ہم مشتاق وہ بے زار۔ مرزا غالب

ہم مشتاق وہ بے زار۔ مرزا غالب

ہم مشتاق وہ بے زار۔ مرزا غالب
ہم مشتاق وہ بے زار۔ مرزا غالب

مرزا غالب کی غزل “دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے” کے اشعار کی تشریح

 

شعر 2۔ دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے

ہم ہیں مشتاق اور وہ بے زار

یا الہی یہ ماجرا کیا ہے

تشریح۔ دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے

اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کی بیزاری کا گلہ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ، ہمیں ان سے ملنے کا شوق چڑھا ہوا ہے، ہم ان کے قریب ہونا چاہ رہے ہیں، ان کی صورت دیکھنا چاہ رہے ہیں، ان سے بات کرنا چاہ رہے ہیں۔ لیکن ہمارا محبوب ہم سے عاجز  آیا ہوا ہے، اور وہ ہم سے دور  ، اور دور  سے بھی زیادہ دور بھاگ رہا ہے۔

محبت میں ایسا تو نہیں ہوتا کہ ایک ٹوٹ کر چاہے، اور دوسرا نظر انداز کرتا رہے۔ یہ تو سراسر نا انصافی ہے کہ ہمارا محبوب باقی  تمام دنیا سے ملاقات کر لیتا ہے، لیکن ایک ہم ہی ہیں جسے وہ  مسلسل نظر انداز کئے جا رہا ہے۔

؎گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی

اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی

اس کے بعد عاشق محبوب سے مایوس ہو کر اپنے خدا سے مدد مانگتا ہے، کہ وہ ہی آخر سہارا اور آسرا ہے جو عاشق اور محبوب کو اکٹھا کر دکے۔ شاعر کہتا ہے کہ ،یا خدا، تو ہی میری مدد فرما۔ میرے محبوب کے دل میں میرے لیے محبت  پیدا کر دے۔ اور اسے تھوڑا سا احساس دلا دے کے میں اس ی محبت میں ، اس سے ملاقات کا کتنا اشتیاق رکھتا ہوں۔ یا خدا محبت میں ایسا تو نہیں ہوتا۔

(تحریر: ع حسین زیدی)

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translation. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں

اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔

اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔

 

Follow us on

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
Ilmu علمو
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x