رہا ہے۔

صوبہ خیبر پختونخواہ میں اردو افسانے کی ابتداء بیسویں صدی کے پہلے ربع میں ہوئی۔ نصیر الدین نصیر یہاں کے اولین افسانہ نگار ہیں، جنہوں نے اِس سر زمین پر اردو افسانے کی خشتِاوّلرکھی۔ ۱۹۱۴ء میں افسانہ لکھنا شروع کیا۔ ان افسانوں کا رنگ وہی ہے جو اس عہد کا نمایاں وصف تھا۔

نصیر الدین نصیر کے افسانوں میں فنی خامیاں موجود ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ابھی صوبہ خیبر پختونخواہ  میں اردو افسانہ نگاری  کا ابتدائی دور تھا اور اس صنفِ ادب کے خدوخال پوری طرح واضح نہیں ہوئے تھے، جس کی وجہ سے ابھی تک فنی معیارات کا تعین نہیں ہوا تھا۔ اس کے علاوہ نصیر صاحب فن کو موضوع کی نسبت زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے سماجی مسائل  اور پھر ان کی اصلاح کو زیادہ مدِنظررکھا۔نصیرالدین کے افسانوں کا کوئی مجموعہ نہ چھپ سکا ۔ ان کے افسانے نیرنگِ خیال (لاہور) ، عالمگیر (لاہور) اور سرحد ( پشاور) جیسے بلند پایہ ادبی  پرچوں میں شائع ہوتے رہے ۔ ان کے نمائندہ افسانوں میں”سہاگن“،”جوالا مُکھی“، اور” مولوی صاحب کی شلوار“ شامل ہیں۔ان کے بعد قیام پاکستان تک صوبہ سرحد میں کئی افسانہ نگار سامنے آئے ، جن میں سے قابل ذکر خاطر غزنوی، مبارک حسین عاجز ، نذیر مرزا برلاس ، حکیم افغانی ، شمیم بھیروی ، مظہر گیلانی، رضا ہمدانی، فارغ بخاری،  محمد یونس سیٹھی، نعیمہ شہناز، اور عبدالقیوم شق ہزاروی اہم ہیں۔

(عاقب جاوید)

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں


اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔

اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔

 

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
Ilmu علمو
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x